انتونی، میتھلڈا اور محبت
( فرانسیسی فلم ہیئرڈریسر کا خاوند ' Le Mari de la coiffeuse ' پر تبصرہ )
ہمارے ہاں بال کاٹنے والے عام طور پرمرد ہوتے ہیں اس لیے یہاں بارہ تیرہ سال کا بچہ بال کٹاتے وقت بھرپور مردانہ وجاہت رکھنے والے نائی کی طرف تبھی راغب ہو سکتا ہے جب اس میں ہم جنس پرستی کے ہارمون موجود ہوں لیکن یہ کہانی ایک ایسے ملک کی ہے جہاں بال کاٹنے والے مرد کم ہی ہوتے ہیں اوریہ کام زیادہ تر خواتین کرتی ہیں ۔ ایسے میں بارہ تیرہ سال کے بچے کا شیمپو سے بال دھلاتے اور کٹواتے ہوئے ہیئر ڈریسر کے نازک لمس ، اس کے بدن اور کپڑوں سے اٹھتی دل موہ لینے والی خوشبو اوراس کی بھرپورچھاتیوں سے مرعوب ہونا کسی اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔
انتونی ایک ایسا ہی بچہ ہے جو سفید لباس میں ملبوس اپنی ہیئر ڈریسر کی انہی دل فریبیوں میں ایسا گُم ہوتا ہے کہ جب اسی شام ، کھانے کی میز پر اس کا والد اس سے یہ پوچھتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر کیا کرے گا تو وہ جواب دیتا ہے ؛
” میں ہیئرڈریسر سے شادی کروں گا ۔“
جواب میں ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر پڑتا ہے ۔
انتونی ، مغربی ہونے کے باوجود ایک ایسا بچہ ہے جسے مغربی موسیقی پسند نہیں اور وہ حیرت انگیز طور پر مشرق وسطیٰ کی موسیقی کا دلدادہ ہے اور اس کی دھنوں پر اٹکل پچو رقص کرتا رہتا ہے ۔
اس کی زندگی میں ایک ہیئر ڈریسر کا خاوند بننے کی خواہش اس وقت اور بھی پختہ ہوتی ہے جب اس کی ہیئر ڈریسر زیادہ مقدار میں ’ باربیچوریٹ ‘ پی کر خودکشی کر لیتی ہے ۔ اسے پچاس برس کی عمر تک کوئی عورت پسند نہیں آتی ۔ اب اس کے بال بھی کم ہو چکے ہیں ۔ ایسے میں اسے ایک اور ہیئر ڈریسر ’ میتھلڈا ‘ پسند آتی ہے ؛ وہ تیس کے پیٹے میں ہے اور ایسے مرد کی تلاش میں ہے جو ہر لحاظ سے یکتا ہو ۔ انتونی اسے شادی کی پیش کش کرتا ہے جسے وہ قبول کر لیتی ہے ۔
کہانی ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ انتونی زندگی بھر کیا کرتا رہا لیکن پچاس برس کی عمر میں وہ اپنے بچپن کا خواب، مطلب کہ ایک بال کاٹنے والی کا خاوند بنے ، ضرور پورا کرتا ہے ۔
اب ’ ہیئر کٹنگ سیلون ‘ ہے ، میتھلڈا ہے اور انتونی ہے ؛ میتھلڈا اپنے فارغ وقت میں، کھڑکی کے پاس کاﺅنٹر پر کھڑی رسالوں کی ورق گردانی کرتی ہے جبکہ انٹونی صوفے پر بیٹھا ’ کراس ورڈز ‘ کھیلتا رہتا ہے ۔ وہ ساتھ رہتے ہیں ؛ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ، محبت کو ایک چیستان کی طرح کھوجتے ہیں اور ایک دوسرے میں دس سال تک گُم رہتے ہیں ۔ پھر ایک روز جب باہر طوفان اٹھتا ہے تومیتھلڈاکے جذبات بھی متلاطم ہوتے ہیں؛ وہ انتونی سے ٹوٹ کر پیار کرتی ہے اورپھر باہر جا کر طوفان سے بپھرے دریا میں کود کر خودکشی کر لیتی ہے ۔
میں نے جو کہانی اوپر لکھی ہے ، یہ 1990 ء کی ایک فرانسیسی فلم’ ہیئرڈریسر کا خاوند‘ ( Le Mari de la coiffeuse ) کی کہانی ہے لیکن یہ اتنی سادہ نہیں ہے جیسا کہ میں نے بیان کی ہے ۔ اس فلم کی کہانی میں کیا پیچیدگیاں ہیں ، ان سے آگاہی کے لئے آپ کو فلم دیکھنا ہو گی ۔ اس فلم کا ہدایتکار ’ پیٹرس لیکونٹے ‘ ہے ۔ اس فلم کا سکرین پلے ’ پیٹرس لیکونتے ‘اور’ کلاڈ کلوز‘ نے لکھا ہے ۔ 82 منٹ کی اس فلم کا میوزک ’ مائیکل نیمین ‘ نے ترتیب دیا ہے ۔ اس میں مرکزی کردار ’ ژاں روچیفورٹ‘ نے ادا کیا ہے جو فرانس کا ایک نامی اداکار تھا اور سٹیج و فلم کے لئے پہچان رکھتا ہے ۔ وہ اکتوبر 2017ء میں 87 برس کی عمر میں فوت ہوا ۔ اس کے مد مقابل اطالوی اداکارہ ’ اینا جیلینیا ‘ ہے ۔ وہ حیات ہے اور اس وقت 64 برس کی ہے ۔ اس فلم نے کئی عالمی ایوارڈز کے لئے نامزدگیاں حاصل کرنے کے علاوہ ان میں سے کچھ حاصل بھی کیے ۔
