آو برداشت کا شجر اگائیں
سوچ، خیالات، نظریات اور فکر میں انفرادی و اجتماعی طور پر اختلاف بھی ہوتا ہے اور یکسانیت بھی ۔ہم خیال، ہم فکر اور ہم نظر لوگ آپس میں مل کر نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کو قبول نہیں کرتے ۔بلکہ انفرادی و اجتماعی طور پر اظہار نفرت کرتے ہیں ۔مختلف مزاہب کے ماننے والے نظریات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ہندووں، مسلمان، عیسائی، یہودی سب ایک دوسرے سے نفرت تو کرتے ہی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک ہی مزہب میں گروہ بندی کی جاتی ہے ۔پھر یہ گروہ اپنے مفادات و نظریات کے تحفظ کیلئے دوسروں پہ تنقید کرتے ہیں ۔ عیسائی مذہب میں جہاں انسان کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں میں تقسیم ہوئے وہاں مسلمان شیعہ، سنی، بریلوی اور دیوبندی تفریق میں منقسم ہوئے ۔سب نے اپنے مفادات، سوچ و نظریات کو درست تسلیم کیا اور دوسروں سے منافرت کو فخریہ و کفریہ انداز میں پیش کیا ۔
اسی طرح روسن خیال دانشور، مزہبییوں کو برا بھلا کہتے ہیں جبکہ مزہبی روشن خیال لوگوں کو ۔مزہبی میدان سے نکل کر سیاسی میدان میں بھی انسانی گروہ ایک دوسرے کے خلاف اور اپنی جماعت و گروہ کی جائز ناجائز حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔انسان کی تخلیق کردہ سرحدیں جو انسانوں کو ملکی شناخت میں تقسیم کرتی ہیں، بھی نفرت و محبت کی وجہ بنتی ہیں ۔ایک ملک میں رہنے والے انسان دوسرے ملک سے عموما نفرت کرتے ہیں اور اپنے ملک کے گیت گاتے ہیں ۔فوجیں بنائی جاتی ہیں ۔ضرورت پڑنے پر جنگیں بھی لڑی جاتی ہیں ۔ملک کو چلانے کے لئے ادارے بنائے جاتے ہیں ۔اداروں کو حکمران ذاتی تسلط میں رکھتے ہیں ۔انہیں اداروں کے ذریعے عوام میں خوف پھیلاتے ہیں ۔عوام بھی انفرادی طور پر حسب استطاعت اداروں سے مفید ہوتی ہے ۔غرض مزاہب ہوں یا مزہبی گروہ ،عوام ہوں یا حکمران،اجتماعیت ہو یا انفرادیت سب اپنے نظریات، خیالات، مفادات میں جکڑے ہوئے ہیں ۔اپنی سوچ سے انحراف کرنے کو کوئی خدا کی ناراضی سمجھتا ہے تو کوئی جاہلیت ۔
بارود،نفرت ،رنجش کی جگہ برداشت، صبر ،پیار ،محبت کو تقسیم کریں ۔دوسروں کی سوچ کو صبر سے برداشت کریں ۔اپنے خیالات، نظریات ،فکر اور سوچ کو حرف آخر نہ سمجھیں ۔آو برداشت کا شجر اگائیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“