میرے نزدیک انگریزی کا جاننا ضروری تو ہے لیکن اگر آپ کہیں کہ صرف انگریزی کی بنیاد پر آپ اپنے پروفیشن میں کامیاب ہوں تو یہ بھی درست نہیں۔
مثال اپنے پیشے سے دوں گا۔
پچھلے دنوں لاہور کے ایک ایڈیشنل سیشن جج جناب عمر فاروق صاحب کی عدالت میں میرا ایک کیس تھا۔ یہ ایک اپیل تھی۔ میرے ساتھ چودھری آصف شہزاد صاحب ایڈووکیٹ تھے اور مخالف سائیڈ پر ایک ’’سینیئر‘‘ وکیل صاحب تھے۔ یہ اپنے جونیئرز کی ایک پوری ٹیم کے ساتھ حاضر تھے۔
مقدمے پر بحث شروع ہوئی۔ فاضل دوست نے بحث اور اپنا موقف پیش کرنے کیلئے انگریزی زبان کا انتخاب کیا۔ کچھ تھوڑی بہت ٹھیک بول رہے تھے اور باقی میرے جیسی ہی۔ جیسی کمانڈ انگریزی پر تھی اس سے بھی بری قانون پر۔ جج صاحب اور ہمیں قانون سے زیادہ اپنی انگریزی سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی انگریزی میں بحث کے دوران ایک دو بار میری بھی مسکراہٹ حد سے زیادہ ہوئی۔ جج صاحب کے تاثرات بھی ایسے تھے کہ جیسے وہ بھی بمشکل ہی کنٹرول کر رہے ہوں۔
خیر، کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر ان سینیئر دوست نے اپنی انگریزی جاری رکھی۔
فرما رہے تھے کہ میری 26 سال کی لا پریکٹس ہے۔
ہماری باری آئی تو چودھری آصف شہزاد صاحب اور میں نے مکمل اعتماد کے ساتھ شدھ اردو میں اپنا موقف سامنے رکھا اور اپنے مقدمے کی حمایت میں کیس لاز اور قوانین بھی پیش کئے۔ مخالف وکیل صاحب کی نسبت ہمارے پاس قانون کے دلائل اچھے تھے۔ فیصلہ محفوظ ہوا۔ دو دن بعد سنایا گیا تو ہمارے حق میں تھا۔ شکر کیا۔
بھائیو! انگریزی آنی چاہئے۔ اچھی بات ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔
انگریزی ایک زبان ہے، ذہانت ماپنے کا آلہ نہیں۔
مجھے انگریزی تو آتی ہو لیکن جو میرا پیشہ اور جس چیز میں مجھے مہارت لازمی ہونی چاہئے، مطلب قانون، وہ مجھے آتا ہی نہ ہو تو کیا کرنا اس انگریزی کا؟
صرف یہ انگریزی آپ کو کامیابی نہیں دلائے گی بس۔
لیکن اگر آپ کو انگریزی آتی ہے اور ساتھ میں اپنے کام میں مہارت بھی ہے تو پھر یہ سونے پہ سہاگہ جیسا ہے۔