اپنے گھر تقریب میں مہمانِ خصوصی؟
توقیر ناصر سے تعلق کو چالیس سال ہونے کو آئے۔ وہ ہمارے ہی شعبے کا ایک مؤدب اور شائستہ نوجوان تھا ۔۔۔۔ ہم میں اور بھی کئی چیزیں سانجھی تھیں۔
اس کی کارکردگی اور کامیابیوں پر ہمیشہ خوشی ہوتی رہی۔
لیکن آج ایک تقریب کے اشتہار میں اس کا نام بطور مہمانِ خصوصی درج دیکھا تو قطعی خوشی نہیں ہوئی بلکہ ایک طرح کی تشویش ہوئی۔ کیونکہ 6 جولائی کو ہونے والی یہ تقریب لاہور آرٹس کونسل ( الحمرا ) کی ہے جس کا وہ خود سربراہ ہے۔ اپنی ہی تقریب میں میزبان کی بجائے مہمانِ خصوصی کیوں ؟
وہ خوشامدیوں کے چکر میں تو نہیں پھنس گیا ؟ کوئی خود کو مالک اور اسے مہمان کیوں باور کرا رہا ہے ؟
اپنے ادارے کی تقریب کی صدارت یا مہمان خصوصی بننے کی بس ایک مثال یاد آتی ہے۔ برادرِ بزرگ فخر زماں کی، جب وہ اکادمی ادبیات کے چئیرمین تھے۔
وہ بڑے تھے ، سو کبھی کچھہ کہہ نہ سکا ۔
لیکن توقیر ناصر، اگرچہ عرصے سے مِلا نہیں، لیکن جب بھی مِلا چھوٹے بھائیوں کی طرح مِلا ۔۔۔ اسے تو کہہ سکتا ہوں۔
تو بھائی ! اپنی تقریب میں آپ میزبان ہی رہیں۔
جیسے نذیر ناجی صاحب اکادمی ادبیات کے چئیر مین تھے تو اکادمی کی تقاریب میں سب سے پچھلی قطار میں بیٹھتے تھے اور ہر آنے والے کا خود استقبال کرتے تھے۔
ناجی صاحب کا ذکر آیا تو ایک اور بات بھی یاد آگئی۔ ان کا ایک کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
کسی ادیب شاعر کا انتقال ہوتا تھا تو قراردادیں منظور ہوتیں، اپیلیں کی جاتیں کہ ان کے بال بچوں کی مدد کی جائے۔ ناجی صاحب نے ایسا انتظام کردیا کہ مرحومین کے ورثأ کوایک معقول رقم کسی اپیل یا درخواست کے بغیر فوری طور پر مل جائے۔ ناجی صاحب کےاس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے اچھے تعلقات تھے، ان سے کہہ کر انہوں نے ایک بھاری رقم حاصل کرکے سیکڑوں ادیبوں شاعروں کی75 سال عمر تک کی گروپ انشورنس کرادی۔ اس طرح لواحقین کو ایک مناسب رقم ان کے استحقاق کے طور پر ملنے لگی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“