یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب معاشرہ تغیر و تبدل کی منزل سے گزرتا ہے تو اس سے متعلق انسانی ذہن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتااور جب انسانی ذہن و دماغ میں تبدیلیوں کا آغاز ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں فکر و خیال کے نئے نئے گوشے وجود میں آتے ہیں۔۱۸۵۷ء کی ناکام جد و جہد آزادؔی کے بعد ہندوستانی معاشرہ جس سیاسی ،تہذیبی ،ثقافتی اور معاشی انقلاب و انتشار سے دوچار ہوا اس نے ہمارے مفکروں ،دانشوروں ،شاعروں اور ادیبوں کے ذہن و دماغ پر گہرے نقو ش ثبت کئے۔ انھوں نے ان بدلے ہو ئے حالات میں اپنے وجود کی بقاکے لئے غور و فکر کا آغاز کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مغربی علوم و فنون اپنائے بغیر زندگی اور معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا آسان نہیں ہوگا۔یہ صورت سب سے زیادہ مسلمانوں کو در پیش تھی کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کو حکومت سے ہٹا کر ہندوستان پر قبضہ کیا تھااور ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں کے عتاب کا شکار سب سے زیادہ مسلمان ہی ہوئے۔لہٰذا ہمارے دانشوروں نے مفاہمت سے کام لیتے ہوئے خود مغربی علوم و فنون کی جانب متوجہ ہوئے اور آہستہ آہستہ قوم کو بھی ان سے استفادہ کرنے کی طرف مائل کیاجس کے زیر اثر مغربی علوم ،نیچر ،سائنس،مادیت ،ارضیت اور افادیت جیسی چیزوں کو بنیادی قدروں کی صورت میں قبول کیا جانے لگا۔جدید اردو نظم کا آغاز بھی اسی دور میں ہواجو بہت حد تک انجمن پنجاب کا رہین منت ہے۔۱۸۵۷ء کے بعد اردو شاعری میں پیدا ہونے والے جدید رجحانات کے عوامل و محرکات کا ذکر کرتے ہوئے عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
’’اردو شاعری اس منزل سے اس وقت روشناس ہوئی جب ۵۷ء کے انقلاب کے بعد زندگی میں نئے حالات پیدا ہوئے اور ان نئے کے نتیجے میں جب نیا احساس بیدار ہوا ،نئے شعور نے آنکھ کھولی اور نئے معاملات و مسائل وجود میں آئے ۔ایک نئی دنیا پیدا ہوئی ،ایک نیا نظام قائم ہوا ،ایک نئے معاشرے کی بنیاد پڑی اور ایک نئی تہذیب کی جھلکیاں نظر آنے لگیں ،یہ تبدیلی ہماری زندگی کی بہت اہم تبدیلی تھی۔ چنانچہ اس نے زندگی کے ہر شعبے میںایک نیا انداز پیدا کیا ۔شاعری بھی اس نئے انداز سے بچ نہ سکی ۔اس کے موضوعات بدلے اور ان موضوعات کو پیش کرنے کے لئے نئے سانچے بنائے گئے ۔اس تبدیلی کی جھلک سب سے پہلے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان مشاعروں میں نظر آتی ہے جنھیں لاہور میں اسی مقصد سے ترتیب دیاگیاتھا اور جن میں حالیؔ اور آزادؔ پیش پیش تھے۔‘‘۱؎
اردو ادب میں لفظ ’نظم‘ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے ۔لیکن۱۸۷۴ء یا اس سے کچھ پہلے لفظ’نظم ‘ کے بنیادی مفاہیم میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا اور اسے ایک صنف کے طور پر بھی لفظ ’جدید ‘کے اضافے کے ساتھ استعمال کیا جانے لگا ،لیکن اس کا باقاعدہ آغاز انجمن پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والے مناظموں سے ہوا جسے ’جدید نظم‘ کی تحریک کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