ایک ہیرکٹنگ سیلون اور اس کے پچھواڑے گھر میں مرد و زن کے تعلق پر مبنی یہ فلم بظاہر تو فرانسیسی ماحول کا پرتو ہے لیکن یہ وجودیت پسندی کی ایک آفاقی مثال بھی ہے ۔ جنسی خواہش کیسے محبت میں بدلتی ہے، یہ فلم اس بتدریج بڑھتے ہوئے تعلق کو بہت عمدگی سے پیش کرتی ہے؛ جس کی معراج میتھلڈا کے لئے یہ ہے کہ وہ جنسی طور پر پُرباش ہو کر اس لئے مرجانا چاہتی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ اس کے بعد اس کا انتونی کے ساتھ تعلق زوال کی مانند بڑھے گا ۔ اس کے برعکس انتونی اسی پر قانع ہے کہ میتھلڈا اس کے ساتھ ہے ، فارغ وقت میں وہ اس کے بال تراشتی ہے اور اس کے ساتھ رقصاں بھی رہتی ہے ؛ وہ اس کی موت کے بعد بھی اس سحر میں غلطاں ہے اور جب بال کٹانے کے لئے ایک مرد سیلون میں آتا ہے تو وہ اسے یہ کہہ کر کہ ہیئر ڈریسر آتی ہی ہو گی ، ' کراس ورڈز' کے کھیل میں ایسے مگن ہو جاتا ہے جیسے میتھلڈا پچھواڑے کے کمرے سے نکل کر گاہگ کو سنبھال لے گی ۔ مجھے ایسے میں سارتر اور سیمون کا تعلق یاد آتا ہے جس میں سارتر ، سیمون کا ساتھ پہلے چھوڑ گیا تھا اور سیمون کو اس کے بغیر چھ سال گزارنا پڑے تھے ، ساتھ ہی سارتر کا ' Being and Nothingness ' کا فلسفہ بھی ۔
اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ’ آرٹ فارم ‘ کامل کیونکر ہوتی ہے تو اس فلم کو دیکھیں ۔ یہ شروع میں بظاہرآپ کو مزاحیہ لگے گی لیکن جوں جوں آپ اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ یہ آپ کے ساتھ انتہائی گرم جوشی سے بغل گیر ہو رہی ہے اور ختم ہونے کے بعد بھی آپ کا ’ پِنڈا ‘ نہیں چھوڑ رہی ۔ آپ ساتھ میں یہ بھی محسوس کریں گے کہ آپ کوئی سہانا خواب دیکھ رہے ہیں یا پھر یہ کہ آپ ایک حقیقی بازار میں ، ایک حقیقی دکان میں ، حقیقی لوگوں میں بسی ایک جیتی جاگتی ’ پریوں کی کہانی ‘ دیکھ رہے ہوں ۔ شروع میں آپ کو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ انتونی بال کاٹنے والی عورتوں سے obsessed ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ فلم کے ساتھ چلتے چلتے فلم بین پر بھی یہ خواہش بُری طرح حاوی ہونے لگتی ہے کہ وہ خود بال کاٹنے والی کا خاوند کیوں نہیں ہے۔ پیٹرس لیکونٹے کی کامیابی بھی اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ فلم بین کو انتونی کی جگہ کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ نقاد پیٹرس لیکونٹے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی فلموں کے موضوعات اپنی اپنی جگہ یکتا ہوتے ہیں ۔ وہ شاید درست ہی کہتے ہیں کیونکہ اس فلم کو دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک اچھوتا موضوع ہے ۔ پیٹرس لیکونٹے حیات ہے اور اس وقت 71 برس کا ہے ۔ اس کی آخری فلم 2014 ء میں ’ تنگ نہ کر ‘ (Une heure de tranquillité) آئی تھی ۔
میں نے ’ پیٹرس لیکونٹے ‘ کی یہ فلم بہت عرصہ پہلے دیکھی تھی لیکن مجھے چند روز قبل یہ اس وقت یاد آئی جب میں + 60 کی عمر میں پہلی بار ایک ایسے ہیئر کٹنگ سیلون میں گیا جہاں خواتین ہیئرڈریسنگ کا کام کرتی ہیں ۔ میرے بالوں کو شیمپو کرنے اور کاٹنے والی ایک بیس بائیس سالہ لڑکی تھی ؛ اس کی چھاتیاں تنومند تھیں اور یہ بار بار مجھ سے ٹکرا جاتیں ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے لگا جیسے یہ ماحول کچھ مانوس سا ہے لیکن ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ میں تو پہلی بار کسی خاتون ہیئرڈریسر سے بال کٹوا رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ بہر حال اس سیلون سے نکلتے نکلتے مجھے یہ فلم یاد آ ہی گئی اور مانوسیت کی وجہ بھی ذہن میں در آئی ۔ میں نے گھر پہنچ کر اس فلم کو ایک بار پھر سے دیکھا اور اس پر ریویو لکھا جو مجھے اس وقت لکھنا چاہیے تھا جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا ۔