یہ جو کہاوت مشہور ہے کہ مرد کی ایک زبان ہوتی ہے، یہ غلط ہے۔ میرا 500 سالہ تجربہ ہے کہ زبان صرف خواتین کی ایک ہوتی ہے۔مثلاً میری ایک کلاس فیلو نے آج سے پچیس سال پہلے مجھے اپنی عمر پچیس سال بتائی تھی، الحمد للہ وہ آج بھی اپنی زبان پر قائم ہے۔چالیس سال تک کی لگ بھگ ہر عورت پچیس سال کی ہی رہتی ہے۔ چالیس کے بعد چونکہ اکثر بڑا بیٹا پندرہ سال کا ہوجاتاہے اس لیے مجبوراً اپنی عمر کے چھ سات سال بھی بڑھانے پڑ جاتے ہیں ورنہ دنیا شک میں پڑ جاتی ہے کہ شادی ہوئی تھا یا کوئی حادثہ ہوا تھا۔
آج تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہوسکا جس سے عورت کو دیکھ کر اس کی عمر کا اندازہ لگایا جاسکے، تاہم آپ کو اگر کوئی خاتون اپنی عمر پچیس سال تسلیم کرانے پر بضد ہوتو ان کے بازؤوں کا ضرور جائزہ لے لیں، انشاء اللہ ’’پھرکی والے ٹیکے‘‘ کا نشان ضرور نظر آجائے گا، بڑی عمر کی خواتین شائد اسی لیے ہاف بازو والی قمیض پہننے سے گریز کرتی ہیں۔یاد رہے کہ پھرکی والے ٹیکے غالباً1970 میں ختم ہوئے تھے۔
اپنی عمر کے حوالے سے خواتین کو اکثر یہ جملہ ازبر ہوتاہے’اصل میں میری شادی بڑی چھوٹی عمر میں ہوگئی تھی‘۔ تاہم اگر آپ موصوفہ کی کیس ہسٹری کا جائزہ لیں تو پتا چلتاہے کہ یہ ’چھوٹی عمر‘ اصل میں 28 سال تھی۔میری ایک کولیگ جب چالیس سال کی ہوئیں تو انہوں نے اپنی سالگرہ پر 25 کے منہ والی موم بتیاں روشن کردیں۔ شرکاء نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، میں نے جلدی سے کہا’خواتین وحضرات! نمبروں کی ترتیب الٹ ہونے پر ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں‘۔۔۔یقیناًاس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ضرور بتانا چاہیے،لیکن نہ بتانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔
بڑی عمر کی اکثر خواتین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا شناختی کارڈ غلط ہے کیونکہ سکول میں داخلے کے لیے ان کے والد صاحب نے غلط عمر لکھوائی تھی اوربعد میں یہی غلطی میٹرک کی سند اور شناختی کارڈ میں بھی در آئی۔ ہمارے معاشرے میں 45 سال کی لڑکیاں بھی عام پائی جاتی ہیں۔ یہ کسی مرد سے بات کرتے ہی ’’باربی ڈول‘ ‘ بن جاتی ہیں۔ایک جگہ کچھ دوستوں میں بحث ہورہی تھی کہ جو عورت بات کرتے وقت زیادہ منہ کھولتی ہے اس کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جس کا منہ کم کھلے وہ کم عمر ہوتی ہے۔ حق اور مخالفت میں دلائل جاری تھے کہ اچانک وہاں سے 85 سالہ اماں جیراں کا گذر ہوا۔ سب نے سوچا کہ اماں جہاندیدہ خاتون ہیں، ان سے اس مسئلے کا حل پوچھتے ہیں۔ جب اماں سے اس بات کی حقیقت بارے پوچھا گیا تو اماں تھوڑا سا منہ کھول کر بولیں’’پُت ! مینوں کی پتہ؟‘‘
ویسے میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ خواتین کی عمر کا اندازہ لگانا ہو تو ان سے کچھ ایسے سوالات پوچھنے چاہئیں جن کا جواب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دینے پر مجبور ہوجائیں۔ مثلاً میں نے اپنی ایک ’لے پالک کولیگ‘ سے پوچھا’’ بھٹو کی پھانسی کے وقت سارا پاکستان کیوں سڑکوں پر آگیا تھا؟‘‘۔۔۔تیزی سے بولیں’سواہ تے مٹی آیا تھا، بس ہم گھروں میں بیٹھ کر ہی روتے رہتے تھے اور۔۔۔‘‘ اچانک ہی ان کی زبان کو بریک لگ گئی، تاہم جواب مل چکا تھا۔لیکن کئی خواتین اس حوالے سے بڑی حاضر دماغ ہوتی ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آپ نے 2013 کے الیکشن میں کس پارٹی کو ووٹ دیا تھا تو معصوم سی شکل بنا کر کہتی ہیں، کاش میرا ووٹ بنا ہوتا! !!
