نام کتاب: شامِ غریباں (افسانچوں کا مجموعہ)
مصنف: انور مرزا (9029449173)
ضخامت: 128 صفحات
قیمت: 150 روپے
ناشر: الفاظ پبلی کیشن کامٹی، ناگپور
مبصر: محمد علیم اسماعیل
انور مرزا کے افسانچوں کا مجموعہ ’شامِ غریباں‘ حال ہی میں منظر عام پر آیا۔ کتاب میں مصنف کا ’حرفِ اول‘، ریحان کوثر کا مضمون ’انور مرزا اور ان کے فطری فن پارے‘ اور 53 افسانچے موجود ہیں۔ ریحان کوثر نے اپنے مضمون میں انور مرزا کی شخصیت اور فن پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی کہانیوں میں فطرت پسندی پر روشنی ڈالی ہے۔ فلیپ پر غضنفر صاحب کے تاثرات دیے گئے ہیں۔
انور مرزا اسکرپٹ رائٹر ہیں۔ انھوں نے کئی فلموں اور ٹی وی سیریلوں کی اسکرپٹ لکھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ کاغذ اور قلم سے ان کا رشتہ پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر میں روانی، زبان میں پختگی اور اسلوب میں دلکشی ہے۔
محمد بشیر مالیر کوٹلوی اپنی تصنیف ’افسانہ، افسانچہ تکنیکی کی تناظر میں‘ میں لکھتے ہیں کہ بہتر افسانچہ وہی قلم کار لکھ سکتا ہے جو افسانہ لکھنا جانتا ہو۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے انور مرزا ’حرفِ اول‘ میں لکھتے ہیں: ’’بعض مستند و معتبر فکشن نگار کہتے ہیں کہ افسانچہ وہی لکھ سکتا ہے جو افسانہ لکھنا جانتا ہو… یہ بات اس وقت درست محسوس ہوتی ہے جب اکثر و بیشتر مطالعے میں ایسے افسانچے آتے ہیں جنہیں چاہے جو کہہ لیں… افسانچہ تو ہرگز نہیں کہہ سکتے… جس طرح انسان کا بچہ انسان ہی ہوتا ہے… بالکل اسی طرح افسانچہ اپنی مختصر شکل میں بھی افسانہ ہی ہونا چاہیے… کسی انوکھی خبر سے متاثر ہو کر لکھی گئی کوئی تحریر تب تک افسانچہ نہیں بنتی جب تک کہ اس میں کہانی، افسانویت اور کلائمکس نہ ہو۔‘‘
انور مرزا کے افسانچوں میں بھرپور طنز ہے۔
طنز کے ساتھ ان کے افسانچوں میں مزاح کی آمیزش بھی ہے۔ طنز اور مزاح کے اس امتجاز نے ان کے افسانچوں کو پراثر اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ سنجیدہ موضوع میں بھی وہ مزاح کی چاشنی اس طرح گھولتے ہیں کہ قاری حیرت میں پڑ جاتا ہے اور قاری کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آ جاتی ہے لیکن موضوع کی سنجیدگی بھی زائل نہیں ہوتی۔ سنجیدہ موضوع میں بھی ظرافت کی چاشنی گھول دینا ان کا کمال ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے غالب کو حیوانِ ظریف کہا ہے، اور میں انور مرزا کو ستم ظریف کہتا ہوں کہ وہ ظرافت کے پردے میں درد بھری اور سنجیدہ کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ انور مرزا کا دوسرا کمال ان کا منفرد اسلوب ہے، جو ایک خوشگوار ہوا کے جھونکے سے کم نہیں، جو قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتا ہے۔ میں یہاں افسانچوں کے نام نہیں لوں گا، ایسی صورت میں فہرست طویل ہو جائے گی کیونکہ مجموعے میں شامل زیادہ تر افسانچے متاثر کرتے ہیں اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
’شام غریباں‘ اس کہانی میں یہ غربت، غیرت، مجبوری اور قربانی کو پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی کے ذریعے انور مرزا نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ گھر کے افراد کے درمیان ایک دوسرے کے لیے قربانی کا جذبہ کس درجہ ہوتا ہے۔ اس افسانچے کے متعلق ریحان کوثر لکھتے ہیں:
’’انور مرزا کا ایک افسانچہ ’شامِ غریباں‘ پڑھتے ہوئے میری آنکھیں نم ہو گئیں تو میں نے اس وقت آپ کو فون کر کے اس پر تفصیلی گفتگو کی اور ان سے درخواست کی کہ آپ کا جب کبھی بھی افسانچوں کا کوئی مجموعہ شائع کیا جائے تو اس مجموعے کا نام ’شامِ غریباں‘ ہی رکھا جائے۔ دراصل یہ افسانچہ ادبی تحریک فطرت پرستی کا شاندار نمونہ ہے۔‘‘
’سامان‘ اس کہانی میں ہندو مسلم اتحاد کا درس دیا گیا ہے۔ یہ درس کہانی میں اس طرح پوشیدہ ہے کہ بظاہر تو صرف کہانی نظر آتی ہے اور درس کسی درد کی طرح اس میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہے۔ کہانی ختم ہوتی ہے اور پیغام صاف محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے جسم کے کسی ایک حصے پر چوٹ لگنے پر درد کی ترنگیں دماغ کی دیواروں سے اپنا سر ٹکرا رہی ہوں۔
افسانچہ ’اللہ تیرو نام‘ میں لاک ڈاؤن، کوونا اور ہندو مسلم ہم آہنگی کے درمیان انسانی جذبات، احساسات اور درد کو تسبیح کے دانوں کی طرح اس ایک کہانی میں پرو دیا گیا ہے۔
بوڑھے ماں باپ اور اولڈ ایج ہوم پر تو بہت سی کہانیاں لکھی گئیں لیکن افسانچہ ’چیکٹ میٹ‘ میں انور مرزا نے اس موضوع میں ایک نئے پہلو کی دریافت کی ہے اور اسے اپنے منفرد اسلوب اور بھی دلکش بنا دیا ہے۔
انور مرزا نے زیر نظر مجموعے میں دل کو چھو لینے والے کئی افسانچے لکھے ہیں اور پھر افسانچہ ’پڑھنے والی دوا‘ کے ذریعے ایسے افسانچوں پر تنقید بھی کی ہے۔ اس افسانچے میں ڈاکٹر بہت تفتیش کرتا ہے لیکن بیماری کا پتا نہیں چلتا۔ پھر کئی سوال و جواب کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مریض لاک ڈاؤن سے، دل کو چھو لینے والے افسانچے پڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر مریض کو مشورہ دیتا ہے کہ دل کو چھو لینے والے افسانچے پڑھنا بند کر دو، اس چکر میں دل کمزور اور زندگی افسانچے کی طرح مختصر ہو گئی ہے، کسی دن اچانک گھر والوں کو چونکا کر چلے جاؤ گے۔ ڈاکٹر مزید مشورہ دیتا ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر خراب سے خراب افسانچے پڑھو اور پھر ڈاکٹر اپنے افسانچوں کا مجموعہ مریض کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لو ضرورت پڑنے پر ایک دو پڑھ لیا کرو، یہ پڑھنے والی دوا ہے۔ اس افسانچے میں طنز، ظرافت اور انور مرزا کے اسلوب نے افسانچے کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ایک نیا اور کامیاب تجربہ ہے۔
کتاب کا انتساب مشہور و معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کے نام ہے۔ کتاب الفاظ پبلی کیشن کامٹی، ضلع ناگپور سے شائع ہوئی جو 128 صفحات پر مشتمل ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...