مشہور شاعر انوری نے کہا تھا کہ ہر بلا آسمان سے اترتے ہوئے میرے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔ لگتا ہے انوری بیچارے کا گھر بھی پاکستان جیسا تھا۔ جب بھی شمعِ حوادث کی لَو تھرتھراتی ہے مصیبتوں کا ایک نیا سلسلہ پاکستان پر ٹوٹتا ہے۔ غریب کی جورو…. طالبان کا زور بھی پاکستان پر ہے، امریکہ بھی اپنی شکست کا غصہ پاکستان پر اتارنا چاہتا ہے۔ کرپٹ انسانوں کا ایک مکروہ طائفہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے دنیا بھر میں جائیدادیں خرید رہا ہے، کارخانے لگا رہا ہے اور بنکوں کی تجوریاں بھر رہا ہے، طبقہء علماءکے بڑے حصے کو بھی اقتدار کا ذائقہ راس آگیا ہے!
آپ پاکستان اور اہل پاکستان کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ پرویز مشرف جیسے شخص میں بھی یہ حوصلہ ہے کہ وہ برملا پاکستان واپس آکر اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے عمران خان کو اپنا حلیف قرار دیا ہے۔ کہا تو اس نے یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم بھی اس کا ساتھ دے گی لیکن ایم کیو ایم کے ماضی اور ہر لحظہ موقف بدلتے حال کے پیش نظر، اس کا پرویز مشرف کی حمایت کرنا حیرت انگیز بالکل نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پرویز مشرف نے عمران خان کو بھی اپنا حلیف ظاہر کیا ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عمران خان نے (تادم ایں تحریر) اس کی کوئی تردید نہیں کی۔ گویا خاموشی نیم رضا!
پرویز مشرف 8 سال تک اس مجبور، مظلوم اور مقہور قوم کی گردن پر پیرِ تسمہ پا کی طرح سوار رہے، شام اور شب کے ”مشاغل“ کا خرچ قومی خزانے سے چلتا رہا، کراچی جب بھی جاتے، شاہراہیں بند ہونے کی وجہ سے اموات واقع ہوتیں اور سکولوں کے بچے رات تک پھنسے رہتے اور کراچی کے ٹھیکیدار چوں تک نہ کرتے۔ پرویز مشرف نے 8 سال شہنشاہوں کی طرح گزارے، مزے سے ٹینس کھیلتے رہے، چار چار لاکھ کے سوٹ پہن کر دنیا کی سیر کرتے رہے، ریس کھیلنے والے قمار باز سرکاری بابوﺅں کو ملک کی تقدیر سے کھیلنے پر مامور کئے رکھا اور اعصاب کی مضبوطی دیکھئے کہ اب پاکستان واپسی پر ایک لاکھ افراد کے استقبال کی توقع کر رہے ہیں۔ قوم کے احسانات کا بدلہ چکانے کا یہ طریقہ خوب ہے کہ ایک بار پھر قوم پر سواری کی جائے۔ خیر، احسان فراموشی کا تو یہ عالم ہے کہ موصوف نے ایک بار بھی میاں نواز شریف کے اس احسان کا ذکر تک نہیں کیا کہ انہوں نے میرٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے آرمی چیف بنایا حالانکہ ڈاکٹر قدیر خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پرویز مشرف کی ”نیک نام“ شہرت کے پیش نظر (غالباً بڑے میاں صاحب مرحوم کے ذریعے) منع کیا تھا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کے اس احسان کا شکریہ ادا کیا نہ نواز شریف ہی نے قوم سے آج تک اس جرم کی معافی مانگی کہ انہوں نے جانتے بوجھتے، لوگوں کے منع کرنے کے باوجود، میرٹ کُشی کر کے پرویز مشرف کو عالمِ اسلام کی سب سے بڑی فوج کا سالار مقرر کیا حالانکہ پرویز مشرف کے ”مشاغل“ اور ”روز و شب“ کا چرچا اس وقت بھی چار دانگِ عالم میں تھا!
آپ اس قوم کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کیسے کیسے لوگ کیا کیا لبادے اوڑھ کر اسکی"" خدمت"" کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف سے حال ہی میں کسی پاکستانی صحافی نے پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سابق رہنما کے بارے میں پوچھا اور اس نے یہ کہا کہ میں ان سے نہیں ملا تو اس سابق رہنما نے (جو بہرحال کسی نہ کسی طرح، ریٹائرمنٹ کے باوجود ”اِن“ رہنا چاہتے ہیں) ایک اخبار میں زور و شور سے مضمون لکھ کر پرویز مشرف کو یاد دلایا کہ میں تو آپکے اقتدار کے اوائل میں آپ کو اڑھائی اڑھائی گھنٹے تک ملا تھا۔ یہ سابق رہنما ترکی اور عرب دنیا سے لےکر، پرویز مشرف تک ہر موضوع پر لکھتے ہیں لیکن حسرت ہی رہی کہ انکی کوئی تحریر پاکستان کے عوام کے مسائل پر بھی نظر آ جائے۔ یوں لگتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام، ملکیت زمین کے فرسودہ ڈھانچے ،تعلیمی نظام اور عوام کی معاشی بدحالی پر لکھنا قابل دست اندازیء پولیس ہے!
