گروہ کے سبب ارکان ایک دوسرے کے وفادار تھے۔ مفادات کی زنجیر نے اُن کے پائوں باندھے ہوئے تھے۔ مقصد سب کا ایک تھا۔ بنک کی تجوری توڑنا اور دولت آپس میں بانٹنا۔ جب مقصد پورا ہو گیا تو مفاد کی زنجیر غائب ہو گئی۔ اب انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا۔ ایک دوسرے پر الزامات لگانے لگے اور ایک دوسرے کے پول کھولنے لگ گئے۔ بات پھیل گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک کرکے سب پکڑے گئے۔
جرم و سزا کی ساری کہانیوں میں یہی ہوتا ہے۔ حقیقی زندگی میں بھی ہم آئے دن اس حقیقت کو دیکھتے ہیں، یہی کچھ اس گروہ کے ساتھ ہو رہا ہے جو نو سال متحد رہا اور پاکستان کو ہر طرح کے نقصانات پہنچاتا رہا۔ اس گروہ کا رہنما پرویز مشرف تھا۔ آج یہ گروہ ایک دوسرے سے جھگڑ رہا ہے۔ سب کے پول کھل رہے ہیں، بہت کم لوگ مسئلے کے اس پہلو پر غور کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف بڑا مجرم ہے لیکن اکیلا مجرم نہیں ہے۔ دنیا میں مجرموں کے گروہوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا آیا ہے، وہی اس گروہ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ وہ جو کہتے تھے کہ ہم پرویز مشرف کو وردی میں دس بار منتخب کرائیں گے، آج اپنے ممدوح کے مونہہ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اس مونہہ سے ہمارے خلاف اور کیا نکلے گا؟ پرویز مشرف این آر او کا الزام چوہدریوں پر لگا رہا ہے۔ امریکی سفیر طارق عزیز پر لگا رہی ہے، چوہدری پرویز مشرف پر لگا رہے ہیں۔
بزم ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
پا بدستِ دگرے، دست بدستِ دگرے!
یہی دنیا کا دستور ہے، سازشوں میں شریک مخبر بن جاتے ہیں یا گواہ یا وعدہ معاف گواہ! لیکن افسوس! عبرت کوئی نہیں پکڑتا!
پرویز مشرف میں اتنا وژن نہیں تھا کہ بلوچستان سے ہزاروں سال پرانا سرداری نظام ختم کرتا۔ ایک کوتاہ نظر انسان کی طرح اس نے اکبر بگتی کو قتل کرا دیا۔ یوں سرداری نظام کو نیا خون مل گیا۔ اکبر بگتی کا قتل سراسر ناجائز تھا۔ اس کا حساب پرویز مشرف کو دینا پڑیگا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن غور کیجئے کہ اکبر بگتی کے فرزند ارجمند اعلان کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو دینا پڑیگا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی لیکن غور کیجئے کہ اکبر بگتی کے فرزند ارجمند اعلان کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کا سر پیش کرنے والے کو ایک ارب روپے کی زمین انعام میں دی جائیگی۔ یہ اعلان اُن حضرات کو آئینہ دکھا رہا ہے جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام جیسی کوئی شے نہیں نہ رہی زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے!
کیا ہمیں، من حیث القوم، پورا سچ راس نہیں آتا؟ یا آدھا سچ ہمارے مفادات کی کھیتی کو سیراب کرتا ہے اور یوں ہم آدھے سچ کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں! ہم میں سے کتنے ہیںجو یہ پوچھنے کی جرأت کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کو فوج کا سپہ سالار کس بنیاد پر بنایا گیا تھا؟ کس نے بنایا تھا اور اس کا حساب کون دیگا؟ عدل کا بنیادی اصول ہے کہ صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے انصاف سے کام لیا جانا چاہئے۔
ہمارے ایک محترم کالم نگار دوست نے مطالبہ کیا ہے کہ نواز شریف اپنی اس زیادتی پر قوم سے معافی مانگیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قوم کو بتایا ہے کہ حق دار کو محروم کرکے جونیئر پرویز مشرف کو چیف کے عہدے پر فائز کیا گیا تو ڈاکٹر قدیر نے میاں نواز شریف کے والد گرامی کو کہا کہ ’’کس بدکردار کو آرمی چیف بنا دیا؟‘:‘ ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کے کردار کے بارے میں فوج کے ہر افسر کو معلوم تھا! تاریخ دلچسپ واقعات کا مرقع ہے۔ ان واقعات کا ایک دوسرے سے تقابل کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے! مغرب کا پڑھا ہوا، ماڈرن، اور بظاہر مذہب سے بے پرواہ ذوالفقار علی بھٹو میرٹ کا خون کرکے ایک ایسے جونیئر کو آرمی چیف بناتا ہے جو دیکھنے میں کٹر مذہبی اور صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا۔ دوسری طرف ’’دیسی‘‘ میاں نواز شریف، جو خود نماز روزے کے پابند ہیں، ایسے شخص کو سپہ سالار بناتے ہیں جس کے ’’مشاغل‘‘ اور ’’شب و روز‘‘ کے بارے میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں تھی! میاں نواز شریف، پرویز مشرف کو سپہ سالار بنانے پر قوم سے معافی مانگتے ہیںیا نہیں اور قوم کو بتاتے ہیں یا نہیں کہ کس فارمولے کی بنیاد پر انہوں نے شراب و شباب اور رقص و سرور کے اس دلدادہ کو چُنا تھا، اس کا جواب وقت ہی دے پائے گا لیکن ایک حقیقت واضح ہے اور اس قدر واضح ہے کہ اس سے چشم پوشی کرنا اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ حق دار کو محروم کرکے نااہل کو منصب پر براجمان کرنا اُن گناہوں میں شامل نظر آتا ہے جن کا خمیازہ دنیا میں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ (والدین کی نافرمانی اور اُن سے بے نیازی بھی اسی زمرے میں شامل ہے)۔ ذوالفقار علی بھٹو کو وہی شخص تختہ دار پر لٹکاتا ہے جس کو سپہ سالار بنانے کیلئے انہوں نے سینئر افسروں کو نظر انداز کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے جس نااہل کو نوازا، اس نے انہیں اقتدار سے محروم کیا، زنداں میں رکھا، جلا وطن کیا اور آج گیارہ سال بعد بھی وہ ان کیلئے پریشانی اور توہین کا باعث بنا ہوا ہے۔ چشم تصور سے دیکھئے، اگر بھٹو ضیاء الحق کو سپہ سالار نہ بناتے یا نواز شریف پرویز مشرف کے بجائے علی قلی خان کو (جو پرویز مشرف سے سینئر تھا) آرمی چیف بننے دیتے تو پاکستان کی تاریخ کتنی مختلف ہوتی!