جدید اردو نظم کی تحریک براہ راست جدید مغربی علوم سے واقفیت کا نتیجہ تھی۔یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ جدید اردو نثر اور نظم کا آغاز لاشعوری طور پر انگریزوں کی مساعی کا نتیجہ ہیں۔جس طرح جدید اردو نثر کے بنانے میں ایک انگریز حاکم جان گلکرسٹ نے حصہ لیا تھا،اسی طرح جدید شاعری کی بنیادیں استوار کرنے میں بھی ایک انگریز حاکم ہی کا ہاتھ ہے ۔۲؎لیکن دونوں کا وجودابتداً کسی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں تھا۔بلکہ ان اقدام کو انگریزوں نے اپنے فائدے کے لئے اٹھایا تھالیکن اس کا فائدہ انگریزوں کے ساتھ ساتھ اردو ادب کوبھی ہوا۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام انگریز افسران کو ہندوستان کی روزمرہ میں استعمال کی جانے والی زبان سے واقف کرانے کے لئے قائم کیا گیا تھااور انجمن پنجاب کے مشاعرے مشرقی تعلیم کے سلسلے میں انگریزی حکومت کی حکمت عملی کا نتیجہ تھے ۔حکومت کی جانب سے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مناظموں کی غرض و غایت کے متعلق ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:
’’انجمن پنجاب کے مشاعرے آزادؔ یا حالیؔ ؔ کے کہنے پر شروع نہ ہوئے تھے ۔وہ کسی بھی صورت میں مشاعرے کے محرک نہیں تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے لفٹنینٹ گورنر نے مدارس کی درسی کتب کے لئے فطرت کی شاعری پر مشتمل نظمیں لکھوا کر نصاب میں شامل کرنے کے لئے ہالرائیڈ کو خصوصی ہدایات بھیجی تھیں اور ہالرائیڈ نے منصوبہ بندی کرکے آزادؔ اور حالیؔ کی معاونت حاصل کی تھی۔‘‘۳؎
بہر کیف ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں دلی کالج کا شیرازہ بکھرنے کے بعد حکومت نے کالج کو لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اوراس کو گورمنٹ کالج لاہور کی تحویل میں دے دیا۔وہیں دوسری جانب دہلی تباہ ہونے کے بعد زیادہ تر ادبا و شعرا نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ان میں مولوی کریم الدین احمد،پنڈت من پھول،مولوی سید احمد دہلوی ،الطاف حسین حالیؔ ؔ،پیارے لا ل آشوب ،درگا پرشاد نادر ؔ اور محمد حسین آزادؔؔنے لاہور کا رخ کیا۔۴؎ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں:
’’دہلی کے اجڑنے کے بعد علم و حکمت نے یورپ کی طرف کوچ کرکے جس طرح لکھنؤ میں نیا گہوارۂ ادب قائم کیاتھا اسی طرح جب دلی کی سیاسی حیثیت ملیا میٹ ہو گئی تو ادب اور فن نے پنجاب میں ایک نیا میدان تلاش کر لیا۔دہلی کی بزم آرائیوں کی رونق لاہور میں کھنچ آئی۔دہلی کے مشاہیر جن میںماسٹر پیارے لال آشوب،منشی درگا پرشاد،مولوی کریم الدین اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ جیسے مشاہیر کانام لینا کا فی ہے،یکے بعد دیگرے یہاں تشریف لائے۔ان میں سب سے پہلاجو شخص لاہور آیا اور یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی،آزادؔ تھے۔۵؎