”جمہوریت پسندی“ کا یہ عالم ہے کہ پرویز مشرف نے جب جمہوریت پر شب خون مار کر منتخب وزیراعظم کو قید کر دیا تو یہ سابق رہنما پرویز مشرف کو اسکے محل میں تنہا ملے یعنی اپنی جماعت کا کوئی فرد بھی ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا۔خود لکھتے ہیں….”میں وزیراعظم ہاﺅس کے اسی میٹنگ روم میں اکیلا بیٹھا ہوا چیف آف آرمی سٹاف ا ور ان دنوں چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کی آمد کا منتظر تھا“۔
اس خفیہ ملاقات کا ذکر جماعت کے سابق رہنما اب بھی نہ کرتے‘ وہ تو پرویز مشرف نے کہہ دیا کہ میں ان سے نہیں ملا تو انہیں اس ملاقات کا ذکر کرنا پڑا تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ تو اس سے ملے تھے! ورنہ دس سال تک یہ طویل ملاقات پردہ راز میں رہی اس لئے کہ ا نکے اپنے الفاظ میں ”میٹنگ کے اختتام پر باہر نکلتے ہوئے انہوں نے (یعنی پرویز مشرف نے) دبی آواز میں خواہش ظاہر کی کہ میں پریس میں اس کا ذکر نہ کروں۔ اس ملاقات کو اب دس سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے“۔
اس خفیہ ملاقات کا سبب بھی سابق رہنما خود ہی بتاتے ہیں۔”جب انکی ٹیم کےساتھ مذاکرات کے دوران ہم نے ان سے فوجی عہدہ ترک کرنے کا مطالبہ کیا تو انکی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو “۔ سیاق و سباق سے یہ تاثر واضح ہے کہ ”ٹیم کےساتھ مذاکرات“ یہ سابق رہنما تنہا نہیں کر رہے تھے۔ اور لوگ بھی ہوں گے لیکن جب پرویز مشرف کی ٹیم نے کہا کہ تم خود ان سے مل کر بات کرو تو یہ تن تنہا ہی ملاقات کیلئے محل میں پہنچے، اکیلے بیٹھ کر ”چیف ایگزیکٹو“ کی آمد کا انتظار کرتے رہے اور اڑھائی کھنٹے تک ”ملاقات“ کرتے رہے۔ یہ سابق رہنما اقبال کے اشعار بہت سناتے ہیں۔ اقبال نے تو یہ بھی کہا تھا ….
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
اگر پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کا خفیف سا امکان بھی ہے تو اسے یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ میں تو آپ سے ملا تھا۔ یوں بھی اگرمنتخب اداروں کےلئے خواتین کی نامزدگی کا وقت آئے تو اپنی لخت جگر کو نامزد کرنا عین جمہوریت ہے حالانکہ جماعت میں ایسی ایسی خواتین موجود ہیں جنہوں نے ساری زندگی دین کی جدوجہد میں گزار دی اور اب بھی فقیری اور مسلسل خدمت اور دعوت و تبلیغ میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں لیکن جماعت کے ارباب قضا وقدر کی نظر جب بھی پڑی اپنے ہی کنبوں پر پڑی۔
سادہ لوح اور مخلص ارکان پر مشتمل اس مذہبی سیاسی جماعت کے رہنماﺅں کی رفاقت لشکریوں کے ساتھ قدیم ہے۔ یحییٰ خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان کی قتل و غارت میں جرنیلوں کا ساتھ دیا۔ ضیاءالحق کے پورے دور میں یک جان دو قالب رہے اور ماموں بھانجا جالندھری نیٹ ورک پر کھل کر کھیلے۔ پرویز مشرف کو سترھویں ترمیم پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جو اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس پرانی رفاقت پر ایک معتبر صحافی نے بھی گواہی دی ہے۔ ہوا یوں کہ اس سابق رہنما نے کچھ عرصہ قبل ایک تھنک ٹینک نما مجلس برپا کی۔ صحافی اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں….”اگلے روز اخبارات میں جو تصویر شائع ہوئی اس میں ان کے ساتھ ریٹائرڈ جرنیل ہی نظر آ رہے تھے تصویر دیکھ کر میری زبان پر یہ شعر آیا کہ…. میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک صاحب ادراک بولے میر ہرگز سادہ نہیں۔ پچاس سالہ رفاقت ہے۔ میر ا ور عطار کا ایک دوسرے کے بغیر وقت ہی نہیں گزرتا“۔
بات پرویز مشرف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہش سے چلی تھی۔ پاکستان بھی انوری کا گھر بن گیا ہے
ہر بلائی کز آسمان آید
گرچہ بردیگری قضا باشد
برزمین نارسیدہ می پرسد
خانہء انوری کجا باشد
یعنی جو بلا بھی آسمان سے اترتی ہے۔ راستے ہی میں پوچھنے لگتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے؟