میں دسویں جماعت میں تھا، زلفی ایک اونچے گھوڑے پر سوار ہو کر ہماری گلی میں داخل ہوتا تھا اور گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے دروازہ کھٹکھٹا دیا کرتا تھا۔ میری بہنوں میں سے کوئی دروازے کی ریخ میں سے دیکھ کر کہتی،"تمہارا گھڑ سوار دوست آ گیا" مجھے لگتا جیسے میرے دانتوں تلے ریت آ گئی ہو۔ بادل نخواستہ اسے ملنے کے لیے گھر کے دروازے سے نکل جاتا اور جتنی جلدی ممکن ہوتا اسے رخصت کرنے کی کوشش کرتا۔
زلفی گل گوتھنا، معصوم شکل، گورا لڑکا تھا۔ اس کی انفعالیت سے متعلق سکول میں سب کہتے تھے۔ ایسے شہدوں سے تو میرا بھی پتہ پانی ہوتا تھا جو پیچھے آ کر ایک ایک خاص قسم سے کھنکارتے تھے۔ میری چال میں لڑکھڑاہٹ آ جاتی تھی اور قدم تیز ہو جاتے تھے۔ ایسے لوگ لڑکوں کی جانب رغبت کے سلسلے میں بدنام ہوا کرتے تھے۔ مگر زلفی تو بے ضرر لگتا تھا البتہ اس کی "دیکھنی" ایسی ہوتی تھی جیسے اس کی آنکھوں سے خواہش بہہ کر باہر آ جائے گی۔ اس کا مسکراتے ہوئے یہ پوچھنا "میں کیسا لگ رہا ہوں" بہت الجھن میں ڈالنے والا ہوتا تھا۔
میں پڑھننے کے لیے لاہور چلا گیا۔ ایف ایس سی کے بعد ٹیگ سسٹم کے تحت مجھے نشتر ملتان میں داخلہ ملا تھا۔ 1971 میں جب طلباء مشرقی پاکستان سے ڈسپلیس ہو کر آئے تو ان میں میرا ایک کلاس فیلو بھی تھا جس کا بھائی مجسٹریٹ تھا۔ کچہری میں اس کی ملاقات زلفی سے ہوئی تھی۔ وہ اب کمشنر آفس میں ملازم تھا یوں زلفی ایک بار پھر مجھے ملنے لگا تھا۔ یقین کیجیے جب وہ مجھے ملنے آتا تھا تو میں ہوسٹل کے کمرے کا دروازہ چوپٹ کھول دیا کرتا تھا جو عام طور پر ہمیشہ بند رکھا کرتا تھا۔ اس کے ہاتھوں کا بہکنا اور مسلسل خجل مسکان مسکراتے ہوئے اپنے جسم کے بارے میں باتیں کرنا در کھلا رکھنے کی وجہ ہوتی تھی۔ جب وہ کبھی موٹر سائیکل پر میرے پیچے بیٹھتا تو چپک کر بیٹھتا جیسے چھپکلی اور چھپکلی سے میری جان جاتی ہے۔
مطلب یہ کہ میں بھی اکثریت کی طرح "ہم جنسیت گریز" یعنی "ہومو فوبک" ہوں۔ سب جانتے ہیں کہ ہر چیز کے دو یا دو سے زیادہ پہلو ہوا کرتے ہیں چنانچہ "ہم جنسیت گریزی" کا دوسرا پرتو یعنی "ہم جنست سے رغبت" کا کچھ حصہ ہم سب کے لاشعور میں کہیں کروٹیں لے رہا ہوتا ہے۔ اردو اصطلاح "ہم جنس پرستی" ہومو سیکسویلیٹی کا یکسر غلط ترجمہ ہے جو "ہم جنسیت گریزی" کا عنصر شدید ہونے کے باعث کیا گیا ہوگا البتہ اگر "ہم جنس پسند" کہا جاتا تو بہت حد تک مناسب ہوتا۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ ہیٹروسیکسول کو " جنس مخالف پرست" کہا گیا ہو۔ اس نوع کے تعصب کا اظہار صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ کچھ اور معاملات بارے دوسری زبانوں میں بھی کیا جاتا ہے جیسے عورتوں کے ساتھ تعلقات رکھنے والے کو انگریزی زبان میں "وومنائزر" کہا جاتا ہے لیکن اگر عورت بہت سے مردوں کے ساتھ تعلقات رکھے تو ایسی عورت کو " نمفومینیک" کہا جاتا ہے جیسے وہ جنونی ہو۔ اس طرح کے مرد کے لیے ڈان جوان اور کیسانووا جیسے متفاخرانہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جبکہ عورت کے لیے ہور اور سلٹ یعنی گشتی کنجری جیسے الفاظ برتے جائیں گے۔
ضروری نہیں کہ ہم جنسیت کی جانب مائل یا اس سے کسی سطح کی رغبت رکھنے والے یا والیاں (یاد رہے تکنیکی طور پر یعنی ہارمونوں کے حوالے سے ایسا تھوڑا سا عنصر سبھی مردوں اور عورتوں میں ہوتا ہے، ورنہ جانوروں میں ہم جنسی دیکھنے میں نہ آتی۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے شعور کی بلند سطح اور تربیت کے مخصوص پیمانوں کے باعث اس عنصر کو دبا دیا ہے یا سلا دیا ہے) ہم جنسی فعل کی جانب بھی راغب ہوں۔ یوں ہم جنسی کی جانب راغب ہونے والوں اور ہم جنسی عمل میں شامل ہونے والوں کو علیحدہ کرکے دیکھنا ہوگا۔
