اسرائیلی روایت کےمطابق آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو عورت کی وجہ سےقتل کردیا۔ غلطی سے یہ اسرائیلی روایت مسلمانوں میں پھیل گئی۔
جبکہ قرآن کریم میں اس اسرائیلی روایت کے برعکس واقعہ بیان ہوا ہے۔
قرآن کریم میں یہ واقعہ ایک خاص تناظر میں بیان ہوا ہے۔
بچپن سے ہی حضرت یوسف علیہ السلام میں صالحیت کے بڑے واضح آثار تھے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام بہت زیادہ توجہ اور محبت فرماتےکیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو یقین تھا کہ یہی میرا بیٹا میرا مشن آگے بڑھائے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز کیا جائےگا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے باقی دس بیٹے حضرت یوسف سے حسد کرنے لگے اور قتل کرنے کی تدبیر سوچنے لگے بالآخر حضرت یوسف علیہ السلام کو اندھے کنویں میں ڈال دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں ایک حضرت اسماعیل علیہ السلام دوسرے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے۔ رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم بنی اسمٰعیل میں سے پیدا ہوئے۔ جب رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی۔ مدینہ منورہ میں یہود کے تین بڑے قبیلے آباد تھے۔
یہودیوں کا خیال تھا کہ آخری نبی اسرائیلی قوم میں پیدا ہو گا۔ یہود نے جب دیکھا کہ اللّٰہ تعالٰی نے بنی اسمٰعیل کو سرفراز فرمایا ہے تو اللّٰہ تعالٰی کے فیصلے کو قبول کرنے کی بجائے حسد کی آگ میں جلنے لگے اور رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قتل کی تدبیریں کرنے لگے۔
اللّٰہ تعالٰی نےحضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا قصہ بیان کیا۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 27 تا 31 میں واقعہ بیان ہوا ہے۔
قرآن کریم میں کسی عورت کے تنازع کا ذکر نہیں ہے۔
اصل واقعہ ہےکہ ایک بیٹا جو صالح طبیعت تھا۔ اس نے اپنے اللّٰہ کے حضور چنیدہ نذرانہ پیش کر دیا۔ دوسرا جو کہ صالح مزاج نہ تھا اس نے گھٹیا نذرانہ پیش کیا۔
اللّٰہ تعالٰی نےصرف صالح بیٹے کا نذرانہ قبول فرمایا۔
اللّٰہ تعالٰی نے بنی اسرائیل میں مسلسل انبیاء کرام بھیجے لیکن بنی اسرائیل سرکشی کرتے رہےبلکہ انبیاء کرام کو قتل بھی کرتے رہے۔
اللّٰہ تعالٰی نےبنی اسرائیل کی بجائے بنی اسمٰعیل کو سرفرازی عطا فرما دی۔
حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کاواقعہ اس ضمن میں سورۃ المائدہ میں بیان ہوا ہے۔
اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا قصہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دے، جب ان دونوں نے قربانی کی ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا، اس نے جواب دیا اللہ پرہیزگاروں ہی سے قبول کرتا ہے۔ (27)
اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں(28)۔
میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن جائے، اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔(29)
پھر اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے خون پر راضی کرلیا پھر اسے مار ڈالا پس وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔(30)
پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدتا تھا تاکہ اسے دکھلائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپانا ہے، اس نے کہا افسوس مجھ پر اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر کرتا، پھر پچھتانے لگا۔(31)
افسوس ہےکہ مسلمان قرآن کریم پڑھتےنہیں بلکہ اسرائیلی روایات زیادہ پڑھتے ہیں۔ اسی کوتاہی کی وجہ سے یہ غلط روایت مسلمانوں میں پھیل گئی ہے۔
اس واقعہ میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہےکہ کسی شخص کی خوبیوں سے حسد کرنے کی بجائےصالح شخص سے محبت اور مجلس رکھنی چاہیے کہ صالحیت کے کچھ اوصاف اور آثار ہمارے میں بھی پیدا ہو جائیں۔