انٹن چیخوف کے مطابق تہذیب یافتہ افراد کی آٹھ خوبیاں
تہذیب یافتہ کون ہے؟ وہ جسے محافل کے مطابق لباس پہننے کا سلیقہ ہے یا وہ جو کھانا چھری کانٹے سے کھاتا ہے۔ وہ جو بغیر کتاب پڑھے اسی کتاب پر تبصرہ کر سکتا ہو یا خود پسند جسے اپنے علاوہ کسی کا خیال نہیں سوجھتا۔ معاف کیجیے گا ہمارے ہاں انہی باتوں کو مہذبانہ شمار کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ بطور معاشرے کا فرد میں ایسا لکھ رہا ہوں۔ مشاہدہ سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔
لیکن انٹن چیخوف کے نذدیک مہذب افراد کچھ دیگر خوبیوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اس چیز کا اظہار اس نے اپنے بھائی نکولائی کو خط کے ذریعے کیا۔
ملاحظہ کیجیے۔۔
“تم نے اکثر مجھ سے یہ شکایت کی ہے کہ لوگ تمہیں نہیں سمجھتے۔ گوئٹے اور نیوٹن نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ صرف مسیح نے کہا، اس نے اپنے درس کے بارے کہا، اپنے نہیں۔ لوگ تمہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اگر تم خود کو نہیں سمجھتے تو یہ ان کی غلطی نہیں۔ میں بطور ایک بھائی اور دوست تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں تمہیں اچھی طرح سمجھتا ہوں اور وثوق سے جانتا ہوں۔ میں تمہاری اچھی خصوصیات سے آگاہ ہوں جیسے میری پانچ انگلیوں سے۔ اگر تم اس کا ثبوت مانگو، تو میں کبھی بھی دینے کو تیار ہوں۔ میں سوچتا ہوں تم ایک نرم دل انسان ہو۔ فراخدل، بے لوث، جیب میں پڑا آخری سکہ بھی دوسروں کو دینے کو تیار۔ تم حاسد نہیں نہ کینہ دل۔ تم معصوم ہو۔ ترس کھانے والے۔ خواہ انسانوں یا درندوں پر۔ تم قابل اعتبار ہو۔ بدی سے بے بہرہ۔ تمہیں فطرت سے جو یہ تحفہ عطا ہوا ہے دوسرے اس سے محروم ہیں۔ تم ہنر مند ہو۔ یہ چیز تمہیں دیگر سے بہتر بناتی ہے۔ لاکھوں میں ایک ہونے کو ہنر مندی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔ اگر تم کوئی مینڈکی ہوتے یا کوئی مکھی، پھر بھی تم قابل عزت تھے، اسلئے کے ہنر بہر حال غالب ہوتا ہے۔
تمہارے اندر فقط ایک خامی ہے۔ اور یہی تمہاری تمام پریشانیوں کی بنیاد ہے۔ وہ تمہارا کم تہذیب یافتہ ہونا ہے۔ مجھے معاف کرنا، برائے مہربانی، سچائی کو ہی غلبہ ہے۔ تم نہیں دیکھتے کہ زندگی کی اپنی شرائط ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان خود کو مطمئن محسوس کرنے کیلئے، حتیٰ کہ گھر میں بھی ایک شخص کو کسی حد تک تہذیب یافتہ ہونا چاہیے۔ ہنر تمہیں وہاں لے آیا ہے جہاں تمہیں ہونا چاہیے۔ تم خود اس سے کنارہ کشی پہ آمادہ نظر آتے ہو۔ تم تہذیب یافتہ اور اجڈ کے مابین لڑکھڑا رہے ہو۔
میرے خیال میں تہذیب یافتہ اشخاص کا ان شرائط پہ پورا اترنا شرط ہے۔
11۔ وہ انسانی شخصیت کا احترام کرتے ہیں اور ہمیشہ نرم دل، شائستہ اور دوسروں سے بھلائی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ وہ ہتھوڑا یا کنگھی جیسی چیز کے گم ہونے پر نہیں چلاتے۔ اگر وہ کسی کے ساتھ رہتے ہیں تو احسان نہیں جتاتے، نہ بچھڑنے پر یہ کہتے ہیں کہ تمہارے ساتھ رہنا ہی کون چاہتا ہے۔ وہ شور، ٹھنڈا، گرم یا مذاق بھول جاتے ہیں اور مہمان کے گھر آنے پر ناک نہیں سکیڑتے۔
