اینی Annie Besant لندن میں 1847 میں ایک مڈل کلاس گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اس کا باپ لاادری (خدا ہے یا نہیں، پتا نہیں) تھا۔ پانچ سال کی تھی، کہ وہ فوت ہوگیا۔ بچپن میں اسے مذہبی تعلیم سے بھرا گیا تھا۔ اس کی سوانح عمری سے پتا چلتا ہے کہ اینی کی تعلیم و تربیت مذہبی گھرانے کی بچیوں کی طرح کی گئی۔ جنہیں صرف مذہبی قصے کہانیاں ہی سنائی گئی ہوتی ہیں۔ اینی کی 20 سال کی عمرمیں ایک پادری سے شادی ہوجاتی ہے۔چونکہ اینی مذہب مخالف ملحدانہ رحجان کی حامل خاتون تھی۔ لہذا وہ شادی چل نہ سکی۔ چنانچہ دونوں کی قانونی علحیدگی ہوجاتی ہے۔شادی شدہ عورت کوحق نہیں تھا، کسی ملکیت کا، چنانچہ وہ جوکماتی، اس کا خاوند اس سے لے لیتا۔ اینی کی طلاق کے بعد چارلس نامی ایک شخص سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ غریب اوربے سہارا لوگوں کی امداد کے لئے کمپین چلاتا تھا۔ اس کی بھی پہلی شادی ناکام ہوئی تھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگے، لیکن شادی نہ کی۔ جس کی وجہ سے اینی کومعاشرے سے تہمتیں بھی سہنی پڑی۔ اینی زبردست مقررتھی، کئی بار مجمع سے مخالفانہ ردعمل کوبھی سہنا پڑا۔ ایک دفعہ تو کسی نے اس کو پتھر کا ٹکڑا دے مارا، جواس کے ماتھے پرآ کرلگا۔ اینی سوشلسٹ خیالات کی حامل اوراپنی سرشت میں عقیدہ/رسوم شکن تھی۔ خواتین کے حقوق کے لئے سرگرمی سے آواز اٹھائی، اینی کا نام دنیا کی بڑی فری تھنکرایکٹیوسٹ خواتین میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی تحریروں اورتقریروں سے (عیسائی) مذہب پرسخت تنقید کی۔۔ یہ نیشنل سیکولرسوسائٹی کی سرگرم رکن رہی۔ نیشنل ریفارمر نامی ایک پرچے کی ایڈیڑ کے طورپرکام کیا۔ اینی اوراس کے دوست چارلس نے برتھ کنڑول کی حمائت میں ایک کتاب شائع کی، جس پر فحاشی کے خلاف قوانین کے تحت گرفتار ہوئے ان پرمقدمہ چلا۔لیکن مشکل سے جیل جانے میں بچت ہوئی۔ لیکن اینی کی اسی تحریک کا نتیجہ تھا، جس کی وجہ سے بعد ازاں دنیا بھرمیں برتھ کنٹرول کے تصورکوتسلیم کیا گیا۔ اوراسے مزید شہرت ملی۔ اینی نے ہندوستان میں بھی تعلیمی فکری کام کیا، اس نے 1898 میں سینڑل ہندو کالج کی بنیاد رکھی۔ پھراس نے حیدرآباد (سندھ) کالجیٹ بورڈ بنوایا۔ اسے انڈیا کی سیاست میں بھی دلچسپی ہوگئی۔ اورانڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوگئی۔ یہ ہندوستان کو خود مختاری کی حامی تھی۔ جب پہلی جنگ عظیم چھڑی، تو اینی نے انڈیا میں ہوم رول لیگ کے نام سے جمہوریت کے لئے تحریک کا آغاز کیا۔ اوربرطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ہندوستان کو ڈومینین کا درجہ دیا جائے۔اگراس وقت ہندوستانی سیاست دان اوربرطانیہ اس کی بات پرتوجہ کرتے، توشائد ہندوستان بہت پہلے آزاد ہوجاتا، اوربعد کی تقسیم ہند کی مشکلات سے بھی بچ جاتا۔ جنگ کے بعد بھی اینی انڈیا کی آزادی کی جدوجہد میں شامل رہی۔۔اسی وجہ سے نہرو نے اس کی موت پر اسے مدر آف انڈیا کا خطاب دیا۔ اینی کو مذہب سے خصوصی دلچسپی تھی۔ یہ برطانیہ کی تھیوسوفیکل سوسائٹی کی صدربھی رہی ہے۔ ملحد خیالات سے صوفیانہ اور معرفت کی طرف منتقلی سے اس کے ساتھیوں کو صدمہ بھی ہوا۔ لیکن اینی اسے بھی ریشنل فکرکا نام ہی دیتی تھی۔ 1878 میں لندن یونیورسٹی نے جب پہلی بارخواتین کوداخلے کی اجازت دی، تو اینی نے داخلہ لے لیا۔ یہ لندن اسکول بورڈ کی پہلی خاتون ممبرتھی۔ اس طرح وہ انگلینڈ اورہندوستان میں تعلیمی اورجمہوری جدوجہد کا حصہ بن گئی۔ اسے سچ کی جستجوکا جنون رہا۔ وہ ایک ریفارمر تھی،مزدوروں کے بہترحالات کے لئے مزدوریونینز بنوائی۔ خواتین کی کالچوں یونیورسٹیوں کی داخلے، اسکولوں میں مفت کھانا دینے، فیملی پلاننگ کومقبول عام کرنے کے لئے کام کیا۔ اس کے سینکڑوں لکھے مضامین ہیں۔ 'میں کرسچن مذہب کوکیوں نہیں مانتی'، اخلاقیات کی سچی بنیادیں' دنیا بغیرخدا کے، زندگی، موت اورابدیت، میرا دہریت کی طرف رستہ،خدا کے شادی کے بارے خیالات، ہندوستان میں مزہب کےمسائل اور Gospel of Atheism.
1933 میں 85 سال کی عمرمیں ہندوستان مدراس میں فوت ہوئی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“