انجمن پنجاب کا قیام ڈاکٹر لائٹز کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔۱۸۶۴ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کا قیام عمل میں آیااور اس کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر لائٹز بنائے گئے ۔ڈاکٹر لائٹز بہت دنوں سے ایک ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو مشرقی علوم میں مہارت رکھتا ہو لہٰذا آزادؔ سے شناسائی نے اس کمی کو پورا کیا اور دونوں کی ملاقاتیں بھی رہیں۔آزادؔ فروری ۱۸۶۴ء میں پنجاب کے محکمۂ تعلیم میں ملازم ہو گئے تھے ۔ڈاکٹر لائٹز کی کوششوں سے ۲۱؍ جنوری ۱۸۶۵ء میں سکشا سبھا کے مکان میں ایک انجمن قائم کی گئی جس کا نام پنڈت من پھول نے ’’انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب‘‘ (Society For The Diffusion of useful knowledge in the punjab )تجویز کیا جو منظور کر لیا گیا۔انجمن کا صدرڈاکٹر لائٹز کومقرر کیا گیا۔ انجمن کے اغراض و مقاصد درج ذیل تھے:
(۱)قدیم مشرقی علوم کا احیا
(۲)باشندگان ملک میں دیسی زبان کے ذریعہ علوم مفیدہ کی اشاعت
website designing services in delhi
(۳)حکومت کو رائے عامہ سے آگاہ کرنے کے لئے علمی ترقی، معاشرتی مسائل اور نظم و نسق کے مسائل پر تبادلۂ خیا لات۔
(۴)پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے ممالک کے درمیان تعلقات استوار کرنا۔
(۵)ملک کی عام ترقی اور شہری نظم و نسق کی درستی کے لئے کوشاں رہنا۔
(۶)حاکم و محکوم میںرابطہ ،اتحاد و موانست کو ترقی دینا۶؎۔
ان مقاصد کی تکمیل کے لئے انجمن نے مدارس ،کتب خانے اور دارالمطالعے قائم کرنے کا منصوبہ بنایا،رسائل جاری کئے گئے اور سماجی ، تہذیبی ،اخلاقی،انتظامی ،علمی اور ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کے لیے جلسے منعقد کئے گئے۔۷؎غرض انجمن نے عوام کی فلاح کے لئے زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں اصلاح اور امداد کا کام کیا۔انجمن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں:
’’انجمن پنجاب نے صوبے بھر میں بیداری اور خود آگاہی پیدا کرنے ،نیز جدید علوم کی ترویج میں بڑا مفید کا کیا۔۸؎
اس انجمن کے زیر اثر پنجاب کے مختلف علاقوں میں اس طرح کی دیگر انجمنیں بھی قائم کی گئیں۔ڈاکٹر محمد صادق آگے لکھتے ہیں:
’’لاہور میں قائم کردہ مثال کی پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی پیروی کی گئی اور تھوڑے ہی عرصے میںدہلی ،راولپنڈی ،سیالکوٹ ،حصار ،امرتسر،گورداسپوراور گجرانوالہ میں بھی اسی طرزکی انجمنیںقائم ہو گئیں۔جلد ہی سارا صوبہ اس نئی روشنی سے متاثر ہو گیا۔‘‘۹؎
پنجاب میںجدید اردو ادب کی ترقی کا سہرا اولاً ڈاکڑلائٹز کے سر ہے بقول ڈاکٹر محمد صادق ’’پنجاب میں اردو ادب کی ترقی کا دامن گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر لائٹز کے نام سے وابستہ ہے۔‘‘۱۰؎ ان کی مساعی سے انجمن پنجاب اس وقت نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں جدیدمغربی اور مشرقی علوم کی اشاعت کا مرکز بن گیا تھا اس پر آزادؔ کی وابستگی نے انجمن کے اس مشن میں چار چاند لگا دئے تھے۔
