یہ 1947ء کی بات ہے کہ جب ایک پندرہ سالہ جرمن لڑکی کی ڈائری اس کی وفات کے دوسال بعد پہلی مرتبہ پبلش ہوئی تھی۔
این فرانک کو ورلڈ وار ٹو مسل رہی تھی۔
ڈائری اس کے اپنے جذبات کا سچا، کھرا اظہار تھا، ورلڈ وار ٹو کے دوران ہونے والے مظالم کے بارے میں لکھا گیا، کس طرح سے یہودیوں کے ساتھ بد سلوکی رواں رکھی جاتی ہے، کیسے ان کی زندگی کے رنگ چھین لیے گئے ہیں اور کس طرح اس کے خاندان کے افراد ایک ایک کر کے آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو رہے ہیں۔
این فرانک ان تلخیوں کو زیادہ نہ سہہ پائی اور دنیا سے رخصت ہوگئی، اس کے بعد باپ نے اس کی ڈائری The Diary of a Young Girl کے نام سے پبلش کر دی۔
آپ جب ڈائری پڑھتے ہیں تو اس قدر جاندار اظہار کہ حیرانی تو ہوتی ہے لیکن غور کرنے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک کھِلتی عمر کے نئے سوالات ہی تو ہیں جس میں حالات کی آندھیوں کا تجربہ بھی ہے اور زندگی کے نا گفتہ احساسات کا مشاہدہ بھی۔۔۔ اس بات پر یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ جب جبر بڑھتا ہے تو بے کسی کے ہولناک تھپیڑوں سے معصوم ذہن بھی بزرگ خیالات کی پرورش کرنے لگتے ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب لوگ آج بھی سوات پر طاری خوف کی فضاء میں رہنے والی بچی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ؛
“آخر اتنی سی عمر میں ملالہ ڈائری میں اتنی پکی باتیں کیسے لکھ سکتی ہے؟”
یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خوف، جبر، قتال، جدل انسان کو بچہ نہیں رہنے دیتا۔۔۔ ایسے ماحول میں فکر کے ان گوشوں کا روشن ہونا فطری بات ہے جو صدیوں سے نابینا عقیدتوں، نسل پرستیوں، غلام پرور روایتوں کے زنگار سے بھرے رہتے ہیں۔
People can tell you to keep your mouth shut, but that doesn’t stop you from having your own opinion
Anne Frank, The Diary of a Young Girl
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