اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں ۔۔کبھی ھم نہیں
چند دن سے پرنٹ، الیکٹرک، اور سوشل میڈیا پر ایک خاص قسم کی لابنگ کی جا رھی ھے جس میں سنیٹر کرشنا کماری کو بار بار دلت۔۔شودر۔۔۔اور نچلی ذات کا کہ کر اس کی تذلیل کی جارھی ھے۔ اور سنیٹر کا ٹکٹ دینے پر PPP کو ابراھیم لنکن ثانی ثابت کرنے کی ناکام سی کوشش کی جا رھی۔(اگرچہ سندھ سے تعلق رکھنے والے۔انور لال دین اور کرشناکماری دونوں ھی معاشی طور پر انتہائی پسماندہ اور غریب مگر محنت کش اور خودار پس منظر تعلق رکھتے ھیں) جبکہ سچ یہ ھے کہ آزادی کے ھیرو روپلو کولہی شھید کی پڑپوتی کرشنا کماری اس نام نہاد آزاد پاکستان میں غلامی اور اسیری وقید کی صعوبتیں بھی کاٹ چکی ھے۔ ذاتی طور پر میں ذات پات اور حسب نسب جیسے ڈھکوسلوں کو نہیں مانتا۔۔مگر پھر بھی احساس کمتری کے مارے ھوے ذھنی مریضوں کو اطلاع ھو کہ کولہی راجستھانی راجپوتوں کی چند اھم شاخوں میں سے ایک ھے وہ الگ بات ھے کہ غربت اور ٹھاکروں ۔۔ارباب۔۔۔اور حکومت پاکستان کی مہربانی کی وجہ سے یہ یہاں نچلی ذات بنا دیئے گئے ھیں۔ شاید کچھ لوگوں کو یقین ناں آے کہ یہ کیسے ممکن ھے؟
تو جناب یہ ویسے ہی ممکن ھے جیسے ۔۔۔
آج ٹیپو سلطان کے پڑپوتے میسور انڈیا میں سائیکل رکشہ چلانے پر مجبور ھیں ۔۔۔
جیسے بہادر شاہ ظفر کی پڑنواسی آج پرانی دلی میں چائے کا کھوکھا کھول کر عام لوگوں کے لئے چاے بنانے پر مجبور ھے۔
بالکل ویسے جیسے عالم اسلام کے آخری خلیفہ کا اکلوتا بیٹا اور ولی عہد خلیفہ، کمال اتاترک کے ھاتھوں معزولی اور جلاوطنی کے بعد جرمنی میں ایک حجام کی دوکان کے اوپر ایک کمرے کے روم میں رھتا تھا اور حکومت جرمنی کی مہربانی سے گزارہ الاؤنس پر ساری ذندگی گزار دی تھی۔۔ناں شادی ھوی اور ناں ھی کوئ والی وارث تھا چند سال ھوے کسمپرسی کے عالم میں انتقال ھوا اور ٹاون کمیٹی والوں نے خیراتی فنڈ سے کہیں جرمنی میں ھی دفنا ریا تھا۔۔
بالکل ویسے جیسے پاکستان کی اصطبلشمنٹ کے باواآدم اور خوشامدیوں اور منافقین کے گرو شہاب الدین شہاب جو اپنے وقت اور عروج میں ملک کے صدر سے کم کسی سے بات نہیں کرتا تھا جب انگلینڈ میں سیاسی پناہ لینے پر مجبور ھوا تو مرحومہ بیوی کو دفنائے کے لئے دوستوں سے چندہ اور مدد مانگنے پر مجبور تھا۔۔
اور اس سے زیادہ بری حالت اصطبلشمنٹ کے گاڈ فادر اور ٹھیکیدار جس نے پاکستان کی جمہوریت اور بنیادوں میں زھر انڈیلا سکندر مرزا کی ھوے تھی وہ موصوف بھی انگلینڈ میں سیاسی پناہ لے کر ساری زندگی ایک عدد بیوی سمیت دو کمروں کے مکان میں چھپے تھے اور گم نامی میں کہیں مر کھپ گئے ۔۔۔
بالکل ویسے ھی جیسے پاکستان کی تاریخ کے سب سے ذیادہ عرصے تک گورنر شپ کی کرسی پر براجمان رھنے والے گورنر عشرت العباد خان صاحب ۔۔گورنر سندھ کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد بھی ایک سال تک اپنے اور اپنے خاندان کے نام پر لندن کی ایک سٹی کونسل سے سیاسی پناہ کی بنیاد پر مالی فوائد حاصل کرتے رھے۔اب موصوف پر فراڈ اور دھوکہ دہی کا کیس رجسٹرڈ ھے اگر کسی دوست کو اعتراض ھو تو ان صاحب کا نام گوگل پر ڈال کر سرچ کرلے۔۔۔
بالکل ویسے جیسے ایک آن ڈیوٹی برگیڈیئر کا بیٹا یہاں لندن میں سیکیورٹی آفیسر کی نوکری کرتا۔۔۔اور ایک انتہائی ۔۔۔انتہائی معتبر ھستی کا بیٹا نیویارک میں ایک بیکری میں ملازم لیکن جب یہ لوگ پاکستان کی ائیرپورٹ پر اترتے ھیں تو تمام سیکیورٹی اور جانچ پڑتال بلاے تاک رکھتے ھوے ان کو vvip دروازوں سے باھر لے جایا جاتا ھے ۔۔۔اگر اپنی آنکھون دیکھی کہانیاں سنانے بیٹھوں تو شاید کتاب لکھ دو مغرب میں ھم سب شودر ھیں ۔۔۔کوئ بلڈی انڈین تو کوئ باسٹرڈ پاکی۔۔۔
تو جناب پس ثابت ہوا کہ یہ جو ھستی کو مستی ھے محل و وقوع کی تبدیلی سے آسمانوں پے رھنے زمین پر دھڑام سے آن گرتے ھیں۔۔۔تلوار اور لشکروں کی طاقت نے نجانے کتنے لاکھوں شہزادوں کو ھجڑا و خواجہ سرا اور شہزادیوں کو لونڈیاں اور رکھیل بنایا ھے ۔۔۔لہذا یہ وقت ھے کبھی بھی بد ل سکتا ھے کسی کو دلت ۔۔۔شودر۔۔۔نیچ۔۔ذات کہنے سے پہلے ھزار بار سوچئے کہیں آپ بھی کسی کی نظر میی شودر۔۔۔دلت۔۔۔اور نیچ ذات تو نہیں ھیں
اسی لئے شاعر کہتا ھے ۔۔۔۔۔۔"اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ھم نہیں "
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“