جدید اردو نظم کی تحریک کے سلسلے میں انجمن پنجاب کی خدمات لافانی ہیں لیکن سیاسی نقطۂ نظر سے اس کا معاملہ بھی فورٹ ولیم کالج جیسا ہی ہے بقول ڈاکٹر انور سدید ’’انجمن پنجاب کا قیام حکومت کی ایما پر ہوا لیکن اس کی ادبی جہت محمد حسین آزادؔ نے متعین کی ۔‘‘واقعہ یہ ہے کہ پنجاب کے لفٹنینٹ گورنرڈونلڈمیکلوڈ نے مدارس کی درسی کتابوں پرنظر ڈالنے کے بعد یہ کمی محسوس کی کہ ان میں’’نظمیں‘‘ نہیں ہیںاور کہا کہ اگر اس میں ایسی نظمیں اردو میں لکھی اورشامل نصاب کی جائیں تویہ عمل مفید مطلب ہوگا اس کی اطلاع انھوں نے اس وقت کے ڈی۔پی۔آئی۔پنجاب کرنل ہالرائڈ کو دی تو انھوں نے محمد حسین آزادؔ سے مشورہ کرکے ایک جلسے کا منصوبہ بنایا جو۹؍ اپریل ۱۸۷۴ ء کو انجمن کے سکھشا سبھا میں منعقد ہوا۔اس جلسے میں محمد حسین آزادؔ اور کرنل ہالرائڈ کے علاوہ پنجاب کے اہل علم ،عہدے دار افسران بھی موجود تھے۔۱۱؎لیکن اس جلسے سے پہلے ہی آزادؔ نے۱۵؍اگست ۱۸۶۷ء میں ’’نظم اور کلام موزوں کے باب میںخیالات‘‘کے عنوان سے جولکچر دیا تھاوہ آزادؔ کی منفرد کوشش تھی اور در جدید اردو نظم کی تحریک کے باب میں نقطۂ آغاز وہی تھا۔اور اس کے اثرات بھی مختلف شعرا کے یہاں دیکھے جا سکتے ہیں،حکومت کی ایما پر اس کو عملی جامہ ۹؍ اپریل ۱۸۷۴ء کو پہنایا گیا۔اس جلسے میں بھی آزادؔ ؔنے ایک لکچر دیا اور اپنی نظم ’’شب قدر ‘‘کے عنوان سے سنائی۔
۱۸۶۷ء میں آزادؔ کی انجمن کے کاموں میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر لائٹز نے ان کوانجمن کا سکریٹری مقرر کر دیا ۔ سکریٹری کا عہدہ انجمن میں بڑی اہمیت رکھتا تھا ساتھ ہی اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ تھیں۔آزادؔ ان سے بہ آسانی عہدہ بر آہوئے اور اس میں کئی نئے کام بھی شروع کئے جن میں سے ایک انجمن کے ہرجلسے کے بعد مشاعرے کا انعقاد تھاجوبعد میں مناظمے کی صورت اختیار کر گیااور جدید اردو نظم کی تحریک کی اشاعت کا ذریعہ بنا۔ انجمن کے زیر اہتمام دو طرح کے جلسے منعقد کئے جاتے تھے،جلسۂ خاص اور جلسہ ٔعام۔پہلے جلسئہ خاص میں حکومت کے افسران اور انجمن کے عہدے داران کو ہی شرکت کی اجازت تھی لیکن بعد میں عوام کے لیے بھی اس کے دروازے کھول دیے گئے۔انجمن کے اسی جلسۂ خاص میں آزادؔ نے وہ تاریخی لکچر دیا جو جدید اردو نظم کے ارتقا کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔آزادؔ نے اس خطبے میں شاعری کے موجودہ عام موضوعات سے بے اطمینانی کا اظہار کیا اور شاعری کے لئے مقصدیت اور نئی طرز کی جانب شعرا کو توجہ دلائی۔آزادؔ کے نزدیک :
’’شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالات سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے۔اوراسے قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسہ خاص ہے ۔خیالات پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔
ابتدا میں شعر گوئی حکما اور علمائے متبحر کے کمالات میں شمار ہوتی تھی۔اور ان تصانیف میں اور حال کی تصانیف میں فرق بھی زمین و آسمان کا ہے۔البتہ فصاحت و بلاغت اب زیادہ ہے مگر خیالات خراب ہو گئے ۔سبب اس کا سلاطین و حکام عصر کی قباحت ہے ۔انھوں نے جن جن چیزوں کی قدر دانی کی ۔لوگ اس میں ترقی کرتے گئے۔ورنہ اسی نظم و شعر میں شعرا ئے اہل کمال نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں جن کی بنا فقط پند و اندرز پر ہے اور ان سے ہدایت ظاہر و باطن کی حاصل ہوتی ہے۔چناچہ بعض کلام سعدی و مولوی روم و حکیم سنائی و ناصر خسرواسی قبیل سے ہیں۔۱۲؎
