میڈیا کو لے کر عجیب عجیب باتیں شروع ہو گیئیں .کسی نے لکھا ، ملت اسلامیہ کو یہ چاہیے ، مسلمانوں کو وہ چاہیے .اسپتال چاہئے .یو نیور سیٹی چاہئے . سب چاہیے .آنے والے وقت میں جب نفرتیں عروج پر ہونگیں ، ان سب کی بھی ضرورت ہوگی . اور یہ مت بھولئے کہ تیس کروڑ کی آبادی کسی ملک کی آبادی سے بھی زیادہ ہوتی ہے .دنیا میں بیشتر ممالک ایسے ہیں جنکی آبادی لاکھوں میں سمٹی ہوئی ہے . سمع (سننا); بصر (دیکھنا); شم (سونگھنا); ذوق (چکھنا); لمس (چھونا) ; ان کو حواس خمسہ کہتے ہیں. بصر سے سمع کا کام نہیں لے سکتے . ذوق سے بصر کا نہیں .ہر ضرورت الگ ہے .سب کے کام مختلف ہیں . یہ چاہیے اور وہ چاہیے مگر میڈیا نہیں چاہیے کہنے والے غیر سنجیدہ لوگ ہیں ، جو ملک میں ہونے والے تماشے سے انجان ہیں اور جنکو پتہ نہیں کہ دیگر ضرورتوں کے ساتھ ایک بڑی ضرورت میڈیا کی بھی ہے . اسپتال بنوائے .جب ملک کے اسپتالوں میں مسلمانوں کا داخلہ اگر ممنوع ہو جائے تو اسپتال بھی ضروری . تعلیمی محکمے اور شعبے بھی ضروری . مگر میڈیا بھی ضروری ہے .
سب سے پہلے یہ آواز میں نے بلند کی تھی کہ ہمارے پاس اپنا میڈیا چینل ہونا چاہیے . مسرت کی بات ہے کہ اب یہ آواز چاروں طرف سے اٹھ رہی ہیں کہ چینل چاہئے .مگر ہمارے درمیان اب بھی ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے واقف نہیں کہ چینل کی ضرورت تیس کروڑ کی آبادی کو کیوں ہے ؟ .کچھ ایسے بھی ہیں جن کا تعلق راجیہ سبھا سے رہا ہے اور وہ چینل لانے کی دوڑ میں پیش پیش ہیں . اچھی بات ہے ، ایک دو نہیں دس چینل لے آئیے مگر پہلے واضح کیجئے کہ آپ کے ذہن میں کیا ہے ؟ ایک بات جان لیجئے کہ اگر چینل مسلمانوں سے وابستہ ہے تو سب سے پہلے مسلہ رجسٹریشن کا اے گا . مسلمانوں کا چینل مسلمان بھی دیکھنا نہیں پسند کریں گے .غیر مسلموں کی بات ہی چھوڑ دیجئے . ابھی حال میں پروفیسراخترالواسعبھایی نے میڈیا چینل کے تعلق سے بہت اہم باتیں لکھی ہیں .ان کے مطابق ،ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان جس معاشی ادبار کا شکار ہے اس میں گھر پھونک کر تماشہ دیکھنے کا یہ وقت نہیں ہے۔ہمیں اگر بہ حیثیت ایک سماجی گروہ کے اپنے وجود کا احساس ہی کرانا ہے تو اس کے لیے سب سے بہتر اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم یو ٹیوب پر جو نوجوان اپنے اپنے چینل پر ویڈیواپ لوڈ کر کے چلا رہے ہیں اور وہ خاصے موثر بھی ہیں اور کامیاب بھی، ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر اس میں سب سے نمایاں نام سیاست ڈاٹ کام حیدرآباد کا ہے .
