اگر آپ کو بتایا جائے کہ ہم سب مل جل کر کام کر رہے ہیں کہ اپنا ایک ایسا دشمن جرثومہ تیار کرنے کے لئے جس پر ہمارا کوئی ہتھیار کارگر نہ ہو اور وہ کروڑوں زندگیوں کا خاتمہ آسانی سے کر سکے تو شاید عجیب لگے مگر یہ غلط نہیں۔ ہم مختلف جگہوں پر ایسا سپربیکٹیریا تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ پچھلے ماہ اقوامِ متحدہ نے اس سے آگاہی کا ہفتہ منایا۔ یہ بحران خود کیا ہے۔ ایک نظر کچھ گہرائی میں۔
بیکٹیریا زمین کے پرانے باسی ہیں۔ یہ سب سے چھوٹی چیز ہیں جسے ہم زندہ تصور کرتے ہیں۔ یہ اس دنیا میں ہر جگہ پر ہیں اور شاید زمین پر اصل حکومت انہی کی ہے۔ اربوں سال میں یہ ہر قسم کے مشکل حالات میں بھی اپنی زندگی آگے بڑھانے کے طریقے سیکھ چکے ہیں اور ہر قسم کی دوسری زندگی پر بھی ان کا کنٹرول ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نقصان پہنچانے والے نہیں اور یہ ہماری زندہ رہنے میں ہماری مدد بھی کرتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ہمیں مار سکتے ہیں۔ ان کی انفیکشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ پھر ان کی ہم سے جاری پرانی جنگ میں ہم نے ایک ہتھیار تیار کر لیا۔ اینٹی بائیوٹک۔ ویکسین اور اینٹی بائیوٹک کی آمد سے ان سے ہونے والی ہماری جنگ میں یہ توازن بدل گیا۔ ان نئے ہتھیاروں سے لاکھوں زندگیاں بچنے لگیں۔ اینٹی بائیوٹک بڑی جلدی ان کی بڑی تعداد ختم کر دیتی ہیں اور جو بچ جاتے ہیں، ان کو ہماری مدافعتی نظام ختم کر دیتا ہے۔
اینٹی بائیوٹکس یہ کرتی کیسے ہیں؟ یہ خود کئی طرح کی ہیں۔ بیکٹیریا خود پیچیدہ مشین ہے جس میں ہزاروں نظام چل رہے ہیں جو اسے زندہ اور متحرک رکھتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹک ان میں سے کسی میں خلل ڈال دیتی ہیں۔ مثلا، ان کے میٹابولزم کو سست رفتار کر دینا ایک طریقہ ہے جس سے ان کا حملہ ناکام بنایا جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے مالیکیول ان کے ڈی این اے سے چپک کر ان کے تقسیم ہونے کا نظام ختم کر دیتے ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان کی بیرونی دیوار ختم کر دی جاتی ہے جس سے ان کا اندرونی حصہ باہر نکل کر ختم ہو جاتا۔ ان کو ختم کرنے کے لئے پھر ہمارے مدافعتی نظام کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ضرررساں جراثیم کی ہلاکت ہماری زندگی ہے، لیکن ان کے پاس بھی ایک بہت طاقتور ہتھیار ہے۔ ارتقا۔
جسم پر حملہ کرنے والے اربوں بیکٹیریا تو ادویات سے ختم ہو جاتے ہیں لیکن ارتقائی تبدیلیوں میں ان کی ایسی قلیل تعداد بچ جانے کا امکان پھر بھی رہتا ہے جس کے آگے ہمارے طاقتور ہتھیار غیر موؑثر ہوں۔ ہمارے ہتھیاروں سے بچاؤ کے ان کے اپنے طریقے ہیں۔ ہمارے مالیکیولز کو پہلے سے روکنے کے یا پھر ایسے بیکٹیریا جو اپنی توانائی سے ایسے پمپ بنا رہے ہیں جن سے اینٹی بائیوٹک ان کے جسم میں داخل ہوتے ساتھ ہی انہیں نقصان پہنچائے بغیر تیزی سے نکل جاتی ہیں۔ اگر ان کی آبادی کا کچھ حصہ ایسا ارتقا کر جائے تو بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے یہ ہمارے دفاعی نظام کے مائیکروفیج کے آگے تر نوالہ ہیں۔ لیکن اگر ان میں سے کچھ بھی فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں تو اب یہ بڑا مسئلہ ہے۔ فرار ہونے والے اب وہ ہیں جن کے خلاف ہمارا ہتھیار اثر نہیں رکھتا۔
یہ اس مدافعت کو آبادی میں کیسے پھیلاتا ہے؟ بیکٹیریا کے اپنے اندر دو قسم کا ڈی این اے ہے، ایک کروموزوم اور دوسرا پلازمڈ۔ یہ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں تو پلازمڈ کا تبادلہ کر لیتے ہیں۔ اس تبادلے سے یہ دفاعی صلاحیت آبادی میں پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ان کا ایک اور عمل ہے جسے ہارویسٹیشن کہتے ہیں۔ ایک بیکٹیریا مردہ بیکٹیریا سے توانائی لے سکتا ہے اور اس سے ڈی این اے بھی اکٹھا کرتا ہے اور ایسا یہ اپنی انواع کے علاوہ دوسرے بیکٹیریا سے بھی کر سکتا ہے۔ اس عمل سے ایسا بیکٹیریا بن سکتا ہے جو کئی طرح کی اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت رکھتا ہو۔ اس قسم کے سپربگ دنیا میں پائے جاتے ہیں، خاص طور پر ہسپتال اس عمل کے لئے اچھی جگہ ہیں۔