محولہ اقتباس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آزادؔ نے ہندوستان کے موجودہ سیاسی ،سماجی اور ادبی پس منظر میں جو روشنی مغربی ادب کے مطالعے اور صحبتوں سے حاصل کی تھی اس کا درد انگیز اور مصلحت آمیزاظہار ہے۔آزادؔ نے ایک لکچراور منعقدہ ۹؍ اپریل ۱۸۷۴ء کو انجمن کے جلسے میں دیا تھا جس میں ان کا لہجہ مذکورہ بالا لکچر کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ ہے۔مثال کے طور پر چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’یہ نہ سمجھناکہ میں تمہاری نظم کو سامان آرائش سے مفلس کہتا ہوں ۔ نہیں،اس نے اپنے بزرگوں سے لمبے لمبے خلعت اور بھاری بھاری زیور میراث پائے۔مگر کیا کریںکہ خلعت پرانے ہو گئے اور زیوروں کو وقت نے بے رواج کر دیا۔تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ نئے مضامین اور نئے انداز کے موجد رہے۔مگر نئے انداز کے خلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں ،وہ انگریزی صندوقوں میںبند ہیں کہ ہمارے پہلو میںدھرے ہیںاور ہمیں خبر نہیں۔ہاں صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے۔‘‘
’’تم اپنے ملک کی نظم کو ایسی حالت میں دیکھتے ہو اور تمہیں افسوس نہیں آتا ۔تمہارے بزرگوں کی یاد عنقریب مٹا چاہتی ہے اور تمہیں درد نہیں آتا۔اپنے خزانے اورنئے توشہ خانے سے ایسا بندوبست نہیں کرتے کہ جس سے وہ اپنی حالت درست کرکے کسی دربار میں جانے کے قابل ہو۔‘‘
’’مجھے بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ عبارت کا زور ،مضمون کا جوش و خروش اور لطائف و صنائع کا سامان تمہارے بزرگ اس قدر دے گئے ہیں کہ تمہاری زبان کسی سے کم نہیں۔کمی فقط اتنی ہے کہ وہ چند بے موقع احاطوں میں گھر کر محبوس ہو گئے ہیں۔وہ کیا؟ مضامین عاشقانہ ہیں جس میں کچھ وصل کا لطف،بہت سے حسرت و ارمان ،اس سے زیادہ ہجر کا رونا،شراب ،ساقی بہار،خزاں،فلک کی شکایت اور اقبال مندی کی خوشامد ہے۔ ‘‘
’’تمہاری شاعری جو چند محدود احاطوں میں بلکہ چند زنجیر وں میں مقید ہو رہی ہے اس کے آزادؔ کرنے میں کوشش کرو۔نہیں تو ایک زمانہ تمہاری اولاد ایسا پائے گی کہ ان کی زبان شاعری کے نام سے بے نشان ہو گئی اور اس فخر آبائی اور بزرگوں کی کمائی سے محروم ہونا بڑے افسوس کا مقام ہے۔‘‘
’’خاص و عام پپیہے اور کوئل کی آواز اور چمپا چمیلی کی خوشبو بھول گئے ۔ ہزار وں بلبل اور نسرین و سنبل جو کبھی دیکھی بھی نہ تھیں ۔ان کی تعریف کرنے لگے ۔رستم و اسفند یار کی بہادری ،کوہ الوند اور بے ستون کی بلندی ،جیحوں سیحوں کی روانی نے یہ طوفان اٹھایا کہ ارجن کی بہادری ،ہمالہ کی ہری بھری پہاڑیاں برف بھری چوٹیاں اور گنگا جمنا کی روانی کو روک دیا۔‘‘
’’ہمیں چاہیے کہ اپنی ضرورت کے بموجب استعارہ اور تشبیہ اور اضافتوں کے اختصار فارسی سے لیںسادگی اور اظہار اصلیت کو بھاشا سے سیکھیں۔‘‘۱۳؎
