آج – ١٣؍ اگست ١٩٨٥
عالم ،دانشور،مجاہد آزادی اورخطیب،اپنی شاعری میں مستانہ روی اور صوفیانہ رنگ کے لیے معروف شاعر” انورؔ صابری صاحب “ کا یومِ وفات…
انور صابری ،نام رونق علی شاہ۔ علامہ ، انورؔ تخلص۔ ۱۰؍مئی ۱۹۰۱ء کو پاک پٹن میں پیدا ہوئے۔ دیوبند، ضلع سہارن پور ان کا وطن تھا۔ جیب حسن وحشی دیوبندی سے تلمذ حاصل تھا۔ ۱۳؍اگست ۱۹۸۵ء کو دیوبند میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:361
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
صوفیانہ شاعر انورؔ صابری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
میں جو رویا ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے
حسن کی فطرت میں شامل ہے محبت کا مزاج
—
آپ کرتے جو احترامِ بتاں
بتکدے خود خدا خدا کرتے
—
ہر سانس میں خود اپنے نہ ہونے کا گماں تھا
وہ سامنے آئے تو مجھے ہوش کہاں تھا
—
وقت جب کروٹیں بدلتا ہے
فتنۂ حشر ساتھ چلتا ہے
—
آدمیت کے سوا جس کا کوئی مقصد نہ ہو
عمر بھر اس آدمی کی جستجو کرتے رہو
—
جفا و جور مسلسل وفا و ضبطِ الم
وہ اختیار تمہیں ہے یہ اختیار مجھے
—
اف وہ معصوم و حیا ریز نگاہیں جن پر
قتل کے بعد بھی الزام نہیں آتا ہے
—
روز آپس میں لڑا کرتے ہیں اربابِ خرد
کوئی دیوانہ الجھتا نہیں دیوانے سے
—
جینے والے ترے بغیر اے دوست
مر نہ جاتے تو اور کیا کرتے
—
ظلمتوں میں روشنی کی جستجو کرتے رہو
زندگی بھر زندگی کی جستجو کرتے رہو
—
جب زمانے کا غم اٹھا نہ سکے
ہم ہی خود اٹھ گئے زمانے سے
—
تمام عمر قفس میں گزار دی ہم نے
خبر نہیں کہ نشیمن کی زندگی کیا ہے
—
انورؔ مرے کام آئی قیامت میں ندامت
رحمت کا تقاضا مرا ہر اشکِ رواں تھا
—
مایوس نہ ہو بے رخیٔ چشمِ جہاں سے
شائستۂ احساس کوئی کام کیے جا
—
میں ہوں انورؔ ان کی ذاتِ پاک کا ادنیٰ غلام
ہے سرِ اقدس پہ جن کے رحمتِ یزداں کا تاج
—
ﺩﻭﺭِ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮐﻢ ﺁﺷﻨﺎ
ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻤﺪﻡ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺏ ﻧﮧ ﮨﻤﺪﻡ ﺁﺷﻨﺎ
—
ﺍﻧﻘﻼﺏ ﺳﺤﺮ ﻭ ﺷﺎﻡ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺗﻮﺑﮧ
ﺍﺛﺮ ﮔﺮﺩﺵِ ﺍﯾﺎﻡ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺗﻮﺑﮧ
—
ﻟﺐ ﭘﮧ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﮯ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﻭ ﺑﮑﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ
ﮐﻮﺋﯽ ﺁﯾﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺑﻠﮧ ﭘﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ
—
کچھ ﺍﺑﺮﻭﻭﮞ ﭘﮧ ﺑﻞ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺧﻨﺪﮦ ﻟﺒﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻓﺮﻣﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﺭ ﻣﮕﺮ ﺩﻟﮑﺸﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
انورؔ صابری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