میں اور آپ سب مرد چونکہ عورتیں نہیں اس لیے عورتوں کے محسوسات کے بارے میں جو کچھ کہیں گے وہ سنی پڑھی باتیں ہونگی مگر دل لگتی کہیے کیا ہم سب کے دلوں میں زندگی کے مختلف ادوار میں کسی حسین ہم جنس کو دیکھ کر ایک ہلکی سی یا شدید سہی کسک پیدا نہیں ہوئی۔ چاہے یہ سوچ کر ہی کہ اگر یہ اتنا حسین ہے تو اس کی بہن کتنی حسین ہوگی، ایسا کہنا مذاق بھی ہے اور مذاق ہے بھی نہیں، اس طرح سوچتے ہوئے ہم ایک بار پھر اپنی ہم جنس رغبت کی سانس بند کر رہے ہوتے ہیں۔
جنسی عمل کوئی بھی ہو جنس مخالف کے ساتھ یا ہم جنس کے ساتھ وہ آنکھوں اور ہاتھوں سے شروع ہو کر ہی اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ چونکہ سوسائٹی ہمیں سکھا چکی ہے کہ ہاتھ پھیرنا، سہلانا، پچکارنا، پیار کرنا جنس مخالف کے ساتھ ہی زیب دیتا ہے، اس لیے ہم عمر کے ایک خاص حصے کے بعد، عموما" سترہ اٹھارہ برس کے بعد ان افعال کا ہدف جنس مخالف کو خیال کرنے لگتے ہیں۔
پھر ہم میں سے وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو سوسائٹی کے سکھائے ہوئے اعمال کو نہیں مانتے یا نہیں مان سکتے۔ ہم جھٹ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ جنہیں ایسا کرنے کی لت لگ چکی ہوتی ہے۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ جو ایک خاص عمر تک یا جنس مخالف سے تعلق استوار ہونے تک ہم جنس افراد سے تعلق رکھتے ہیں اور پھر اسے ترک کر دیتے ہیں؟ یا کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جنس مخالف اور ہم جنس دونوں سے ہی تعلق رکھنے کو مناسب تصور کرتے ہیں یا وہ جو جنس مخالف کے ساتھ وہ جنسی عمل کریں جو ہم جنس کے ساتھ کیا جانا ممکن ہوتا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جنس مخالف کے حصول میں دشواری سے لاشور میں دبی ہم جنس کے ساتھ رغبت ابھر آتی ہے اور جنس مخالف سے ربط ہونے کے بعد ماند پڑ جاتی ہے یا ترک کر دی جاتی ہے۔ مگر وہ لوگ جن میں جنس مخالف کی جانب رغبت پروان ہی نہیں چڑھتی وہ ایسا نہیں کہ سوسائٹی کی تربیت سے بغاوت کرتے ہیں بلکہ ان کے شعور میں وہ باتیں جگہ ہی نہیں پا سکتیں جو سب کے شعور میں جگہ پا لیتی ہیں کیونکہ ان کے شعور میں لاشعور کا وہ فطری پہلو راسخ ہو جاتا ہے جسے صوفیاء نے عشق مجازی کا نام دیا تھا۔ عشق مجازی میں عورت نہیں بلکہ کم عمر ہم جنس پایا جاتا ہے۔
ہم جنس کی جانب انسیت والوں سے متعلق مذہبی اور سماجی حوالوں سے معاندانہ رویہ ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں عیسائی، یہودی، ہندو بھی ان کے مخالف ہیں۔ دوسرا رویہ سماجی ہے جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں یعنی "ہم جنسیت گریزی"۔ رہی بات مذہبی حوالے سے مخالفت کی تو اس کے لیے حضرت لوط کے قبیلے (قوم) کی داستان کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں ہم جنس انسیت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ مردوں کا عورتون کی جانب میلان ختم ہو چکا تھا۔ معاشرے کی بنت خراب ہو رہی تھی۔ اس قبیلے نے اپنے پیغمبر کی نصیحت پر بھی کان نہ دھرا تھا اور بالآخر اس قوم پر عذاب طاری کیا گیا۔ تباہ ہونے والوں میں لوط کی بیوی بھی شامل تھی۔ اس کے میلان سے متعلق کسی بھی الہامی کتاب میں کچھ نہیں ملتا۔
تو کیا کسی بھی سماج میں یہ رجحان عام ہو چکا ہے؟ مجھے تو زلفی یا اس جیسے دو ایک اور نظر آئے ہیں ساری عمر میں۔ ان معاشروں میں بھی جہاں ایل جی بی ٹی یعنی ہم جنس انسیت کے حامل مردوں اور عورتوں کو ایسا کرنے کی اجازت ہے، ایسے لوگوں کی شرح آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ یہ اقلیت وہ ہے جن کا اپنے رجحان کو ترک کرنے پر زور نہیں چلتا جیسے بائیں ہاتھ سے کام کرنے اور لکھنے والے کا ہاتھ توڑ دیں تو اور بات ہے مگر وہ بایاں ہاتھ ہی استعمال کرے گا۔ پہلے بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے کو شیطان کا ساتھی خیال کیا جاتا تھا اور اب وہ امریکہ کا صدر ہے۔ درست ہے کہ ہم اسے اب بھی شیطان کا ساتھی تصور کرتے ہیں، اس کے انسان دشمن اعمال کے باعث نہ کہ اس کی بائیں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت کے سبب۔
“