محولہ بالا اقتباسات میں آزادؔ نے قدیم شعری روایت کو یکسر مسترد نہیں کیا ہے بلکہ وہ اس میں اصلاحات کے خواہش مند تھے اور اردو کی شعری روایت کو مقامی رنگ میں رنگنا چاہتے تھے۔ان اقتباسات میں نئے اور پرانے رنگ میں مفاہمت پیدا کرنے کی ایک فطری خواہش صاف طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔وہ اپنے ماضی سے نہ تو متنفر ہیں اور نہ ہی بیزار بلکہ وہ اس کوشش میں ہیں کہ ماضی اور حال کے درمیان ایک ایسا پل بن جائے جس سے ہمارا رشتہ ماضی اور حال سے ایک ساتھ قائم رہے۔پروفیسر شمیم حنفی آزادؔ کے ان فکری مضمرات اور حقیقی نصب العین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آزادؔ کے یہاں نئے اور پرانے میں مفاہمت پیدا کرنے کی ایک فطری خواہش اورکوشش صاف دکھائی دیتی ہے۔ماضی کی طرف ان کے رویے میں حقارت یا تلخی کا شائبہ تک نہیں ۔ آزادؔ عملاًاسی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی طرح ماضی اور حال کے درمیان ایک پل بنا لیا جائے اور اپنے آپ کو کھوئے بغیر بدلتی ہوئی زندگی کے حساب چکا دیے جائیں ۔ مشرقی شاعری کے محاسن کو آزادؔ نے اسی لیے نہ تو مسترد کیا ،نہ اپنے ورثے پر شرمندہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔یعنی کہ آزادؔ اردو شاعری کو جو رخ دینا چاہتے ہیں اس کا سلسلہ صرف مغرب سے نہیں ،بلکہ مشرق کی روایت کے اس حصے سے بھی ملتا ہے جسے رسمی شاعری رواج نے پس پشت ڈال دیا ہے اس طرح آزادؔ اپنی روایات سے منحرف یا منقطع ہونے کے بجائے دراصل اس روایت سے صالح اور صحت مند عناصر کی بازیافت اور تجدید کے طلب گار تھے۔۱۴؎
آزادؔ کے ان خیالات نے اس دور کے شعرا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ دھیرے دھیرے اس کارواں میں شریک ہونے لگے۔انجمن کے زیر اہتمام دس مناظمے منعقد ہوئے اور ایک جلسہ منعقدہ ۹؍ اپریل ۱۸۷۴ء جسے عام طور پر مناظمہ کہا جاتا ہے حالانکہ یہ اس طرز کا مناظمہ نہیں تھا جو بعد میں منعقد ہوئے ۔انجمن کے مناظمے عام مشاعروں سے ان معنوں میں مختلف تھے کہ ان میںشامل ہونے والے شعرا کو ایک موضوع دے دیا جاتا تھا جس پر وہ نظمیں کہہ کر لاتے تھے اور مناظمے میں پیش کرتے تھے۔۹؍ اپریل کے جلسے میںصرف آزادؔ نے ایک لکچر دیا ،جس کی تفصیل ہم اوپر درج کر چکے ہیں۔اورایک مثنوی ’’شب قدر ‘‘ کے نام سے سنائی۔اس لیے اس کو ان معنوں میں مناظمہ کہنا میری نظر میں مناسب نہیں۔ انجمن کے زیر اہتمام ہونے والے مناظموںکی تفصیل درج ذیل ہے:
مناظمہ تاریخ انعقاد موضوع مناظمے میں شرکت کرنے والے شعرا کے نام
اول ۹؍ اپریل ۱۸۷۴ء آزادؔ کا لکچر مثنوی شب قدر
دوم ۳۰؍ مئی ۱۸۷۴ء برسات الطاف حسین حالیؔ ، الطاف علی،آزادؔ،ذوق کاکوروی
سوم ۳۰؍ جون ۱۸۷۴ء زمستاں آزادؔ ، انور حسین ہما ،مرزا اشرف بیگ دہلوی، مولاقادر بخش ،الٰہی بخش
رفیق،امو جان ولی دہلوی، مولوی مقرب علی
چہارم ۳؍ اگست ۱۸۷۴ء امید مضطر دہلوی، راحت دہلوی، الطاف حسین حالیؔ، مرزا اشرف بیگ
دہلوی، محمد حسین آزادؔ، فکر دہلوی، عطا اللہ عطا
پنجم ۹؍ اکتوبر ۱۸۷۴ء حب وطن ولی دہلوی ، کرشن لعل طالب ، الطاف حسین حالیؔ ، محمد حسین آزادؔ ، مولوی
محمد شریف ، گل محمد عالی، انور حسین ہما ، امام بخش ، الٰہی بخش رفیق ، مصر
رام داس قابل ، عطا اللہ خاں
ششم ۹؍ اکتوبر ۱۸۷۴ء امن لچھمن داس برہم ، گل محمد عالی ، مفتی امام بخش ، مصر رام داس قابل، محمد حسین
آزادؔ ، شاہ محمد ، صادق الحسنین ، حقیر لکھنوی ، علا الدین صافی ، ولی دہلوی ،
عطا اللہ خاںعطا
ہفتم ۱۴؍ نومبر ۱۸۷۴ء انصاف فصیح الدین رنج، مولوی محمد شریف ، محمد اکبر خاور ، خواجہ الطاف حسین حالیؔ ،