22۔ ان کے جذبات محض بھکاری یا بلی کے لئے نہیں جاگتے بلکہ وہ اس شے کے لئے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں جنہیں آنکھیں نہیں دیکھ سکتی۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کا کونسا دوست یونیورسٹی کی فیس ادا نہیں کر سکا، اور اس کی ماں کے لئے کپڑے بھی خریدتے ہیں۔
3۔ وہ دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے ہیں اور انکے واجب الادا، ادا کرتے ہیں۔
44۔ وہ آگ کی مانند مخلص ہیں، جذباتی، وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ جھوٹ سننے والے کے لئے توہین آمیز ہے۔ اور اسے بولنے والے کے آگے چھوٹا کر دیتا ہے۔ وہ دکھاوا نہیں کرتے اور گلیوں میں ان کا برتاؤ گھر کی طرح کا ہوتا ہے۔ وہ مخلص دوستوں کے سامنے بڑ نہیں ہانکتے، بک بک سے پرہیز کرتے ہیں اور دوسروں کے احترام میں بولنے سے زیادہ سننے کو فوقیت دیتے ہیں۔
55۔ وہ ہمدردی سمیٹنے کے لئے خود کی ہتک نہیں کرتے۔ وہ جذبات سے نہیں کھیلتے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ مجھے غلط سمجھا گیا یا ثانویت دی گئی۔ کیونکہ یہ سب نچلے درجے کا ہے۔ گھٹیا، واہیات، لغو۔
66۔ ان کے اندر سطحی سا بھی غرور نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی ایسے نقلی جوہرات کی قدر کہ فلاں میرا دوست ہے یا آرٹ شو میں کسی سے ہاتھ ملانے کی بڑ۔ اگر وہ ٹکے برابر کام کریں تو سو کا نہیں جتلاتے اور نہ اس جگہ داخل ہونے پر اتراتے ہیں جہاں دوسروں کا داخلہ بند ہو۔ وہ ہجوم میں ذاتی شناخت کو پنہاں رکھتے ہیں اور مشہوری نہیں کرواتے۔ جیسے کرلوف نے کہا تھا “تھوتھا چنا باجے گھنا۔”
77۔ وہ اپنے ہنر کی قدر کرتے ہیں اور اسے شراب یا شباب کے عوض نہیں بیچتے۔ انہیں اپنے ہنر پر فخر ہوتا ہے خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو۔
88۔ وہ اپنے جمالیاتی محسوسات کو پختہ کرتے ہیں۔ وہ لباسوں سمیت سونے نہیں جاتے، نہ دراڑیں دیکھتے ہیں، گندی ہوا میں سانس لیتے اور نہ ہی تھوکے فرش پہ چلتے ہیں۔ وہ جنسیاتی حس پہ قابو پانے کی سعی میں مشغول عورت کو ہم بستر نہیں ہم سفر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے کی بابت کچھ دریافت نہیں کرتے۔ وہ بطور ایک فنکار تازگی، انسانیت اور خوش پوشی کی بات کرنا پسند کرتے ہیں، اور ان کی زندگی اس کا عملی نمونہ ہوتی ہے۔ وہ شراب نہیں پیتے اور الماریوں میں نہیں چھپتے۔ وہ جانتے ہیں وہ انسان ہیں، سؤر نہیں۔ وہ صحت مند جسم و ذہن کی چاہ رکھتے ہیں۔”
مزید لکھتے ہیں کہ “تہذیب یافتہ ہونے کے لئے “پک واک پیپر” پڑھنا اور “فاؤسٹ” کا ابتدائیہ یاد کرنا ہی کافی نہیں۔
سب سے ضروری چیز مسلسل پڑھنا اور کام کرنا ہے۔ دن، رات لگاتار۔ ایک ایک گھنٹہ قیمتی ہے۔ ہمارے پاس آؤ۔ ووڈکا کو چھوڑو، نیچے لیٹو اور ترگنیف کو پڑھو،اگر چاہو تو، جسے تم نے نہیں پڑھا۔
یہ بچپنا چھوڑ دو، تم بچے نہیں رہے، عنقریب تم تیس کے ہو جاؤ گے۔
یہی وقت ہے۔
مجھے تم پہ اعتبار ہے۔
ہم سب تم پہ اعتبار کرتے ہیں۔
جنید عاصم
“