ٹاٹ والے پرائمری سکول میں جس کے صحن کے عین بیچ پیپل کا درخت تھا۔ اس کے تنے کے گرد اینٹوں سے ایک چبوترہ سا بنا تھا۔ اینٹوں کی ریخوں سے یہ بڑے بڑے مکوڑے نکلتے تھے۔ کچھ گندے بچے مکوڑا پکڑ کر اس پر تھوکتے اور کسی بچے کی گردن پر چپکا دیتے۔ مکوڑا اتنی زور سے کاٹتا کہ بلبلاتا ہوا بچہ اسے کھینچتا تو مکوڑے کا سر نہ چھوڑتا مگر اس کا باقی حصہ علیحدہ ہو جاتا۔ چپکا ہوا سر علیحدہ کھینچ کے اتارنا ہوتا۔
ایسے سکول میں جب انسپکٹر آف سکولز کا دورہ ہوتا تو جو پانچ استاد اور ایک ہیڈ ماسٹر صاحب تھے وہ تو ویسے ہی گھبرائے ہوتے مگر گندے بچے بھی " بندے " بنے، کتاب یا تختی پڑھنے یا لکھنے میں مصروف سر جھکائے ٹاٹ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوتے۔
انسپکٹر صاحب چھوٹی ٹھوڑی والے، صاف ستھرے استری کیے شلوار قمیص پہنے، شریف اور شفیق سے شخص تھے۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ دو دہائیوں کے بعد ان کی چھوٹی ٹھوڑی والی وہ بھانجی جو ابھی پیدا ہوئی ہے میری بیوی بن جائے گی۔۔۔۔ ماموں فیض کو میں نے شادی کے بعد دیکھا تو پہچانا کہ اوہ یہی تو سکول انسپکٹر تھے۔
پھر ڈاکٹر بننے والے سارے ہی برطانیہ یا امریکہ جانے کے بارے میں سوچتے اور کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا البتہ کوشش نہ کی تھی۔ کیا معلوم تھا کہ روس جہاں جانے کی کوئی خواہش نہ تھی وہاں چلا جاوں گا اور ماسکو کے ایک فلیٹ میں بستر پر نیم دراز یہ پوسٹ لکھ رہا ہوں گا۔۔۔ آپ کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا بھیا۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...