بشریاتAnthropology یا علم الانسان وہ علم ہے جس سے کسی علاقہ ، ملک کی کسی خاص قوم کا مطالعہ کیا جاتا کہ یہ لوگ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہاں سے آئے ہیں ۔ ان کو جانچنے کے لیے کچھ امور کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ محض ان کے دعوں اور شجرہ ناموں سے بھروسہ نہیں کیا جاتا ہے ۔
شجرہ نسب ۔ کسی قوم کے شجرہ نسب سے بھی مدد ملتی ہے اور اس میں ملنے والے نام اس سلسلے میں بہت مدد دیتے ۔ مثلاً کلہوڑوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عباسی ہیں اور ان کے کئی شجرہ نسب ملتے ہیں ۔ ہر شجرہ میں کچھ نام عربی ہیں اس کے بعد اس ان میں مقامی نام آجاتے ہیں جو کہ مسلسل آتے ہیں ۔ اس سے اس بات کی نشادہی ہوتی ہے کہ یہ وضح کیا ہوا ہے اور عربی ناموں کا اضافہ بعد میں کیا گیا ہے ۔
نام ۔ بعض اوقات نام سے ان کی نسل کی نشادہی ہوتی ہے ۔ مثلاً چیچ نامہ کی روایت کے مطابق یہ عربوں کے حملے کے وقت سندھ پر برہمن خاندان حکومت کر رہا تھا ۔ حالانکہ کسی مقامی ماخذ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے راجپوت داس وغیرہ جیسے نام نہیں رکھتے ہیں اور ان کے ناموں کی خصوصیت ہے کہ یہ اپنے نام راجپوت قبائل کے ناموں پر رکھتے ہیں ۔ اس لیے چچ یا داہر یا چندر جسیے نام جو ان میں ملتے ہیں اس بات کی نشادہی ہوتی ہے کہ یہ برہمن ہر گز نہیں تھے ۔ اس طرح کلہوڑا یا ٹالپور جسے ناموں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کے یہ جاٹ نسل ہیں ۔ کیوں کہ جاٹوں کی خصوصیت ہے وہ اپنے نام مختلف اشیائ پر رکھتے ہیں اور یہ نام جو کلہاڑے اور ٹال یعنی لکڑی پر رکھے گئے ہیں ۔ ان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جاٹ النسل ہیں ۔
ذات ۔ ذات کا نام اہم نہیں ہے ۔ کیوں کہ ذات بدلی بھی جاسکتی ہے ۔ مثلاً ہمارے ملک میں بہت سی ذاتیں ایسی ہیں جن کے سو سال پہلے کچھ اور تھے اب ان کے کچھ اور ہیں ۔
شکل و صورت ۔ اس لیے ذات سے ذیادہ شکل و صورت اہم ہے ۔ جن میں آریا ، منگول اور حبشی ہیں جو ہمارے علاقہ میں ملتی ہیں ۔ گو ان میں ملاوٹ ہوچکی ہے ۔ ان میں سب اہم آریا ہیں جو کہ اکثر لوگوں میں ملتی ہیں ۔ ان کی ناک کھڑی ، رخسار کی ہڈیاں ابھری ہوئی ، آنکھیں بڑی اور چمدار اور بال ہلکے سے کرب ۔ دوسری وہ ہے ہزارہ قبائل گلگت و اسکردو کی طرف نظر آتی ہے ، یعنی بال سیدھے ، رنگ زردی مائل ، آنکھیں چھوٹی اور گہری ۔ تیسری ھبشی صورت جو کہ خالص حالت میں ہمارے یہاں صرف شیدیوں میں ملتی ہے ۔ ان کے ہونٹ موٹے ، ناک پھیلی ہوئی ، مونچھ ڈاھاریاں کم اور بال گھنگریالے ہوتے ہیں ۔ جس طرح پنجاب کی بہت سی قوموں کا دعویٰ ہے کہ وہ عربی نسل ہیں ۔ لیکن ان کی شکل و صورت دوسرے مقامی باشدوں جیسی ہے ۔ اس کا مطب ہے ان کا دعویٰ باطل ہے ۔ اگرچہ اب کوئی نسل خالص نہیں رہی ہے اور ان میں میل ہوچکا ہے ۔
دوم زبان ۔ کسی قوم یا علاقہ کی زبان میں تغیر آجاتا ہے اور الفاظ بدل جاے ہیں ۔ لیکن بعض اشیائ کے نام بہت اہم ہیں ۔ ان میں اعداد ، اعضائ کے نام مثلاً ہاتھ ، پاؤں ، ناک وغیرہ ۔ قریبی رشتہ داروں ، سورج ، چاند ، آگ ، پانی اور ضمیریں وغیرہ شامل ہیں ۔ ان الفاظوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تعلق کسی قوم سے ہے ۔ اس طرح بعض آوازیں ایسی ہوتی ہیں کہ بعض قوم کے افراد ادا نہیں کرسکتے ہیں ۔ مثلاً بلوچوں کا کہنا ہے کہ وہ عربی نسل ہیں ۔ مگر ان کی خاص آوازیں دندانہ دار وہ عربوں میں نہیں ہیں اور اس طرح خالص عربی آوازیں بلوچوں میں نہیں ہیں ۔
رسوم و رواج ۔ کسی قوم کو پرکھنے کے لیے ان کے رواج اور رسومات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ وہ کن قوموں سے ملتے ہیں ۔ مثلاً پٹھانوں کا دعویٰ ہے کہ وہ یہود نسل ہیں ۔ لیکن ان کی رسم و رواج برصغیر کی قوموں سے ملتے ہیں ۔ اس طرح ان کا دعویٰ باطل ہوجاتا ہے ۔
روایات ۔ یہ بھی اہم نہیں ہے کیوں کہ کوئی قوم جب اپنا نسب بدلتی ہے تو اپنے دعووں کے مطابق روایات گھڑلیتی ہے ۔ ہم ان روایات کو دوسرے ماخذ سے پرکھتے ہیں ۔ اس طرح جو روایت ملتی ہیں اس میں تصاد کتنا ہے اور وہ تاریخ سے ماخذ ہیں کہ نہیں ۔ اس طریقہ سے ہم اس قوم کی حقیقت تک پہنچتے ہیں ۔ بے حال روایات سے بھی مدد ملتی ہے ۔
تاریخی ماخذ ۔ کسی بھی قوم کا جائزہ لینے کے لیے ان کے تاریخی ماخذ کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ ان کی اصلیت کیا ہے ۔ مثلاً سومرا قوم جس نے سندھ پر حکومت کی اس قوم کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ عرب نسل ہیں ۔ لیکن تاریخی ماخذ بتاتے ہیں کہ ان کے ابتدائی فرمان رواؤں کے نام ہندوانہ تھے گو یہ مسلمان ہوچکے تھے مگر ان میں ہندوانہ نام باقی تھے ۔ اس طرح ان کا نام راجپوتوں کی چھتیس راج میں شامل ہے ۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عرب نژاد ہونے دعویٰ غلط ہے ۔
بالا الذکر کچھ نکات ہیں جن کی مدد سے کسی قوم یا ذات کی نسلی اصلیت تک پہنچا جاسکتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