ع … ایک نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم کر دیا!
دوسرا سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ پوشیدہ کچھ بھی نہیں رہتا۔ زمین مُردے اُگل دیتی ہے اور تاریخ تلچھٹ کو گلی میں پھینک دیتی ہے! کیا کیا راز اطلس و کمخواب کے دبیز پردوں سے باہر آنے لگتے ہیں۔ کسی نے سوا دو ارب روپے خرچ کر ڈالے اور کام پھر بھی نہ بنا۔ اللہ اللہ ! کیا زمانہ تھا! اسلام آباد میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ افسر کے گھر شام کو سواری آتی تھی! رقص و سرود میں مہارت دکھانے والے اداروں کے سربراہ بن گئے۔ پورے ملک کا آڈٹ کرنیوالے ایک صاحب ایسے تھے کہ ترقی دیتے وقت ایک یا دو نہیں، پورے چھ افسروں کا صفایا کر دیا اور سبب بھی نہ بتایا۔ اس وقت عدلیہ بھی خانہ زاد تھی۔ حالات کروٹ لیتے ہیں تو وہ کچھ ہونے لگتا ہے جس کا تصور بھی محال تھا۔ آج ترقی سے محروم کئے جانے والوں نے عدلیہ کی زنجیر ہلائی اور باون ترقیوں کے بُرج اُلٹا دیئے۔
’’ہم دنوں کو پھیرتے ہیں لوگوں کے درمیان‘‘۔ کہاں شوکت عزیز جس کا حلقۂ انتخاب ہی نہ تھا! اور مصنوعی تنفس پر زندہ تھا! کہاں یوسف رضا گیلانی جس میں کئی کمزوریاں سہی، اس کا اپنا حلقہ انتخاب تو ہے جس کے آگے اس نے کل جواب دینا ہے!
لیکن ان ساری باتوں کو چھوڑیے۔ میرٹ، جمہوریت، حق دار کو حق دینا، یہ سب فضول قصے ہیں۔ مجموعی طور پر مسلمان جس زوال سے دو چار ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اسکے اسباب پر بھی غور کرنے کی چنداں ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ یہ اصل مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ٹیلی فون پر ہیلو کہنا جائز ہے یا نہیں! مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک کے ستر علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ ہیل جہنم کو کہتے ہیں اور ہیلو کا مطلب جہنمی ہے‘ اس لئے ہیلو کہنا حرام ہے۔
لگتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بعد اب لسانیات میں بھی مسلمان صفر ہو رہے ہیں۔ ہیلو کا مطلب جہنمی ہے نہ ہی پیراڈائزو کا مطلب جنتی ہے۔ یوں بھی جب ایک لفظ اصطلاح بن جائے تو اس کا وہی مطلب لیا جاتا ہے جس کیلئے وہ استعمال ہو رہا ہو۔ اگر ہیلو کے بجائے السلام علیکم کہا جاتا تو یہ فتویٰ آ جاتا کہ غیر مسلموں پر سلامتی نہیں بھیجی جا سکتی! یہاں ہمیں انگریزی ادب کی مشہور کتاب ’’گلیور ٹریولز‘‘ یاد آ رہی ہے۔ اس کا مصنف
Jonathan Swift
طنز کا بادشاہ تھا۔ لکھتا ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کا بیشتر وقت اس بحث میں گزرتا ہے کہ انڈا کس طرف سے توڑا جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہلاکو خان بغداد کی طرف بڑھا رہا تھا تو بغداد کے اہل مذہب اس بحث میں مصروف تھے کہ کوّا حلال ہے یا حرام! نہ جانے فیصلہ کیا ہوا تھا لیکن تاریخ کا فیصلہ مختلف تھا۔ اہل بغداد کی لاشیں اتنی زیادہ تھیں کہ گدھ ناکافی تھے۔ کووّں کو ان کی مدد کیلئے آنا پڑا‘ جن کی حلت اور حرمت وجہ نزاع بنی ہوئی تھی، انہی کووّں کیلئے لاشیں حلال ہو گئیں!
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دھن تراشتے رہے
نشیمنوںسے بجلیوں کا کاررواں گزر گیا