ہم بہت سے لوگوں کے ساتھ چلتے ہیں پر ہمارے ساتھ کوئی نہیں چلتا ۔ شاید یہ نصیب کا کھیل ہے یا ہم زمانے کی رفتار ہی نہیں پکڑ پائے ۔ ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ "اپنی کہانی کا بوجھ ہی بہت ہوتا ہے ، دوسرے کو کندھا تو دو پر اس کی کہانی نہ بانٹو" ۔ پر اپنی کہانی تو درد کا ایسا لا امتناہی سلسلہ ہے کہ جو ہمیشہ کے ساتھ کی وجہ سے اپنی حیثیت ہی کھو چکا ۔ شاید اسی لئے اب ہمیں دوسروں کی کہانی میں ہی جینا ہے ۔ ایک کی سنیں گے ، درد چھانٹ لیں گے اور وہ چل دے گا ۔ ہم وہیں اگلی کہانی کا انتظار کریں گے ، اور یہ سب ہماری مرضی اور خوشی سے ہوگا ۔ ہمیں اس ایک کا انتظار ضرور ہے ، جس سے ہم اپنی کہانی کہیں گے ۔ پر یقین کیجیے اپنا درد بانٹنے کےلیے اس کا انتظار نہیں ، بلکہ اپنی کہانی کے وہ خوبصورت باب ، جو ہم نے خود سے بھی چھا کر رکھے ہیں ، اس تک پہنچائیں گے ۔ اور پھر وہ بس ہمارے سامنے بھی رہا تو ہماری بہت اچھے سے کٹ جائے گی ۔
ہم ہمیشہ سے یوں ہی سوچتے رہے ، کئی بار اس کا عکس بھی دیکھا ۔ اس کے بہت قریب بھی گئے ، اسے بہت چاہ کر بھی دیکھا ۔ پر شاید ہمارے جذبوں میں کمی تھی یا ہم میں بہت سی ایسی خامیاں تھیں جو ہم اس کے بہت قریب ہوکر بھی اس سے دور ہی رہے ۔
یک طرفہ فیصلوں پر سر جھکائے عملدرآمد کرتے رہے اور اپنی کم آئیگی کو مسکراہٹوں کے ماسک میں چھپائے ہم نے راہ فرار اختیار کئے رکھی ۔
پر آج جو دل ٹوٹا ، جو شکست کا احساس ہوا ، پہلے ایسا آج تک نا ہوا تھا ۔ پہلے شاید کبھی یوں نہ ٹوٹے تھے اور اگر کبھی ٹوٹے بھی تھے تو کبھی بکھرے نہیں تھے ۔
ہوا کچھ یوں کہ ہم جو رکے رکے گھبرا گئے تھے ، اچانک سے کوچ کی تیاری پکڑی اور لمبی سڑک پر بیک پیک لگائے ہڈ والی شرٹ پہنے چاندی رات میں چل پڑے ۔ اچانک سے پرانے ہمراز کی یاد آئی تو تھوڑی حیرت ہوئی کہ چاندنی تو تھی پر چاند نہ تھا ۔
ہم مڑے ، پیچھے دیکھا ، تو بچپن کا چندا ماموں ، جوانی کا ہمراز ہمارا اپنا چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا ۔ پر یہ کیا؟ وہ تو ہنس رہا تھا ، ایک طنزیہ ہنسی ، ہمارے درد پر ، تنہائی پر ، فرار پر ۔ ہنستی تو پوری دنیا تھی، ہم بھی ہنس دیا کرتے تھے ، ہمیں دنیا کی پرواہ کب تھی ۔ پر یہاں معاملہ اور تھا ، یہ تو ہمارا واحد ہمراز تھا ، دوست تھا ، وحشتوں اور تنہائیوں کا ساتھی اور غمگسار تھا ، اس کی ہنسی نے آنکھوں کے پیمانے بھر دئے تھے ۔ اندر کچھ ٹوٹا تھا ، شاید وہ ٹوٹا تھا ، جسے ساری عمر پتھر سمجھتے رہے تھے ہم ۔ دنیا کہتی تھی ، دل کانچ کا گھر ہے ، ہم مسکراتے تھے کہ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں ، سینے سے لگائے پھرتے ہیں ۔
اور پھر نجانے کیوں چاند دھندلا سا ہوچلا تھا ، کانچ کے گھر میں شاید موتی بھرے تھے ، ان موتیوں میں سے دو آنکھوں سے ٹپکے تھے اور ہم دوبارہ سے رخ موڑ کر انجان راہوں پر چل پڑے تھے ۔
زندگی سے چند مسکراہٹیں ادھار لی ، اک نیا روپ دھارے چہرے پر مسکان سجائے اب ہم نئی منزل کی تلاش میں تھے ۔ اب نجانے کیا ملتا ؟ تنہائی کامل ہونے کو تھی اور ہم مکمل ہونے کو ۔ اب تو بس اپنی کہانی میں مسکراہٹیں بکھیرتے داخل ہونے کی لگن باقی ہے ۔
اور یقین کامل ہے کہ ایک دن ضرور ہم ان انجان راستوں سے واپس اپنی کہانی میں موٹ آئیں گے اور آپ کو بھی یقیں دلاتا چلوں کہ تب تک ہم یوں مسکرائیں گے ۔