مری بیٹی تجھے میکے سے اب سسرال جانا ہے
یہاں سیکھا ہوا جادو وہاں جا کر چلانا ہے
ترا میک اَپ بگڑ جائے گا آنسو پونچھ لے اپنے
تجھے رونا نہیں پگلی تجھے تو مسکرانا ہے
جو سہرا باندھ کر آیا ہے وہ تا عمر روئے گا
سکوں کی نیند ساری زندگی اب وہ نہ سوئے گا
گرہ میں باندھ لے بیٹی مری اک اک نصیحت کو
اسی کے زور پر تُو ٹالنا اپنی مصیبت کو
جو میری زندگی کا تجربہ ہے وہ بتاتی ہوں
اگر مر جاؤں میں تو یاد رکھنا اس وصیّت کو
بچھا دینا وہاں جاتے ہی اپنا جال شطرنجی
در و دیوار ہل جائیں وہ چلنا چال شطرنجی
یہ سچ ہے جا رہی ہے تو نئے گھر میں بہو بن کر
متاعِ آبرو بن کر چراغِ آرزو بن کر
مگر تیرے لیے وہ جنگ کا میدان ہے بیٹی
سپاہی کی طرح رہنا ہے تجھ کو جنگجو بن کر
جو تو نرمی دکھائے گی تو سب تجھ کو دبائیں گے
رہے گی سخت تو سب کے پسینے چھوٹ جائیں گے
دکھانا مفسدانہ ذہن کی ہر وقت زرخیزی
زباں میں تیری ہونی چاہیے تلوار کی تیزی
لپکتے ہی رہیں آنکھوں میں ہر پل برق کے شعلے
ترے دم سے رہے قائم جہاں میں رسمِ چنگیزی
نہ بیٹھے ناک پر مکھّی کچھ ایسی آن سے جینا
جماکر دھاک اپنی ہٹلرانہ شان سے جینا
یہاں بادِ صبا تھی تو وہاں طوفان بن جانا
جو لے لے سب کو اپنی زد میں وہ بحران بن جانا
محبت کا مروّت کا زمانہ لد گیا بیٹی
کوئی آنکھیں دکھائے تو ہلاکو خان بن جانا
وہ ہے اک آگ کا دریا جسے سسرال کہتے ہیں
مگر تو بھی کہاں ہے کم تجھے بھونچال کہتے ہیں
ترا سسرال میں اک اک قدم پر امتحاں ہوگا
جسے تو مہرباں سمجھے گی وہ نامہرباں ہوگا
ہر اک بازی الٹ دینی ہے تجھ کو دستِ حکمت سے
اکھاڑے میں ترے چت سازشوں کا پہلواں ہوگا
کوئی آئے کوئی جائے نہ تیرا رنگ ہو پھیکا
تجھے رہنا ہے ایسے جس طرح رہتا ہے امریکا
قدم جو بھی اٹھانا وہ کمالی ہو مثالی ہو
محبت بھی تری بغض و عداوت سے نہ خالی ہو
یہ گُر کی بات ہے اس سے رہے گی فائدے میں تو
ترا ظاہر جمالی ہو مگر باطن جلالی ہو
ملے کلاّ درازی میں نہ ڈھونڈے سے ترا ثانی
ترا کاٹا ہوا بیٹی کبھی مانگے نہیں پانی
”ترے خوابوں کا شہزادہ ترا دلبر“ خریدا ہے
بڑی موٹی رقم دے کر ترا شوہر خریدا ہے
اشارے پر ستارے آسماں سے توڑ لائے گا
بہت خدمت کرے گا قیمتی نوکر خریدا ہے
یہ سب کچھ سیکھ جائے گا سکھا لینا پڑھا لینا
رہے گا دُم دبا کر پالتو اس کو بنا لینا
ہمیشہ دور رہنا ہے تجھے کھانا پکانے سے
غرض تجھ کو نہ رکھنی چاہیے چاے بنانے سے
کوئی ماڈرن لڑکی بھی بھلا یہ کام کرتی ہے
اسے فرصت کہاں خوابوں کی دنیا کو سجانے سے
اگر شوہر اڑے ضد پر محبت سے منا لینا
