انگریز 1947 میں برِصغیر سے رخصت ہوا۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بہار میں فسادات کے بعد مسلم آبادی نے فسادات کے بعد پاکستان کا رخ کیا۔ گاؤں گاؤں جا کر ان کو پاکستان ہجرت کی دعوت دینے والے ایک طالب علم راہنما شیخ مجیب الرحمٰن تھے۔
پھر کیا ہوا؟ یہ لمبی کہانی ہر کوئی اپنے الفاظ میں سنائے گا، لیکن اس سے دو دہائیوں بعد شروع ہونے والی بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی میں یہ مہاجرین تاریخ کی غلط طرف پائے گیے۔ اردو بولنے والی اس کمیونیٹی نے لسانی بنیاد پر شروع ہونے والی تحریک میں اردو بولنے والی سائیڈ کو سپورٹ کیا۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد 26 مارچ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان ریڈیو پر تقریر سے کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ آپریشن سرچ لائٹ شروع ہوا۔ اس دوران جو کچھ ہوا، اسقدر شرمناک تھا کہ اس سب سے شاید آج آنکھیں بند کر لینا ہی ٹھیک، لیکن بہاریوں کی کہانی آج تک ختم نہیں ہوئی۔ اس بہنے والے خون میں ان بہاریوں کا خون بھی شامل تھا جن کو تحریک آزادی میں پاکستان کو سپورٹ کرنے کے جرم میں جیسور، پنچھا بی بی اور کھلنا میں بڑی تعداد میں قتل کیا گیا۔ کچھ اندازے قتل کئے گئے بہاریوں کی تعداد ڈیڑھ سے دو لاکھ تک بتاتے ہیں۔
جذبات ٹھنڈے ہو جانے کے بعد ان کو آپشن دی گئی کہ یہ بنگلہ دیش کی شہریت اختیار کر سکتے ہیں۔ ان میں سے چھ لاکھ نے پاکستان جانے کا انتخاب کیا۔ پاکستان نے 1974 میں بنگلہ دیش کو الگ ملک تسلیم کیا۔ ان کی بہت آہستہ آہستہ پاکستان آمد شروع ہوئی۔ ایک لاکھ ستر ہزار پاکستان تک پہنچ گئے۔ اپنے پیچیدہ حالات کی وجہ سے پاکستان نے 1978 ایک حکم نامے کے ذریعے باقی تمام بہاریوں کی پاکستانی شہریت منسوخ کر کے ان کے مسئلے سے اپنے ہاتھ جھاڑ لئے۔
پچھلے 47 برس سے یہ لوگ بغیر کسی ملک کی شہریت کے ہیں۔ اپنے آپ کو یہ آج بھی پاکستانی کہتے ہیں۔ سرکاری سکول، ہسپتال، بینک اکاؤنٹ، ملازمتوں، پاسپورٹ یا کسی بھی دوسری سہولت پر ان کا حق نہیں۔ بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب ان میں سے وہ لوگ جو بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پیدا ہوئے، وہ بنگلہ دیشی شہریت اختیار کر سکیں گے۔ تاریخ کے جبر کا شکار ہونے والے یہ لوگ آج ایک پسماندہ معاشرے کا پسماندہ ترین طبقہ ہیں۔ جب 1947 میں ان کے آباؤاجداد نے بہار اور اترپردیش سے بنگال کے سفر کا آغاز بہتر زندگی کی امید سے کیا تھا تو شاید ان لوگوں اپنی اگلی نسلوں کی زندگی کا یہ مستقبل نہیں سوچا ہو گا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے مارچ 2015 میں پاکستانی سپریم کورٹ میں اس پر چلنے والے کیس میں اپنا مؤقف واضح کر دیا تھا کہ چار سے پانچ لاکھ 'پھنسے ہوئے پاکستانی' پاکستان کا نہیں، صرف بنگلہ دیش کا مسئلہ ہیں۔
نوٹ نمبر ایک: اس پوسٹ کا مقصد صرف یہ اجاگر کرنا ہے کہ تاریخ کی سب سے بھاری قیمت عام طور پر وہ انسان چکاتے ہیں، جو نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اس میں لکھے حقائق کو کسی بھی ذریعے سے پرکھا جا سکتا ہے۔ حساس موضوع ہونے کی وجہ سے کوشش کی ہے کہ کوئی بھی متنازعہ چیز شامل نہ کی جائے لیکن اگر پھر بھی کچھ قابلِ اعتراض لگے تو نشاندہی کر دیجئے۔
نوٹ نمبر دو: دنیا میں ایک کروڑ سے زائد اس طرح کے افراد ہیں جو اپنے گھر میں اجنبی ہیں اور کوئی شہریت نہیں رکھتے۔ ان کا سب سے بڑا گروپ میانمار کے روہنگیا کا ہے۔ اس کے علاوہ کویت، نیپال، آئیوری کوسٹ، شام، عراق، کینیا، سابق روسی ریاستوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر سٹیٹ لیس گروپ موجود ہیں۔
سپریم کورٹ میں اس پر چلتے کیس پر ایک خبر