گنجیال لفظ گنج اور آل سے مل کر بنا ہے گنج کا معنی ہے خزانہ اور آل وہ جگہ جہاں پایا جاتا ہو۔ گنجیال کا مطلب بنتا ہے ایسی جگہ جہاں خزانہ پایا ہو۔ کہتے ہیں کہ یہ گنجیال شہر میں آباد اعلیٰ نابغہ روز گار شخصیات کی وجہ سے پڑا۔ بہرکیف ایک رائے جو گنجیال کے اکثر موجودہ بزرگوں کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ نام اس شہر کو آباد کرنے والے دو برادران میں سے ایک برادر گوین کی وجہ سے پڑا۔
گنجیال شہر کا پرانا نام واں تھا جس کی وجہ یہاں پر موجود شیر شاہ سوری کے عہد کی واں یعنی باؤلی ہے جو آج بھی گنجیال شہر میں خستہ حالت میں موجود ہے۔ بعدازاں یہ نام گنجیال وجود پذیر ہوا۔
گنجیال شہر تحصیل قائد آباد ہیڈکوارٹر کے مشرق میں ایک آدھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے مشرق میں اوکھلی موہلہ آباد ہے۔ جبکہ شمال وڑچھہ آباد ہے۔ جنوب میں اترا شہر آباد ہے۔
ضلع شاہ پور کے علاقے ساہیوال (سرگودھا کی تحصیل ساہیوال) کے موضع ڈنگہ کے دو بھائی نطق اور گوین نے آباد کیا۔ ان دونوں بھائیوں کا تعلق کھوکھر برادری سے تھا۔ ان دونوں برادران نے اس غیر آباد رقبے کو حکومت سے اجازت لے کر آباد کیا۔ اس مد میں بطور نذرانہ حکومت وقت کو کوئی رقم ادا نہیں کی۔ البتہ بہ رضا سرکار آباد کیا۔
1975 عیسوی میں گنجیال شہر کو دو مواضعات میں تقسیم کر دیا گیا۔ گنجیال جنوبی اور گنجیال شمالی۔ موضع گنجیال جنوبی رقبہ 11989 ایکڑ جبکہ گنجیال شمالی کا رقبہ 7969 ایکڑ ہے۔
گنجیال اصل دو قوموں کی مرہونِ منت ہے۔ نطقال اور نورے خیل۔ نطقال ذات کا جدِ امجد نطق ہے جبکہ نورے خیل ذات کا جدِ امجد گوین ہے۔
گنجیال شہر میں قومی شہرت کے حامل دو گھرانے ہیں جنھوں نے گنجیال شہر کو پورے پاکستان میں متعارف کروایا ہے۔ یہ دونوں خاندان نطقال برادری کے ہیں۔ ایک خاندان کی شہرت سیاسی منظر نامے کی وجہ سے ہیں جبکہ دوسرے خاندان کی شہرت ادبی حوالے سے ہے۔
سیاسی لحاظ سے محمد نواز کے پسران ملک عطاء محمد اور ملک صالح محمد نے بہت ترقی حاصل کی ہے۔ ملک عطاء محمد نے 1985 میں پہلی مرتبہ گنجیال کی نمائندگی کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ تاہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ مگر سیاسی بنیاد رکھنے والے پہلے فرد بن گئے۔ ملک صالح محمد گنجیال نے 90 کی دہائی میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرکے صوبائی اسمبلی میں قدم رکھا۔ اسی دور میں صوبائی وزیر ماحولیات کا قلمدان سنبھالا۔ بعدازاں 2002 عیسوی کے الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے بطور ایم پی اے پانچ سال صوبائی اسمبلی کا حصہ رہے۔ آپ کی بہت شہرت ہے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے۔ آپ کے بڑے بھتیجے اور ملک عطا کے پسرِ اکبر نے بطور ضلع نائب ناظم خوشاب سیاسی خدمات سر انجام دے رکھی۔ ملک صالح گنجیال کے بڑے بیٹے ملک شیر عالم گنجیال فی البدیہہ بھی یونین کونسل گنجیال جنوبی کے چیئرمین ہیں جبکہ چھوٹے بیٹے یونین کونسل گنجیال شمالی میں بطور وائس چیئرمین خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
1985 عیسوی سے لے کر 2015 عیسوی تک ہونے والے تمام بلدیاتی، جنرل الیکشن میں نواز خیلوں نے بطور امیدوار بھرپور مقابلہ کیا اور سیاسی منظر نامے پر خود کو نمایاں رکھا ہوا ہے۔
نواز خیل برادری کا سیاسی اثر و رسوخ کافی زیادہ ہے اور نواز خیلوں کی سیاسی اجابت صوبہ بھر میں مانی جاتی ہے۔
الحاج ملک صالح محمد گنجیال کی وفات کے بعد نوجوان سیاسی شخصیت ملک فیصل عطاء گنجیال حلقہ کی سیاست میں متحرک نظر آرہے ہیں۔ اور مقبول ہورہے ہیں۔
دوسرا خاندان آڈھے خیل برادری کا ہے جس کی شہرت ایک ادبی مہتاب استاد آڈھا خان آڈھے خیل کی وجہ سے ہے۔ استاد آڈھا خان کے خاندانی پس منظر کا احوال یہ ہے کہ ان کے پردادا جاگیر دار آڈھا خان کے نام پر اس خیلی کا نام رکھا گیا۔ جاگیر دار آڈھا خان نطقال برادری سے تھے۔ استاد آڈھا خان صاحب کی ولادت 4 اپریل 1944 عیسوی کو ملک محمد شیر اور فتح بی بی کے مذہبی، زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ آپ نے پہلا دوہڑہ جماعت ہشتم میں لکھا۔
استاد آڈھا خان نے کافی، غزل، نعت، رباعی اور دیگر شعری اصناف میں طبع آزمائی کی مگر اجابت دوہڑے کی صنف میں پائی۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی کی مطرب رنگیں نوائی نے آڈھا خان صاحب کو مشہور روز گار کردیا۔
استاد آڈھا خان کی اصل وجہ شہرت قصہ سسی پنوں بنی۔ جو پورا دوہڑوں کی شکل میں ہے۔ استاد آڈھا خان نے یہ قصہ ایک سال میں مکمل کیا۔ عطاء اللہ عیسی خیلوی کی گلوکاری دنیا بھر میں مقبول ہوئی جس کے سبب استاد آڈھا خان صاحب کی شاعری کو بھی جہاں بھر میں اجابت ملی۔ استاد آڈھا خان کے تین شعری مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آئے۔ رموزِ عشق، انتخاب از کلام اور راز و نیاز کے نام سے شائع ہوئے۔ آپ کی شاعری کو پیر نصیر الدین نصیر جیسی عظیم روحانی ہستی نے بھی قابلِ داد قرار دیا اور رفیق خاص ہوئے۔ رقم طراز کے والد نے بحرین میں قومی سطح کے شاعر احمد فراز کے سامنے آڈھا خان کا کلام پڑھا تو وہ بھی آڈھا خان سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے۔ 5 مئی بروز جمعۃ المبارک 2012 عیسوی کو آپ کا وصال ہوا۔
گنجیال شہر میں پیری مریدی کا سلسلہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ جہاں پر بریلوی مسلک کے پیروکار زیادہ آباد ہیں۔ دوسرے فرقوں کے ماننے والے بھی آباد ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...