او دسدی کُلی یار دی گھڑیا،،،، او دسدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائل پور اور اس کے ارد گردبسے شہروں میں پیدا ہونے والوں میں بڑی بڑی نامور شخصیات نے جنم لیا ہے جنھوں نے بر صغیر اور دنیا میں بڑا نام پایا ہے ان میں سیاسی ، ادبی ، فلمی صحافی ، اور گائیکی سے تعلق رکھنے والی شخصیات ہیں ، ان میں سے کچھ تو خود یہاں پیدا ہوئی ہیں اور کچھ کے والادین کا تعلق لائل پور سے رہا ہے ۔ انھی میں نصرت فتح علی خان ہیں جنھوں نے شہر کے مرکز میں لوسوڑی شاہ کے دربار کے سامنے ایک حویلی میں جنم لیا ۔
ان کے آباو اجداد تو افغانستان سے آئے تھے مگر ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ خاندان ، لائل پور میں آکر آباد ہو گیا ، اس خاندان کے سربراہ دو بھائی تھے اُستاد فتح علیخان اور اُستاد مبارک علی خان (جن کو مولوی صاحب بھی کہا جاتا تھا )جنھوں نے پچاس کی دہائی میں قوالی کو ایک نیا نداز دیا اور جب تک یہ دونوں بھائی زندہ رہے اپنے اس نئے انداز کی وجہ سے قوالی کی گائیکی پہ حکمرانی کرتے رہے۔ میرا بچپن اس خاندان کی حویلی کی تنگ اور بل کھاتی سڑھیوں پہ اوپر نیچے دوڑتے ،گرتے ،حویلی کے کمروں میں پڑی پیٹیوں کے پیچے اور چارپائیوں کے نیچے بچوں کے ساتھ ،، لوکن میٹی ،،، گھر کی چھت پہ کوکلا شپاکی کا کھیل کھلتے اور اس خاندان کے ایک کالے رنگ کے بزرگ کو ، چاچا جامنو کالے را ، کہہ کر چھیڑکر بھاگتے گزرا ہے ۔میرے والد اور اُستاد فتح علی خان بہت گہرے دوست تھے والد صاحب جب بھی اُستاد فتح علی خان صاحب ( جن کو میں تایا جی کہتا تھا ) ملنے جاتے تو اکثر مجھے ساتھ لے جاتے ۔۔۔گھر کے اندر داخل ہوتے ہی والد صاحب تو ایک منزل اوپر ایک خاص کمرے میں چلے جاتے جہاں فتح علی خان صاحب اور مبارک علی خان صاحب کے ساتھ وہ فارسی شاعری، دھرپد اور ٹھمری پہ گفتگو کرتے رہتے اور میں حویلی کے ڈھیروں بچوں میں سے چند کے ساتھ ٹولی بنا کر کھیلتا رہتا ، ڈھیروں میں نے اس لیے کہا کہ اس حویلی میں ان دو بھائیوں کےعلاہ اور عزیزو اقارب بھی رہتے تھے اور یہ سب بچے پیدا کرنے میں لمبی لمبی تانیں لگاتے ریتے تھے ،
نصرت فتح علی خان صاحب جس کو ہم پیجی کہتے تھے ، بہت شرمیلے تھے یہ ہمارے ساتھ کھیل میں کم ہی حصہ لیتے تھے ۔ ایک ہی جگہ پہ بیٹھے ہم بچوں کو کھیلتا دیکھ کر اپنے پورے جسم کے ساتھ ہنستے رہتے ۔ یہ جب اپنے والد اور تایا جی کے ساتھ قوالی میں گانے لگے تو پہلے یہ صرف ،، خیال ،، پی گاتے تھے ۔
اس خاندان سے جب تک نصرت فتح علی خاں صاحب زندہ رہے تعلق رہا وہ دونوں دفعہ جب سویڈن میں ائے تو مجھے ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے ، ( سویڈن میں جن شخصیات کی میزبانی کا مجھے شرف حاصل ہوا ہے ان کئے بارے ایک کتاب لکھ رہا ہوں دیکھیں کب یہ مکمل ہوتی ہے ) اور جب بھی میں پاکستان گیا ان سے ضرور ملاقات رہی ، مگر نہ تو اب نصرت فتح علی خاں صاحب رہے نہ وہ حویلی رہی جسکی تنگ اور بال کھاتی سڑھیوں ۔ کمروں میں پڑی پیٹوں کے پیچھے اور چارپائیوں کی نیچے ،،لوکن میٹی ،، گھر کی چھت پہ ،، کوکلا شپاکی جمعرات آئی جے ،، کھیلتے بچپن گزرا تھا
کل ،، گھر کی ہمسائی ،، سے کسی بات پہ چخ چخ ہوگئی تو میں نے اپنے کمرے کا دروازہ زور سے بند کیا اور نیٹ پہ YOUTUBE کھول لیا۔ YOU TUBE کھلتے سار ہی سامنے نصرت فتح علی خاں صاحب کی گائی قوالی ،، او دسدی کُلی یار دی گھڑیا۔۔۔۔ او دسدی ،،، کھل گئی ،
اصل میں تو یہ قوالی ان کے والد فتح علی خان آور ان کے تایا مبارک علی خاں صاحب نے گائی ہے ، جو سوہنی اور گھڑے کے درمیان ہونے والے مکالمے پہ مشتمل ہے ، سوہنی ہر رات گھڑے پہ تیر کر دریا کے اس پار اپنے عشق مہینوال سے ملنے جاتی ہے ، مگر ،،، مگر ایک دن سوہنی کی بھابھی نے پکے گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ دیا ۔ شاید سوہنی کو پتہ چل بھی گیا ہو کہ گھڑا کچا ہے ، مگر ایک تو محبوب کی آنکھیں سوائے اپنے عاشق کے کچھ اور دیکھنا ہی نہیں چاہتیں اور دوسرا سوہنی کو کچے گھڑے کی نسبت اپنے پکے عشق پی زیادہ مان تھا اور سوہنی کچا گھڑا لے کر ہی دریا میں کود گئی مگر جب کچا گھڑا ،، کُرنے لگا اور دریا کی موجوں نے سوہنی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، تو اس وقت جو سوہنی اور گھڑے کے درمیان بات چیت ہوئی یہ قوالی اس گفتگو پہ مشتمل ہے
سوہنی گھڑے کی منتیں کرتی ہے کہ دیکھ ،، ہمت نہ ہار وہ سامنے یار کی کُلی ہے بس مجھے وہاں تک پہنچا دے مگر گھڑا کہتا ہے میں مجبور ہوں کیونکہ میں تمھاری طرح عشق کی آگ میں پکا نہیں ہوں ،
میں بھی کچے گھڑے پہ بیٹھا ہوا ہوں ۔۔ اور گھڑے کی منتیں کر رہا ہوں کہ بس مجھے یار کی کُلی تک پہچا دے ۔۔۔۔۔۔ مگر لگتا نہیں ہے پہنچ پاوں گا ۔۔ مگر ،،،،،،،، مگر دریا کی موجیں سمجھ رہی ہیں وہ مجھے اپنی لپیٹ مین لے لیں گی تو یہ ان کی خوش فیمی ہے
میں ان کے ہاتھ آنے والا نہیں ہوں ،، ان موجوں کو میرا کچھ نہیں ملنے والا
میں یار کی کُلی میں پہنچ گیا ہوں
مسعود قمر
“