ہم ماضی جلد بھول جاتے ہیں اس لئے اینٹی بائیوٹک سے پہلے کی دنیا میں ان کی پھیلائی گئی تباہ کاریوں کی یادیں ہمارے ذہن سے محو ہو چکی ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس کی آمد سے قبل ایک تہائی اموات انہی کے ہاتھوں ہوا کرتی تھی۔ عام زخموں کی انفیکشن ہمیں مار دیا کرتی تھی۔ آج ہم ادویات کا ہونا عام چیز سمجھ لیتے ہیں لیکن سو سال قبل کی دنیا ایسی نہیں تھی۔ بجائے اس کے کہ آخری حربے کے طور پر ان ادویات سے مدد لی جائے، کسی بھی معولی مسئلے میں ان کا بغیر سوچے سمجھے ضرورت سے کہیں زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ کہ جن جانوروں کو گوشت کے لئے پالا جاتا ہے، اس میں بھی ان کا استعمال بے دریغ ہوتا ہے۔ ایک وقت میں بیس سے تیس ارب مرغیاں، بکرے، گائیں وغیرہ دنیا میں گوشت کے لئے پالتے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے کے لئے اینٹی بائیوٹک انجیکشن لگائے جاتے ہیں۔ اس پورے عمل میں بھی ان کی مدافعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی وجہ سے بعض اوقات کئی قسم کی اینٹی بائیوٹک کا استعمال اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس ایک اور خفیہ ہتھیار بھی ہے اور وہ ہے سپر اینٹی بائیوٹکس۔ یہ سپربگز کے لئے بہت خطرناک ہے اور سپراینٹی بائیوٹکس کو مریضوں کو دینے کے لئے کڑے رولز ہیں تا کہ یہ صرف آخری ہتھیار کے طور پر استعمال ہو اور ایسا سپربگ نہ بنے جو ان کے خلاف مدافعت رکھتا ہو۔
لیکن 2015 کے آخر چین سے ایک بری خبر آئی اور وہ یہ کولسٹین (جو کہ صرف آخری مرحلے کی دوا ہے) کے خلاف مدافعت رکھنے والا بیکٹیریا دریافت ہوا ہے۔ یہ دوا ہمارے جگر کے لئے بہت نقصان دہ ہے اس لئے اس کا استعمال بہت کم کیا جاتا تھا اس لئے اس کے خلاف ریززٹنس رکھنے والا بیکٹیریا نہیں تھا اور اسے صرف پیچیدہ کیسز میں دیا جاتا تھا۔ یہ کیسے ہو گیا؟ اس کی وجہ یہ کہ جانوروں کو مرنے سے بچانے کے لئے کولسٹن ان کی خوراک میں شامل کی جاتی تھی جہاں سے یہ انسانوں میں پہنچ گئی۔ دنیا میں روزانہ ایک لاکھ پروازیں چلتی ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں میں رہنے والے انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔ یہ انفراسٹرکچر ان بیکٹیریا کو پھر آگے دنیا میں پھیلنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔ یہ بیکٹیریا اب تیس ممالک میں دیکھا جا چکا ہے۔
کیا گھبراہٹ کا وقت ہے یا ہماری شکست کا؟ نہیں، ابھی نہیں۔ بیکٹیریا کے پاس اگر ارتقا کا ہتھیار ہے تو ہمارے پاس سائنسی ریسرچ کا۔ دنیا میں سائنسی تحقیق کے میدانوں میں یہ جنگ جاری ہے۔ پرانی اینٹی بائیوٹکس کے موؑثر نہ رہنے پر نئی دوائیوں پر تحقیق ہو رہی ہے۔ علاج کے نئے اور اچھوتے طریقے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے۔ اگرچہ کہ یہ مسئلہ اصل ہے اور سنجیدہ بھی لیکن دنیا بھر میں ہمارے بہترین دماغ اس جنگ میں مصروفِ عمل ہیں۔
یہ یاد رکھئے کہ کسی بیکٹیریا کے خلاف کسی دوا کا ہونا یا کسی خطرناک بیماری کے خلاف ویکسین بن جانا ایسا نہ ہونے کی نسبت زیادہ حیرت انگیز ہے اور ہماری بڑی کامیابی ہے۔ ہر دوا اور ویکسین کے پیچھے بہت سے لوگوں کی برسوں کی محنت اور بہت سے ناکامیاں چھپی ہوتی ہیں۔ یہ جنگ دنیا میں ہم سب کی ہے۔ اس کے اگلے مورچوں (یعنی میڈیکل ریسرچ کی تجربہ گاہوں) میں ہم اپنا حصہ بائیولوجی کو ٹھیک سمجھ کر ڈال سکتے ہیں لیکن جو اگلے مورچوں پر نہیں، ان کا کردار بھی بہت زیادہ اہم ہے۔ اس جنگ میں انفرادی حصہ ڈالنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیۓ، وہ ساتھ منسلک تصویر میں دیکھ لیجئے۔
اس پر عام فہم اور ہر طرح کی بہت اچھی معلومات، ہمارے کرنے کے کام، ویڈیوز اور دوسرے ریسورسز کے لئے
کولسٹین کے خلاف مدافعت پر تکنیکی آرٹیکل
اس موضوع پر اقوامِ متحدہ پر بلائے جانے والے اجلاس کے بارے میں