اپاھج اور کمزور جمھوریت کو مزید اپاھج اور کمزور کرنے کی کوششوں کی مخالفت کریں گے،
میاں نواز شریف جب وزارت عظمی سے نکالے گئے تو مسلم لیگی سینٹروں اور ممبران اسمبلی نے چکر چلا کر ایک ایسا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا جس کے مطابق سیاسی پارٹیاں اپنا راھنما کسی کو بھی منتخب کر سکتی ہیں اور “نااھلیت” کا اس میں کوئی ذکر نہ تھا۔ یوں میاں نواز کو مسلم لیگ نے اپنا صدر منتخب کر کے ان کو عدلیہ کی جانب سے دئیے گئے زخموں پر کسی حد تک مرحم لگا دیا گیا۔
اب سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر ایک نیا وار کر کے میاں نواز شریف کے مرحم کی پٹی کو زخم سی ھٹا کر اسے مزید تکلیف دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
الیکشن کمیشن کے قوانین میں نااھلیت کی یہ شق جسے اب سپریم کورٹ نے عملا بحال کیا ہے سب سے پہلے آمر ایوب خان نے 1962 میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں شامل کی تھی جسے 1975 میں ذولفقار علی بھٹو نے نکال دیا تھا۔ اسے 2000 میں جنرل مشرف نے دوبارہ شامل کرا دیا تھا اور پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 میں یہ اس کا حصہ تھا۔ اس شق کا مقصد میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کو انتخابات سے باھر رکھنا تھا۔
آمروں کا یہ وطیرہ رھا ہے کہ وہ مخالف سیاست دانوں کو انتخابات سے دوررکھنے کے لئے اس قسم کی قانون سازی کا سہارا لیتے رھے ہیں۔
آمر مشرف کی جانب سے اس آمرانہ شق کو ختم کرنے کے لئے جب پیپلز پارٹی نے اٹھارویں آئین کے دوران مسلم لیگی قیادت سے رابطہ کیا تو اس وقت مسلم لیگ ن نے اس ایشو پر تعاون سے انکار کر دیا تھا۔ مگر جب اب ان کے سر پر آن پڑی تو مسلم لیگ نے چکر شکر چلا کر اسے پولٹیکل پارٹیز ایکٹ سے نکلوا کر میاں نواز شریف کو دوبارہ اپنا صدر منتخب کر لیا تھا۔
سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے منظور کئے قانون کو ختم کر کے میاں نواز شریف کو مسلم لیگ کا صدر بننے سے روک کر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔
ایک جانب مسلم لیگ ہے جو پانچ سالوں سے اقتدار میں ہے۔ محنت کش طبقے کے لئے اس کی پالیساں زھر قاتل ہیں۔ وہ سرکاری اداروں کو بیچنے اور اسکے خلاف تحریکوں کو دبانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ وہ نیو لبرل ایجنڈا کے اطلاق سے سرمایہ دار طبقات اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کی محافظ ہے۔ مسلم لیگی دور میں ٹریڈ یونین تحریک ہمیشہ زیر عتاب رھی ہے۔ ان پانچ سالوں میں محنت کشوں کی تنخواھوں میں مہنگائی کے لحاظ کبھی اضافہ نہیں ہوا۔ اس کا ڈویلپمنٹ ایجنڈا عوام دوست نہیں۔ اس کی ترجیحات میں انسانی ڈویلپمنٹ اخری درجہ پر ہے، وہ سڑکیں تعمیر کرتی ہے ھسپتال اور سرکاری سکول نہیں۔ مسلم لیگ کی طبقاتی پالیسیوں کی ہماری مخالفت بلا وجہ نہیں۔
لیکن کیا کیجئے جب پارلیمنٹ کی جانب سے ایک آمر کے بنائے قانون کو مسلم لیگی اپنے مفاد میں ختم کرتی ہے تو ماضی میں جو کردار فوجی امریتیں ان سرمایہ دار سیاست دانوں کو جو سویلین رول کی بات کرتے تھے نکال باھر کر کے ادا کرتے تھے۔ اب یہ رول اعلی عدالت کر رھی ہے۔
ہمارے پاس اب کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم عدالتوں کی جانب سے امریتوں کے بنائے قانون کو دوبارہ مسلط کرنے کی مخالفت کریں چاھے یہ میاں نواز شریف کو ہی ذھن میں رکھ کر ایکشن کیا گیا ہو۔
ہمیں معلوم ہے کہ سپریم کورٹ کے اس آرڈر کی مخالفت میں یہ پراپیگنڈا کیا جائے گا کہ ہم میاں نواز شریف کی حمائیت کر رھے ہیں۔ ایسا نہیں۔ اور نہ ہی ہم کوئی ڈیفنسو پوزیشن لیں گے۔ عدالتوں کا کوئی کام نہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کو کسی فرد کو زھن میں رکھ کر اسے سزا دینے کے لئے ختم کر دے۔
یہ عوام کا حتمی حق ہے کہ وہ ایسے راھنما جو عوام مخالف ہیں انہیان اپنا جمھوری حق استعمال کر نکال باھر پھینکیں۔ یہ فریضہ غیر منتخب چند افراد کے گروہ کو نہیں دیا جا سکتا۔
ایوب خان امریت اور مشرف امریت کے مخصوص حالات میں بنائے ایک انتقامی قانون کا دفاع ہم کیوں کریں؟ یہ کام تو جماعت اسلامی، تحریک انصاف کو کرنا چاھئیے جو ھمیشہ یا تو امریتوں کے ساتھ چلتی رھی ہیں یا پھر ان کی مدد سے اقتدار میں آنے کے لئے پر تول رھی ہیں۔ اور وہ یہ کام بخوبی کر رھے ہیں۔
ہم اپنے جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے، انُکا تحفظ کرتے، آمریتوں اور عدلیہ کی جانب سے جمھوری فیصلوں کو رد کرنے کی روش کی مخالفت کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک خاص پس منظر میں کیا گیا۔ یہ فیصلہ اخلاقی اقدار کا محافظ نہیں بلکہ اپنی امرانہ اخلاقیات کو تھونپنے کا اظہار ہے۔
جہاں ہم میاں نواز شریف اور انکے سرمایہ دار طبقات کے طبقاتی استحصال کی پرزور مخالفت جاری رکھیں گے وھاں ہی ہم ہر اس کوشش کی مخالفت کریں گے جس سے موجودہ اپاھج اور کمزور جمھوریت کو مزید اپاھج اور کمزور کیا جائے۔ یہ ایک دو طرفہ حکمت عملی ہے اور اس میں کوئی تضاد نہیں۔
ایک جانب ہم عدلیہ کی جانب سے بچے کچھے جمھوری نظام کو گرانے یا مذید کمزور کرنے کے اقدامات کی اسی طرح مخالفت کریں گے جیسا کہ ہم فوجی ادوار میں اس قسم کے اقدامات کی کرتے تھے۔ دوسری جانب ہم سرمایہ دار طبقات، انکے سیاسی نمائیندوں اور اقتدار میں شامل جماعتوں کے طبقاتی حملوں اور استحصال کی بھرپور مخالفت کریں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“