آؤ ہم سب مل کر اجتماعی خود کشی کرتے ہیں.
آئیں ہم سب مل کر رونا روتے ہیں کافر مسلمان ہونے کا
آؤ ہم سب مل کر خود کو عاشق رسول ثابت کریں
آؤ ہم سب مل کر خود کو مسلمان ثابت کریں
آؤ ہم سب مل کر ایک وصیت تیار کرواتے ہیں کہ ہم مرجائیں یا مار دئیے جائیں تو ہمارا عقیدہ یہ ہے. ہمارا مسلک یہ ہے. کیونکہ
جانے، کب، کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے.
بقول مستنصر حسین تارڑ
کیا پتہ دنیا گزر گئی ہو اور ہم جہنم میں جی رہے ہوں.
کچھ لگتا ایسے ہی ہے کہ جہنم میں زندہ ہیں. جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں آگ کی جہنم نہیں ہے. یہ جہالت کی جہنم ہے. انتہا پسندوں کی جہنم ہے. جاہلیت کی جہنم ہے اخلاقی اقدار کا جنازہ اُٹھ چکا ہے ضابطہ اخلاق کی دھجیاں بکھر چکی ہیں وہ وقت قریب ہے کہ ہم بتلائیں کہ جو بتلانا ہے وہ کسی کے لیے بھی قابلِ برداشت نہیں ہے.
نیشنل بینک قائد آباد کے مینجر کو گارڈ کو گولیوں سے بھون ڈالا.
اور کہہ دیا کہ گستاخ رسول تھا. اب بات یہ ہے کہ اس نے کہا اور جاہلوں عوام نے نعرے لگانا شروع کر دیا بھگدڑ مچ گئی عوام نعرے لگا رہی ہے. قاتل کو چوم رہی ہے سر آنکھوں پر بٹھا رہی. تماشہ بنارہی ہے. چونکہ یہ واقعہ علاقائی واقعہ ہے اس لئے تین صحافی چھوٹے صحافی علاقائی سطح کے صحافی جمع ہو گئے اور موصوف کے بیان ریکارڈ کرنے لگے. تھانے لے جا کر قاتل کو چائے پلانے لگے.
پھر عوام کا اشتعال دیکھ کر علاقے کے مولوی صاحبان نے بھی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کہ چلو تھوڑی بہت شہرت حاصل ہوجائے تھانے پر قبضہ جما لینے کی سعی کی. پہلے مولوی ظفرالحق بندیالوی صاحب جو اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہیں پینشن لے رہے ہیں. سرکاری ملازم رہے ہیں اور ان کے بھائی جو فی الوقت ڈگری کالج قائد آباد میں بطور لیکچرار خدمات انجام دے رہے ہیں.
اور دوسرے حضرات نے سرکاری ادارے کو یرغمال بنایا. اس پر چڑھ کر تقریر کی. اور کہا کہ ہماری مرضی کی ایف آئی آر درج کروائی گئی تو ٹھیک ہے ورنہ ہم اور مزید ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں گے.
کیا مملکت ہے. کیا یہ ریاست ہے. کیا یہ ایک ملک ہے. جس میں یوں دندناتے ہوئے سرکاری اداروں کا مذاق بنایا گیا ہے.
میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انسان قتل نہیں ہوا تھا. اس کے اہل و ایال پر کیا بیتی ہوگی. اس کے رشتے داروں پر کیا گزری ہوگی جب ایک شخص کو مذہب کے نام پر قتل کیا گیا اور تماشا لگایا گیا. کیا یہ انسانیت ہے.
جب مقتول کی پروفائل دیکھی گئی تو پتہ چلا کہ وہ تو مسلمان تھا حضور اکرم شفیع معظم حضرت محمد مصطفی کی حرمت کا قائل تھا.
تو پھر اب کون جواب دے گا؟
کون نوحہ گر ہوگا؟
کس کو پیٹیں گے؟
کس کو روئیں گے؟
نظام کو روئیں گے؟ یا ریاست کو روئیں گے؟
اشک بار ہوں بھی تو کہاں ہوں. جہلاء کے جھرمٹ میں جنم لے لیا ہے.
میں اخبار کی وساطت سے، شوشل میڈیا کی وساطت سے سوال اُٹھاتا ہوں، اپیل کرتا ہوں حکومت پاکستان سے، حکومت پنجاب سے، ضلعی انتظامیہ سے
کیا وہ شخص گستاخ رسول ہوتا بھی تو ماوراء عدالت قتل جائز تھا؟
نہیں نا تو پھر آپ بے غیرت ہو چکے ہیں. بے حس ہو چکے ہیں مردہ ہو چکے ہیں آپ کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے آپ اس ہجوم کو سزا کیوں نہیں دیتے جس نے نہتے شہری کے قتل کا جشن منایا ہے اور تمام تر ذمہ داری کے ساتھ آئین پاکستان کی تضحیک کی سرکاری املاک کو یرغمال بنایا ہے. سرکاری ادارے کے تقدس کو پامال کیا ہے.
کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
کیا سرکاری ملازمین جو سرکاری تنخواہیں اور پینشن لینے والے حضرات کو ایسا کرنا شبہ دیتا تھا؟
نہیں تو پھر ان لوگوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے ان کو سرکاری ملازمت سے برخواست کرنا چاہیے.
یہ فقط ایک گارڈ کا جرم نہیں ہے.
گارڈ کے ساتھ اُس ہجوم کا بھی جرم ہے جس نے قتل کا جشن منایا ہے.
وہ بھی مجرم ہیں جنھوں نے تھانہ قائد آباد کے تقدس کو پامال کیا ہے اور مملکت کے سرکاری ادارے کی تضحیک کی ہے