محمد حسین آزادؔ ، لچھمن داس برہم، مصر رام داس قابل ، انور حسین ہما، حقیر لکھنوی
، گل محمد عالی ، الٰہی بخش رفیق ، کرشن لعل ہما، عطا اللہ عطا
ہشتم ۱۱؍ دسمبر ۱۸۷۴ء مروت لچھمن داس برہم ، مصر رام داس قابل ، عطا للہ عطا ، الٰہی بخش رفیق ، محمد حسین
آزادؔ ، کرشن لعل طالب ، انور حسین ہما ، امام بخش ، محمد سعید حقیر لکھنوی
نہم ۳۰؍ جنوری ۱۸۷۵ء قناعت لچھمن داس برہم ، محمد حسین ، کرشن لعل ہما، الٰہی بخش رفیق ، حقیر سعید ، گل محمد عالی
، عطا اللہ عطا ، علا الدین صافی ، تارا چند لاہوری ، دین دیال عاجز ، بلند لاہوری
، جوالا سہائے خرم ، محمد حیات فیض لاہوری ، مصر رام داس قابل
دہم ۱۳؍ مارچ ۱۸۷۵ء تہذیب محمد حسین آزادؔ ، الٰہی بخش رفیق ، مفتی امام بخش ، مولوی محمد سعید ، پنڈت جواہر لعل
یاز دہم اخلاق فیض ، محمد حسین آزادؔ۱۵؎
مناظموں کے شرکا کی فہرست دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں آزادؔ اور حالیؔ کے علاوہ کوئی صف اول کا شاعر شریک نہیں ہوا ۔یہ حقیقت ہے لیکن آہستہ آہستہ اس تحریک نے اردو ادب میں اپنی جڑیں پھیلانی شروع کیں۔حالانکہ مارچ ۱۸۷۵ء میں یہ مناظمے بند کر دیے گئے۱۶؎ لیکن ان کی باز گشت بیسویں صدی کی اردو شاعری میں سنائی دیتی ہے ۔فوری طور پر بھی کچھ نتیجے بر آمد ہوئے لہٰذا خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
’’محمد حسین آزادؔؔ کے خیالات اخبار’’آفتاب پنجاب‘‘کے ذریعے اردو شعرا کو متاثر کرنے لگے تھے ۔چنانچہ ۱۸۶۷ء میں ہی مولوی اسمٰعیل میرٹھی نے انگریزی کی چار نظموں کے منظوم ترجمے کئے۔‘‘۱۷؎
یہاں ایک بات اور عرض کرنی ہے کہ جس وقت آزادؔ اردو ادب میں جدید اردو نظم کی بنیادیں استوار کر رہے تھے اس سے تقریبا دس سال قبل ہی قلق میرٹھی اس عمارت کی پہلی اینٹ رکھ چکے تھے۔۱۸۶۴ء میں قلق میرٹھی کی پندرہ انگریزی نظموں کا ترجمہ ’’جواہر منظوم ‘‘کے نام سے شائع ہو ااور ۱۸۷۴ء تک اس کے چار ایڈیشن شائع ہو چکے تھے۔حسن الدین احمد لکھتے ہیں:
’’قلق میرٹھی نے بعض حکامان وقت کی فرمائش پر منتخب انگریزی نظموں کا ترجمہ ’’جواہر منظوم‘‘کے نام سے کیا۔جس کی طباعت ۱۸۶۴ء میں گورنمنٹ پریس الہ آباد میں ہوئی ،جو اہر منظوم کو اردو منظوم تراجم کا پہلا مجموعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ان منظوم تراجم پر مرزا اسد اللہ خاں غالب نے نظر ثانی بھی کی تھی۔‘‘۱۸؎
یہ حوالے تحقیقی نقطہ نظر سے بجا لیکن تحریک کے طور پر جدید اردو نظم کا آغازانجمن پنجاب اور آزادؔ کا ہی مرہون منت ہے۔انجمن کے مناظموں کے موضوعات کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آزادؔ اور حالیؔ کا مقصد اصلاح معاشرہ اور شاعری میں حقیقت و ارضیت کو فروغ دینا تھا۔حالیؔ لکھتے ہیں:
’’اس مشاعرے کا مقصد یہ تھا کہ ایشیائی شاعری جو کہ در و بست عشق اور مبالغے کی جاگیر ہو گئی ہے اس کو جہاں تک ممکن ہو ،وسعت دی جائے اور اس کی بنیاد حقائق و واقعات پر رکھی جائے‘‘۱۹؎
حالیؔ نے انجمن کے چار مناظموں میں شرکت کی اور ’برکھا رت،نشاط امید ،حب وطن اور مناظرہ ٔ رحم و انصاف کے عنوان سے چارنظمیں پڑھیں ۔۳۰؍ مئی ۱۸۷۴ ء کے مناظمے میں حالیؔ نے اپنی نظم ’’برکھا رت ‘‘ پڑھی اس میں گرمی کی شدت اور موسم برسات کی آمد کا ذکر دلکش انداز میں کیا ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