یہ بات بہت حد تک درست ہے مگر کیا یہ بھی سچایی نہیں کہ ملی پروگراموں میں کروڑوں روپے پھونک دیے جاتے ہیں . اور کویی ایک بھی ملی تنظیم اپنے وجود پر چینل کھڑا کر سکتی ہے . مگر آزادی کے ستر برسوں میں یہ ممکن نہیں ہوا . دوسری بات پروفیسراخترالواسع بھایی نے یو ٹیوب چینل کے فروغ پر زور دیا .مشورہ بہتر ہے مگر سوال ہےکہ یو ٹیوب چینل دیکھنے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟ دی وائر، دی کوینٹ جیسے چینل بھی زیادہ تر انٹلکچول ہی دیکھتے ہیں . یہ چینل عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں . اس میں شک نہیں کہ آج کی تاریخ میں یو ٹیوب چینل بھی ہماری بڑی ضرورت ہے لیکن قومی سطح کے چینل کی ضرورت اب بھی ہے . سیاست ڈاٹ کام کتنے لوگ دیکھتے ہیں ؟
پروفیسراخترالواسع بھایی نے جو بات بھی کہی ہے ، دل سے کہی ہے . وہ آگے لکھتے ہیں . جو مشہور میڈیا گھرانے ہیں ان کے ساتھ ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت ایسی منصوبہ بندی کریں کہ وہ ایسے اسپانسرڈ پروگرام پیش کریں جن سے ہندوستان کے مسلمانوں کی صحیح صورتحال، ان کی پسماندگی، ان کے ساتھ ناانصافی اور ان کی مجموعی ترقی کے امکانات پر روشنی پڑ سکے۔اب جواب سنئے ، ایسے چینل جنکو براہ راست حکومت سے فنڈ ملتا ہو کیا وہ مسلمانوں سے اسپانسر شپ لے کر اپنی دوکان بند کرائیں گے . یہ سننے میں اچھا لگ سکتا ہے لیکن یہ پریکٹیکل ایپروچ نہیں ہے .وہ آگے لکھتے ہیں ، ہندوستان کے مسلم تاجروں اور بڑی کمپنیوں کے مالکان کو مسلمانوں کے ساتھ مثبت سوچ رکھنے والے ٹی وی چینلس، انگریزی ہندی اور اردو کے اخبارات اور یوٹیوبرس کو اشتہارات کے ذریعے مدد کرنا چاہیے۔
کیا زی نیوز ، انڈیا ٹی وی چینل مسلم تاجروں کو ہاتھ بھی رکھنے دیں گے . ؟ اس مغالطہ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے . پروفیسراخترالواسع کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو ایسے پروگراموں کو دوسرے ٹی وی چینل بھی اہمیت دیں گے اور دوسرے میڈیا ہاوسز بھی مسلمانوں کے مسائل اٹھانے یا مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کاونٹر کرنے کے لیے مجبور ہوں گے۔امالی تعاون کرنے والے لوگ ملت کے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھیں نیز اپنی ذاتی انا اور خود مشتہری کو الگ رکھیں۔
اصل مسلہ یہ ہے کہ ٢٠١٤ سے ٹی وی چینل والوں کو مسلم دشمنی کے لئے تیار کیا گیا ہے . آج اینکر کروڑوں کے بادشاہ ہیں ، مالکان کی بات تو چھوڑ دیجئے . ٹی وی چینل والے کسی بھی مسلم تاجر کی خدمات نہیں لینگے . اور نہ ہی مسلم دشمنی کو کاونٹر کریں گے . اور اسی لئے ایک ایسے چینل کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کا ہو کر بھی مسلمانوں کا نہ ہو .یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم بیحد برے دور سے گزر رہے ہیں اور اس ماحول میں چینل لانا کوئی آسان کام اس وقت تک نہیں ہے جب تک ہم چینل کو ہندوستانی رنگ نہ دیں . میں نے پچھلی دفعہ دس نکات سامنے رکھے تھے . دوبارہ پڑھئے اور غور کیجئے
بجٹ – ٥٠ کروڑ
ریاستی سطح کا چینل – بجٹ ١٠ سے بیس کروڑ
چینل کا نام : چینل کا نام ہندی یا انگریزی میں ہوگا . مثال کے لئے دی سورس ، چینل ٢٠٠ ، دی رپورٹ یا کوئی بھی نام ، جس سے ظاہر نہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی ترجمانی کر رہا ہے
٢ – چینل میں ونود دوا ، ابھیسار شرما ، پرسوں باجپیی جیسی فکر کے لوگ ہیں . ابھیسار اور پرسون کو لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ لوگ کہیں نہیں ہیں .
٣ – رپورٹنگ کرنے والے ایسے لوگ ہوں جو معیاری رپورٹنگ کر سکیں اور ہندو مسلم تنازعہ سے بچتے ہوئے اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھیں .دلیلیں مضبوط ہوں . پریزنٹیشن ایسا ہو کہ پہلے دن سے ہی چینل لوگوں کی نگاہ میں آ جائے .
٤ – کچھ دن یا دو ایک ماہ چینل عام چینلوں کی طرح ہی رپورٹ کرے .یعنی کویی خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں .
٥ – پھر چینل ١٥ سے ٢٠% ان موضوعات پر کام کرے ، جس سے نفرتیں دور ہوں .مسلمانوں کا سچ اجاگر ہو . مثال کے لئے ٢٥ منٹ کا ایک پروگرام — قسطوار — جن پر فرضی دہشت گردی کے الزامات لگے بعد میں الزام غلط پایا گیا — ان مسلمانوں کی کہانیاں جنہوں نے ملک کے لئے قربانیاں دن .ان میں غیر مسلم جانبازوں کو بھی شامل کریں تاکہ توازن برقرار رہے
٧ – میڈیا چینل کی فرضی خبروں کی کاٹ . مثال کے لئے ہتھنی کا واقعہ ، تبلیغی جماعت کا حادثہ . ایسے بہت سے حادثے
٧ – زبان ہندوستانی ہو . اردو کی چھاپ نہ ہو .
