یہ ٦١٩ کا زمانہ تھا، ایک انوکھا سفر ہورہاتھا، سفر کرنے والے دو مسافر تھے سفر بہت طویل تھا منزل ان کی بستی سے ساتھ میل دور تھی سواری کا انتظام نہیں تھا پیدل ہی چل دئیے راستہ میں مختلف قبائل کے ہاں قیام ہوتا تقریباً دس دنوں میں دونوں مسافر اپنی منزل کو پہنچنے، یہ دونوں مسافر کوئی اور نہیں بلکہ ان میں سے ایک تاجدار مدینہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے ان کے جانثار حضرت زید بن حارثہ تھے،
یہ سفر جس بستی کی اور ہوا وہ بستی بڑی سرسبز و شاداب تھی لہلاتی کھیتیاں میٹھے چشمہ کا پانی ہرے بھرے گھاس اور تمام تر رعنائیوں کا مجموعہ تھی دنیا اس بستی کو طائف کے نام سے جانتی ہے، یہ سفر سیر و تفریح کیلئے نہیں بلکہ خدا کا دین اور اس کے پیغام پہنچانے کیلئے ہوا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے مشہور قبیلہ بنو ثقیف کے تین سردار بھائیوں کے پاس تشریف لے گئے اور اپنی بات پیش کی تو ان میں سے ایک نے کہا۔ جو سب سے بڑا تھا،
اگر خدا نے تجھے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے گھر کو بے عزت کرانا چاہتا ہے،
دوسرے بھائی۔ مسعود نے کہا۔ کیا اللہ کو تجھ سے بہتر شخص نہیں ملا؟
تیسرے نے کہا۔ جس کا نام حبیب تھا۔ اگر میں آپ کی بات سنوں اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو آپ کی بات سننا بے ادبی ہے اور اگر آپ چھوٹے ہیں تو میں جھوٹوں کی بات نہیں سنتا،
یہ جواب نہیں بلکہ زہر میں بجھے تیر تھے جس تیر کو انہوں نے ایک ایسی ہستی کے سینہ میں پیوست کردی جس سے بہتر دنیا میں کوئی انسان نہیں ہے،
دس دن کا پیدل سفر کرنے کے بعد جب اس طرح کا رویہ سامنے آیا تو یقیناً آپ کا کلیجہ پھٹ گیا ہوگا، جگر تھرا گیا ہوگا، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہوگا اور آپ پر کیا بیتی ہوگی اس کا تصور کرنا ممکن نہیں ہے، اور پھر یہیں پر بس نہیں ہوا بلکہ جب آپ بستی سے باہر آنے لگے تو آپ کے پیچھے اوباش اور گنڈے قسم کے لڑکوں کو لگادیا گیا وہ بد قماش آپ کے ساتھ الٹے سیدھے مزاق کرتے بازار میں ایک شور مچاہوا تھا، لوگ یہ منظر دیکھنے کیلئے اکٹھا ہورہے تھے اور ان بدقماش اور بد تہذیب قسم کے لڑکوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے جب چاروں طرف سے ان کو حوصلہ ملا تو وہ گنڈے اب گالی گلوج پر اتر آئے اور آپ پر گالیوں کی بوچھار کرنے لگے سرور کونین اپنے ایک جانثار کے ساتھ مجمع کے بیچو بیچ چل رہے تھے آخر کار وہ لڑکے آپ کو مارنے پر تل گئے، پھر کیا پتھروں کی بارش شروع ہوجاتی ہے چاروں طرف سے پتھروں کی بارش ہورہی ہے آپ کا جسم اطہر پتھروں کی مار سے چھلنی ہوا جارہا ہے آپ درد سے کراہتے ہوئے زمین پر بیٹھ جاتے ہیں آپ کے جانثار حضرت زید بن حارثہ آپ کو بازو پکڑ کر اٹھاتے ہیں جب آپ چلنے لگتے تو بد قماش آپ کے پیروں کو نشانہ بناتے، آپ کے بدن سے خون رس رس کر جوتیوں میں گررہا ہے آپ خون سے لت پت ہیں جوتیاں خون سے بھر گئی ہیں۔ پاؤں مبارک جواب دے گیا ہے آپ چلنے کے قابل نہیں ہیں حضرت زید بن حارثہ جو آپ پر پروانہ وار فدا ہورہے تھے وہ چاہتے تھے کہ آپ پر پڑنے والا ہر پتھر مجھ کو لگے۔ کسی طرح آپ کو کندھے پر اٹھا کر بستی سے باہر لاتے ہیں اور ایک باغ میں قیام کرتے ہیں جو کہ مکہ ہی کے ایک شخص ربیعہ کے بیٹوں کا باغ تھا ، ربیعہ کے بیٹوں نے جب آپ کو اس حالت میں دیکھا تو انہیں ترس آگیا اور اپنے ایک غلام سے کہا۔ کہ ۔ انگور کا ایک خوشہ ایک پلیٹ میں رکھ کر اس شخص کو دے آؤ، چنانچہ وہ خادم حکم کی تعمیل کرتا ہے اور انگور آپ کو پیش کرتا ہے آپ کھانا شروع کرتے ہیں تو۔ بسم اللہ۔ پڑھتے ہیں، وہ خادم غالباً اس کا نام۔۔ عداس۔۔ تھا یہ سن کر حیران ہوجاتا ہے اور کہتا ہے یہ آپ کیا کہ رہے ہیں اس طرح کے کلمات تو یہاں کوئی نہیں کہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ عداس سے پوچھتے ہیں، تم کس بستی کے رہنے والے ہو؟
عداس۔۔ نینوا کا رہنے والا ہوں،
حضور صلی االلہ علیہ وسلم یہ سن کر فرماتے۔۔ نینوا۔۔ جہا کے یونس بن متی۔ رہنے والے تھے،
عداس۔ چونک جاتا ہے۔ اور کہتا ہے ۔ آپ یونس کے بارے میں کیسے جانتے ہیں؟
آپ نے جواب دیا۔ وہ میرے بھائی تھے وہ بھی اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں،
یہ سن کر عداس کو یقین ہو چلا کہ واقعی آپ سچے نبی ہیں،۔ جب اس کے مالک نے دیکھا کہ عداس کا چہرہ بدلا ہوا ہے اور آپ کی باتوں سے متاثر ہورہا ہے تو فوراً آواز دی،،۔۔۔۔۔ ادھر آؤ۔۔ وہاں کیا کررہے ہو؟؟
جب عداس پہنچا تو اس کے مالک نے کہا۔۔ تم نے اپنا دین ہی برباد کر لی، عداس بہت چاہتا تھا کہ آپ سے ملے لیکن اس کے مالک نے اس کو کام میں لگا دیا،
ادھر حضرت زید بن حارثہ جو آپ کا زخم دیکھ کر دل برداشتہ ہو چکے تھے عرض کیا حضور آپ ان کیلئے بددعا کیوں نہیں کردیتے ؟
آپ نے جواب دیا ۔ میرے جانثار ۔۔۔ میں رحمت بن کر آیا ہوں زحمت بن کر نہیں، ۔۔۔۔
جب آپ جانے لگے تو آپ نے سجدہ میں سر رکھ کر خدا سے یہ عرض کی!!! اے رب۔۔ میں اپنی کمزوری اور بے سروسامانی کا تجھ سے شکایت کرتا ہوں۔ اے رب۔۔ تو مجھے کس کے حوالہ کرتا ہے؟ کیا کسی ایسے دشمن کے جو مجھ پر حملہ آور ہو جائے۔۔ اے رب۔۔ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں تمام تر مصیبتیں میرے لئے ہیچ ہیں، بس توہی میرا معاون و مددگار ہے، رستہ میں جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا حضور بس آپ حکم فرما دیں ان طائف والو کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں مگر آپ نے فرمایا کہ ۔۔ نہیں۔ یہ نہیں تو کبھی ان کی نسلوں میں دین ضرور داخل ہوگا،۔آخر کار تاریخ نے دیکھا کہ اس واقعہ کے ٹھیک چودہ مہینہ کے بعد جب بنو ثقیف کا قبیلہ مدینہ آیا تو دیکھا کہ جس کو ہم اپنی بستی سے دکھے دیکر نکال دئیے تھے ان ہی کا آج سارا عرب غلام ہے۔ بلاآخر بنو ثقیف نے بھی اسلام قبول کیا ، یہ آپ کی نبی برحق ہونے کی کھلی دلیل ہے،