اسے کہنا کہ بہتر ہے کسی ہوٹل میں کھا لینا
کبھی جھاڑو نہیں دینا کبھی برتن نہیں دھونا
سویرے اٹھ نہ جانا دس بجے تک چین سے سونا
شکایت کا رہے دفتر کھلا ہر حال میں تیرا
مزے میں رہ کے رونا ہے تجھے ہر بات کا رونا
ملے جو فائدہ تجھ کو اسے نقصان کہنا ہے
فرشتے ہوں جو گھر والے انھیں شیطان کہنا ہے
رہے اس پر ترا قبضہ جو شوہر کی کمائی ہے
میاں کو اپنے سمجھانا ”ترا بھائی قصائی ہے“
کرانا ماں سے برگشتہ اسے آہستہ آہستہ
جو بڈّھی ساس ہے گھر میں وہ تیرے گھر کی دائی ہے
اسے ہر کام کرنے کے لیے مجبور کر دینا
وہ ظالم ہے محلّے بھر میں یہ مشہور کر دینا
ترے پاپا کو میں کیسے یہاں چکرائے رکھتی ہوں
دہاڑوں سے انھیں کس کس طرح دہلائے رکھتی ہوں
لگام ان کی کبھی چھوڑی نہیں ہے اپنے ہاتھوں سے
وہ پاگل تو نہیں ہیں میں انھیں پگلائے رکھتی ہوں
یہی نسخہ ہے تیرے واسطے بھی کارگر بیٹی
دکھاؤں کیوں نہ رستہ میں ہوں تیری راہبر بیٹی
وہاں کیا ہو رہا ہے ایک اک پل کی خبر کرنا
اُدھر کی بات جتنی ہو موبائل سے اِدھر کرنا
بڑوں کے سامنے بھی ڈھیٹ بن کر تجھ کو رہنا ہے
جو ڈرتا ہے وہ مرتا ہے کسی سے بھی نہ تو ڈرنا
اگر تجھ سے بغاوت کا کوئی پتّہ کہیں کھڑکے
تو شعلے کی طرح بھڑکے تو بجلی کی طرح کڑکے
حسد کی آگ میں نندوں سے جلنا ہے تجھے بیٹی
سدا چھاتی پہ ان کی مونگ دلنا ہے تجھے بیٹی
اسی میں کامیابی ہے اسی میں کامرانی ہے
چلی جس راہ پر میں اس پہ چلنا ہے تجھے بیٹی
اشارہ ہی ہوا کرتا ہے کافی عقل مندوں کو
چنے ناکوں سے چبوانا ہے اپنی ساس نندوں کو
تجھے کرنا ہے سارا کام اپنا برد باری سے
سیاسی جاں نثاری سے سیاسی خاکساری سے
سسر جب تک رہیں گھر میں تو خوش اخلاق بن جانا
بنانا اس طرح احمق انھیں بھی ہوشیاری سے
اگر خطرہ نہ ہو کوئی تو اپنی حد سے بڑھ جانا
جو ٹوکے ساس تجھ کو ساس کی چھاتی پہ چڑھ جانا
لگانا منہ نہ بھولے سے کبھی اپنی جٹھانی کو
سمجھنا پاوں کی جوتی ہمیشہ دیورانی کو
اگر دیور جمائے رعب تجھ پر نوچ لینا منہ
اٹھا کر ہاتھ دونوں کوسنا اس کی جوانی کو
ہر اک فتنے کا سر اٹھنے سے پہلے ہی کچل دینا
لڑے کوئی تو اس کا جوتیوں سے منہ مسل دینا
اگر شوہر کرے ماں اور بہنوں کی طرف داری
سمجھ لینا کہ تیری ساس نے ہے اس کی مت ماری
جب ایسا وقت آئے تو اسے تعویذ پہنانا
کرانا ٹوٹکے بیٹی دکھانا اپنی ہشیاری
یہاں سے دم کرا کر بھیجوں گی چینی کھلا دینا
اگر کترائے تو شربت کے حیلے سے پلا دینا
ترے دم میں ہے دم جب تک تو میکے کے ہی گن گانا
کبھی اس سے نہ گھبرانا کبھی اس سے نہ شرمانا