فیس بک پر چونکہ تاریخ پیدائش اپنی مرضی کی طے ہوسکتی ہے لہذا یہاں کی بیشتر خواتین 1998 میں پیدا ہوئی ہیں ، ایسی خواتین اپنی پوسٹ میں اپنے چہرے کی تصویر لگانے کی بجائے ہمیشہ اپنے ہاتھ، پاؤں کی تصاویر لگاتی ہیں، کبھی پوری تصویر لگانی بھی پڑ جائے تو منہ دوسری طرف موڑ لیتی ہیں تاکہ لوگ ڈر نہ جائیں۔فیس بک پر خواتین کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنانے والوں کی اکثریت بھی چونکہ اس رمز کو سمجھتی ہے لہذا یہ بھائی لوگ بھی لڑکی بن کر کسی ایسی حسین و جمیل لڑکی کی 18 سالہ تصویر لگاتے ہیں جو کبھی کسی نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھی ہوتی۔ عموماً لڑکیوں کے نام سے فیس بک اکاؤنٹ بنانے والے لڑکی کا نام بھی ایسا رکھتے ہیں کہ پڑھتے ہی یقین ہوجاتاہے کہ سب دو نمبری ہے۔ یہ نام عموماً ماریہ خان، سنبل خان، لائبہ خان اورشازمہ خان ہوتے ہیں۔ آپ کو یقیناًکبھی کسی کلثوم چوہدری، نسرین شاہ، سرداراں بیگم، شکیلہ راجپوت وغیرہ کی فرینڈ ریکوئسٹ نہیں آئی ہوگی۔
آپ اگر کسی عورت سے دل کی گہرائیوں سے اپنے لیے بددعائیں سننا چاہتے ہیں تو اسے ایک دفعہ اس کے منہ پر ’آنٹی‘ کہہ کر دیکھ لیں۔البتہ وہ آپ کو پچاس سال کی ہوکر بھی انکل کہتی رہے تو آپ کو مائنڈ نہیں کرنا چاہیے۔ نوٹ کیجئے گا، جن خواتین کی عمر زیادہ ہوجاتی ہے انہیں اگر اپنی عمر کے حوالے سے سچ بھی بولنا پڑ جائے تو ایسے طریقے سے بولتی ہیں کہ شائبہ 25 سال کا ہی ہوتاہے۔ میں نے ایک خاتون سے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟
اٹھلا کر بولیں’’ پچیس سال اور کچھ مہینے‘‘۔
’’کتنے مہینے؟‘‘ میں نے کریدا!
’’یہی کوئی چار پانچ سو مہینے۔۔۔‘‘ لاپرواہی سے بولیں۔۔۔!!
اکثر خواتین کو سر میں درد ہو تو وہ ایک گولی پینا ڈول کی کھاتی ہیں، شوہر اگر کہے کہ دو گولیاں لینی چاہئیں تو آگے سے چلا کر کہتی ہیں’’دو گولیاں بڑوں کے لیے ہوتی ہیں‘‘۔ اس کے بعد شوہر خاموش ہوجاتاہے اور اطمینان سے دوسرے کمرے میں جاکر دیوار کو ٹکر دے مارتاہے۔عموماً مردوں کو اپنی عمر چھپانے کی عادت نہیں ہوتی، شائد اس لیے کہ انہیں مرد کہلوانے کا زیادہ شوق ہوتاہے۔آپ نے کئی بیس سال کے ایسے’ مرد‘ بھی دیکھے ہوں گے جو ہر کسی کو ’’بیٹا بیٹا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔
ویسے میں عمر چھپانے کے خلاف ہوں، جو چیز حقیقت ہے وہ بیان کردینی چاہیے۔ اس حوالے سے میں نے کافی ریسرچ کی ہے میں تلاش میں تھا کہ کوئی ایسا شخص ملے جو اپنی عمر کے حوالے سے بالکل سچ بولے، اللہ نے مجھے کامیابی عطا کی اور ایسا مردحق مل ہی گیا ‘ اب آپ سے کیا چھپانا،عمر بتانے کے حوالے سے خاکسار ہی دنیا کا سب سے سچا اور کھرا انسان ہے۔میں نے آج تک اپنی عمر نہیں چھپائی حالانکہ مجھے اکثر مجبور کیا جاتاہے کہ اپنی عمر غلط بتایا کرو لیکن میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا، میرے لیے عمر کی کوئی اہمیت نہیں،انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ‘ غلط عمر بتا کر بلاوجہ گناہ کمانے کا کیا فائدہ، لہذا مجھ سے جب بھی کسی نے میری عمر پوچھی، میں نے کوئی ہینکی پھینکی نہیں ماری اور کسی احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر فوراً بتا دیا کہ ۔۔۔پچیس سال۔۔۔!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“