آؤ دسترخوان بچھائیں، مل جل کر سب کھانا کھائیں
مشفق میزبان بہت فکرمند تھے کہ رات کے ڈیڑھ بجے اسٹیشن ویران ہوجاتا ہے، اور ملک کا ماحول خراب ہے، ان کا خیال تھا کہ میرا رات میں اکیلے اسٹیشن جانا اور پھر تنہا ایک لمبا سفر کرنا خطرناک ہے، خاص طور سے مذہبی حلئے میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرین کے سفر میں پیش آنے والے کچھ انسانیت سوز واقعات اور پھر ان کی سوشل میڈیا پر مسلسل گردش نے بہت سے لوگوں کے دل میں شدید خوف پیدا کردیا ہے۔
پروگرام کے مطابق میں اسٹیشن پہونچ گیا، اور رات ڈیڑھ بجے ایک طویل سفر شروع ہوا، اگلے دن ایک اسٹیشن پر تقریبا پندرہ ہندو جوان ڈبے میں داخل ہوئے اور اپنے ریزرویشن کے مطابق مختلف سیٹوں پر بیٹھ گئے، دوپہر کا وقت تھا اور میں کھانا کھاچکا تھا، اپنے کیبن میں میں اکیلا تھا اور باقی سیٹیں خالی تھیں، میں نے دیکھا کہ ان سب نے آپس میں کچھ مشورہ کیا اور میرے کیبن میں جمع ہونے لگے، میرے دل میں تشویش کی ایک لہر سی دوڑ گئی، مگر تھوڑی دیر میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ لوگ مل بیٹھ کر کھانا کھانا چاہتے ہیں، اور اس کے لئے انہیں یہ خالی کیبن مناسب لگا ہے۔
میں کھڑکی کی طرف کھسک کر بیٹھ گیا، ان میں سے کچھ تو سیٹوں پر بیٹھ گئے اور باقی وہیں کھڑے ہوگئے۔ ان کے پاس زیادہ سے پراٹھے تھے اور طرح طرح کی سبزیاں اور چٹنیاں تھیں، پہلے دو دو پراٹھے سب کے ہاتھوں میں تھمادئے گئے، اور پھر ہر ایک اپنے اپنے ٹفن میں سے تھوڑی تھوڑی ہر طرح کی سبزی اور چٹنی سب کے پراٹھوں پر ڈالنے لگا، میں کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنے لگا، اتنے میں ایک نے پراٹھا میری طرف بڑھایا، میں نے فورا معذرت کرلی اور اپنے جھولے کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ میں ابھی کھانے سے فارغ ہوا ہوں، تھوڑی ہی دیر بعد پھر انہوں نے کھانے میں شریک ہونے کی پیش کش کی، میں نے معذرت کی مگر وہ سب اصرار کرنے لگے۔
میرے ذہن میں کئی باتیں آرہی تھیں، بچپن میں امی کی نصیحت کہ راستے میں کسی اجنبی کی دی ہوئی چیز مت کھانا، زہر خورانی کے بہت سارے آنکھوں دیکھے واقعات، اور پھر ان کا ہاتھ دھوئے بغیر کھانا بانٹنا، اور پھر ہندووں سے سدا کی اجنبیت، میں نے اور زیادہ شدت کے ساتھ معذرت کرلی۔
اب ان سب نے کھانا کھانا شروع کردیا اور میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ اللہ کے رسول کا مکہ والوں سے قبیلہ کا تعلق تھا، اور عرب کے دوسرے لوگوں سے شعب (قوم) کا تعلق تھا، قبیلے اور قومیں اللہ تعالی نے ایک بڑی حکمت کے تحت بنائے ہیں، ان سے آپس میں تعارف ہوتا ہے، ایک قبیلے کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے خوب مانوس رہتے ہیں، اور ایک قوم کے لوگ بھی ایک دوسرے سے آسانی سے مانوس ہوجاتے ہیں (وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا)۔ ہم مسلمانوں کا اس ملک میں رہنے والوں سے نہ قبیلے کا تعلق رہا اور نہ قوم کا تعلق باقی رہ سکا، اجنبیت کے بڑے بڑے صحرا ہمارے بیچ میں حائل ہیں، اس قدر اجنبیت کے ساتھ ہم اپنا پیغام ان تک کس طرح پہونچا سکتے ہیں، اور اپنے بارے میں غلط فہمیاں کیسے دور کرسکتے ہیں۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ انہوں نے دوبارہ مجھے متوجہ کرکے پراٹھا میری طرف بڑھایا، مجھے بھوک بالکل نہیں تھی مگر میں نے دل تھام کر وہ پراٹھا تھام لیا، پراٹھا میرے ہاتھوں میں آنا تھا کہ ان کے درمیان خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، اور ہر کسی نے کچھ نہ کچھ میرے پراٹھے پر ڈالنا شروع کردیا، میں نے کھانا شروع ہی کیا تھا کہ انہوں نے ایک اور پراٹھا اصرار کے ساتھ دے دیا، اب مجھے ان کے ساتھ کھانے میں لطف آنے لگا تھا، تھوڑی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ میں ان کے قبیلے کا ایک فرد ہوں، یہ احساس اپنے اندر عجیب سی فرحت لئے ہوئے تھا، کھانا ختم ہوا تو شکر اور گھی پر لپٹی ہوئی روٹیاں آدھی آدھی کرکے تقسیم کی گئیں، آدھی روٹی میرے حصے میں بھی آئی، میں سوچنے لگا کہ یہ سب اپنے اپنے گھر سے لائی ہوئی چیزیں تقسیم کرکے کھارہے ہیں، آخر میں کیسے اس تقسیم میں اپنا حصہ شامل کروں، پھر خیال آیا اور میں نے بیگ سے عرب کی کھجوریں نکالیں اور اپنے ہاتھ سے سب کو بانٹ دیں، شاید ہمارے ملک کے ہندو کھجور سے زیادہ آشنا نہیں ہیں، بہرحال انہیں وہ کھجور بہت اچھی لگی۔
شام ہوئی تو ان میں سے ایک نے چاول کے لڈو نکال کر بانٹے، ایک لڈو میرے حصہ میں بھی آیا، بہت لذیذ تھا، رات میں میرا اسٹیشن آگیا اور سب نے دروازے پر آکر مجھے اس طرح رخصت کیا جیسے وہ اپنے قبیلے کے ایک فرد کو رخصت کررہے ہوں، کچھ نے میرے ساتھ سیلفی بھی لی۔ میں اترگیا، پھر ٹرین چل دی اور میں اپنے چاہنے والوں کی طرف دیر تک دیکھتا رہا، یہ سب لوگ بہت دور کسی ’’دیوی‘‘ کے درشن کے لئے جارہے تھے۔
میرا یہ احساس پہلے بھی تھا، اور اب تو اور گہرا ہوگیا ہے، کہ ہندوستانی عوام کے ذہن کو پڑھنے کے لئے اور ہندوستان کے حالات کو جانچنے کے لئے سب سے معتبر اور بہترین ذریعہ ٹرین ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا غیر معتبر ہے، اور سوشل میڈیا تو بالکل بھروسے کی چیز نہیں ہے، بستیوں کا حال یہ ہے کہ مسلمان اور ہندو ایک دوسرے سے الگ تھلگ تحفظات کے ساتھ رہتے ہیں، اور ایک دوسرے کو ٹھیک سے پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، ٹرین میں سب لوگ ایک دوسرے سے بہت قریب آجاتے ہیں، اور ایک دوسرے کو آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ٹرین میں جتنا زیادہ سفر کریں گے اتنا ہی زیادہ لوگوں کو پڑھ سکیں گے۔ میں نے ٹرین میں سفر کرتے ہوئے جس قدر ہندووں کو پڑھا ہے، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندووں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے ابھی تک اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، بہت سے ہندو ابھی بھی مسلمانوں سے نفرت نہیں رکھتے ہیں، اور حلئے سے مذہبی نظر آنے والے مسلمانوں کا تو وہ بہت احترام کرتے ہیں۔
یہ صورت حال ایسی ہی رہے گی یہ ضروری نہیں ہے، نفرت پھیلانے والے اپنا کام مسلسل کئے جارہے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے، انہیں آگے بڑھ کر نفرت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا ہوگا، یہ کام سیکولر ہندووں سے زیادہ اچھی طرح دین دار مسلمان کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں اسلام کا تعارف عام ہونا بہت ضروری ہے، کہ وہ سچا اور بہت اچھا دین ہے، اور مسلمانوں کا تعارف عام ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ وہ اچھے اور قابل اعتماد لوگ ہوتے ہیں، ان کی انسانیت، دین داری اور امانت داری پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، ملک کی بساط پر اچھا دسترخوان چننے میں وہ بھی بھرپور حصہ لے سکتے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“