٨ – چینل میں غیر ضروری طور پر مداخلت کرنے والے نہ ہوں .اس سے مزاج نہیں بن پاے گا .
٩ – حکومت سے ٹکرانے والی بات نہیں ہوگی .یاد رکھیے ، چینل کے ذریعہ ہم حکومت سے ٹکر نہیں لینگے ، سمجھداری سے مسلمانوں کی بات رکھیںگے جو مضبوط دلائل کی روشنی میں ہونگیں .
١٠ . چھ سے آٹھ لوگوں پر مشتمل ایک گروپ ہوگا ، جو صلاح اور مشورہ دیں گے . ان میں وکیل بھی ہونگے ، آی ایس افسران بھی . سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے .
اب کچھ اخراجات / بجٹ پر بھی بات کر لیں .
صرف چینل لائسنس (جس میں غیر نیوز چینل کے لئے پانچ کروڑ خرچ ہونگے ) کے لئے 20 کروڑ کی مجموعی قیمت کے ساتھ ہی درخواست دی جا سکتی ہے۔
لائسنس فیس 50،000 کے لگ بھگ ہے اور اس کی خریداری میں 90 دن لگیں گے۔
:
ایک دفتر کیلئے 100 پکس اور دو اسٹوڈیو کی ضرورت جو تقریبا 4 4000 مربع فٹ ہوں
ملازمین کے لئے پارکنگ کی جگہ
تکنیکی:
پی سی آر / ایم سی آر / کار کمرے کے ساز و سامان – 3 سی آر سے 3.5 سی آر
اسٹوڈیو sound ساؤنڈ پروفنگ اور اس طرح کے دیگر اخراجات بھی شامل ہیں) – 76 لاکھ سے 1 کروڑ۔
شوٹ / ایڈیٹنگ کا سامان اور سافٹ ویئر + گرافک ہارڈویئر اور سوفٹویئر کے لئے کیمرا اور لائٹس – 80 سے 90 لاکھ
وائس اوور اور دوسرے چھوٹے اخراجات کےلئے Equipment ضروری سامان۔ 5 لاکھ
عملے کے لئے کمپیوٹر۔ 80 لاکھ
ویب سائٹ اور موبائل ایپ – 8 لاکھ + سالانہ دیکھ بھال
براہ راست ٹیلی کاسٹ کا سامان – 3 سے 6 لاکھ (مشینوں کی کوالٹی اور تعداد پر منحصر ہے)
ٹیلی کاسٹ فیس:
I&B فیس – سالانہ سات لاکھ
اپلنکنگ اور ڈاونلنکنگ فیس – 5 – 6 لاکھ سالانہ
ٹاٹا اسکائی (اگر نیوز چینل ہے) – سالانہ٢ کروڑ سے زیادہ
ایرلیٹ (اگر نیوز چینل) – سالانہ 1.5 کروڑ سے زیادہ
کمپنی کی پالیسی پر منحصر دوسرے ڈی ٹی ایچ پلیٹ فارم
خبروں کی خریداری کی خدمات – ہر سال 20 لاکھ
عملے کی تنخواہ:
٨٠ لاکھ سے 1کروڑ (ہر ماہ)
بیورو آفس:
اخراجات اس بات پر منحصر ہے کہ ہمیں کتنے دفاتر کی ضرورت ہے
دوسرے اخراجات:
کاریں / وینیں – 5 (کم از کم)
اور اخراجات
تخمینہ شدہ انکم (اگر ٹاٹا اسکائی ، ایرٹیل اور دیگر LCNs جیسے تمام پلیٹ فارمز پر ٹیلی کاسٹ کر رہے ہو:
پہلا مہینہ – nil
2 سے 5 ماہ۔ 10 سے 15 لاکھ
6 سے 8 ماہ – 20 لاکھ
1 سال – 30 سے 40 لاکھ
مذکورہ بالا تمام اعدادوشمار مکمل طور پر ابتدائی منصوبہ بندی پر منحصر ہیں
ایک دن آنکھیں بند ، اور سب کچھ ختم . کیا نیی نسل اسی مردہ بازار میں پیدا ہوگی ؟
ہم زندہ ہونگے مگر مردوں سے بدتر . کیونکہ ہم نہیں سوچتے . نہیں بولتے . اور جب عذاب بھیجا گیا ہو ، ہم اس وقت بھی سیاست کے بازار میں روٹیاں سینک رہے ہیں . تیس کروڑ کی آبادی کے پاس نہ علم ہے ، نہ چنیل . نہ اچھے اسپتال ہیں نہ میڈیکل کالج اور انجینیرنگ کالج . کچھ بھی تو نہیں .
جب چینل کی بات اٹھتی ہے ، کچھ ایسے لوگ سامنے آ جاتے ہیں جو اس بات سے بھی واقف نہیں کہ اگر چینل چاہیے تو کیسا چاہیے .