تجھے جنت سے بھی بہتر نظر آئے ترا میکہ
کہے سسرال کو دوزخ سے بدتر بے حجابانا
اگر کانٹا ہو میکے کا تو اس کو پھول کہنا تو
مگر سسرال والوں کو قدم کی دھول کہنا تو
کبھی کہنا یہ اِترا کے مرا میکہ مرا میکہ
کبھی کہنا یہ لہرا کے مرا میکہ مرا میکہ
مذاقاً بھی کوئی ہنس دے تو سن کے چپ نہ رہ جانا
اسے کہنا یہ دھمکا کے مرا میکہ مرا میکہ
ہر اک سامان کو کہنا کہ یہ میکے سے آیا ہے
دیا تھا اس کو ممّی نے یہ میرا بھائی لایا ہے
یہاں سے کوئی جائے تو اسے کرسی بڑھا دینا
کھلانا مرغ و ماہی راہ میں پلکیں بچھا دینا
نظر انداز کر دینا جو آئیں تیرے نندوئی
انھیں بس چاے ٹھنڈی اپنے ہاتھوں سے پلا دینا
نہ کرنا بھول کر ہرگز کسی کی ناز برداری
لپٹ جائے گی تیری جان سے ورنہ یہ بیماری
دیا سامان جو میں نے کڑی اس پر نظر رکھنا
کوئی تنکا بھی اس میں سے نہ لے اس کی خبر رکھنا
کہیں ایسا نہ ہو یہ ظالموں کے ہاتھ لگ جائے
جہیز اپنا چھپا کر اے مری لختِ جگر رکھنا
سخاوت کا اٹھے طوفان تو دل میں دبا لینا
کوئی رومال بھی مانگے تو اس سے منہ پھلا لینا
کبھی زیور کبھی کپڑے کی تو کرنا خریداری
جو زیور ہوں وہ بھاری ہوں دکھانا اس میں ہشیاری
نکل جائے اگر شوہر کا دیوالہ تو کیا غم ہے
مقدّر ہے ہر اک شوہر کا بیٹی ذلّت و خواری
تمنّاؤں کا خوں ہو جائے یہ اندھیر مت کرنا
نئے فیشن کو اپنانے میں ہرگز دیر مت کرنا
کبھی آسام جانا تو کبھی بنگال جانا تو
ہمالہ کی ترائی گھومنے نیپال جانا تو
جو موسم آئے گرمی کا تو اپنے گھر میں مت رہنا
براے سیر شملہ اور نینی تال جانا تو
مسوری کا کبھی کشمیر کا پھیرا لگا لینا
ملے راحت جہاں تجھ کو وہاں ڈیرا جما لینا
کہاں تک میں کہوں گی کہہ رہی ہوں مختصر بیٹی
بلا ناغہ تجھے جانا ہے بیوٹی پارلر بیٹی
وہاں ہر روز چہرے کی تجھے پالش کرانی ہے
یہی شوہر کو مٹھّی میں ہے رکھنے کا ہنر بیٹی
تجھے شوہر کو رکھنا ہے بنا کر اپنا دیوانہ
یہی دیوانگی دے گی تجھے خوشیوں کا پروانہ
محبت کے محل کی خود سے دربانی ضروری ہے
ہر اک بیوی کو شوہر کی نگہبانی ضروری ہے
پھنسا سکتی ہے کوئی مال زادی اس کو پھندے میں
کہیں اس کا نہ ہو جائے وہ، نگرانی ضروری ہے
ہوئی ہیں لغزشیں ایسی فقیروں اور شاہوں سے
ہمیشہ دیکھتی رہنا اسے شک کی نگاہوں سے
دعائیں ہیں مری خوشیوں کے جھولے میں سدا جھولے
چمن تیرا رہے شاداب جس میں تو پھلے پھولے
ترے سسرال میں تیری حکومت کا چلے سکّہ
پڑھایا جو سبق میں نے کبھی اس کو نہ تو بھولے
قیامت تک چلے یہ سلسلہ اونچا ہو سر بیٹی
تری بیٹی ہو تجھ سے بھی زیادہ نامور بیٹی