بچوں کا ہوا تھا حال بے حال
کمھلائے ہوئے تھے پھول سے گال
آنکھوں میں تھا ان کا پیاس سے دم
تھے پانی کو دیکھ کر کرتے مم مم
ہر بار پکارتے تھے ماں کو
ہونٹوں پہ تھے پھیرتے زباں کو
پانی دیا گر کسی نے لاکر
پھر چھوڑتے نہ تھے منہ لگا کر
برسات کا بیان اس طرح کیا ہے:
پھولوں سے پٹے ہوئے ہیں کہسار
دولھا سے بنے ہوئے ہیں اشجار
پانی سے بھرے ہوے ہیں جل تھل
ہے گونج رہا تمام جنگل
کرتے ہیں پپیہے پیہو پیہو
اور مور چنگھاڑٹے ہیں ہر سو
انجمن کی کوششوں سے اس وقت اردو شاعری میںنیچرل شاعری کا رواج عام ہوا جس کو سرسید نے بھی پسند کیا اور اس میدان میں مزیدترقی کے لیے آزادؔکی حوصلہ افزائی بھی کی۔ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعرا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں۔آپ کی مثنوی ’’خواب امن‘‘ پہنچی ۔بہت دل خوش ہوااور حقیقت شاعری اور زور سخن وری کی داد دی ہے۔اب بھی اس میں خیالی باتیں بہت ہیں۔اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کروجس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہوگا اتنا ہی مزہ دے گا۔اب لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔ضروری ہے کہ انگریز شاعروں کے خیالات لے کر اردو زبان میں ادا کئے جائیں۔‘‘۲۰؎
آزادؔ کی نظر پہلے ہی اس پہلو کی طرف جا چکی تھی ۔انگریزی شاعری کے زیر اثر آزادؔ نے انجمن کے ابتدائی جلسوں میں ہی نیچرل شاعری کے ابتدائی نمونے پیش کر دیے تھے۔ان کی نظم ’ابر کرم ‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جسے آزادؔ نے انجمن کے پہلے باقاعدہ مناظمے منعقدہ ۳۰؍ مئی ۱۸۷۴ء میں پڑھی تھی:
اے ابر تیری رات کی تعریف اگر کروں
لازم ہے پہلے میں رہ ظلمات سر کروں
کیا کیا بیاں کروں میں تیری رات کا مزہ
گر رات کا مزہ ہے تو برسات کا مزہ
سنسان رات اور وہ آئی ہوئی گھٹا
چاروں طرف جہاں میں چھائی ہوئی گھٹا
بجلی کبھی کبھی نگہ فتنہ ساز سے
کرتی نقاب ابر میں چشمک ہے ناز سے
اور کوکنا پپیہے کا وہ دل کی ہوک سے
نالہ کو اپنے تولنا کوئل کی کوک سے
کوٹھے میں ٹھنڈے ٹھنڈے بچھونے وہ اوس میں
ہے فخر گل کو آوے اگر پائے بوس میں
آنا وہ بھیگی بھیگی ہوا کا کبھی کبھی
بول اٹھنا مرغ نغمہ سرا کا کبھی کبھی
ان اشعار کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آزادؔ نے شاعروں کوجو تلقین کی تھی اس پر خود بھی عمل پیرا نظر آتے ہیں۔نیچرل شاعری کے اس نظر یے نے اردو شاعری میں رائج مبالغہ،تصنع،لفاظی اور بے جا استعارہ و تشبیہ کے استعمال کے خلاف گو یا ایک محاذ قائم کر دیا تھااس پر مزید ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات نے لوگوں کو اپنے آس پاس دیکھنے کے مواقع فراہم کیے۔ حالیؔ اور آزادؔ کی کوششوں نے شعرا کو فطرت کے نہاں خانوں میں ساز کی آواز تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔اور اس طرح شاعری میں شعوری طور پر نظم نگاری کے ساتھ ساتھ نیچرل شاعری کی روایت کا بھی آغاز ہواجس کی بنیادیں ارضیت پسندی پر قائم تھیں۔انجمن پنجاب کی نیچرل شاعری کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:
’’تحریک انجمن فطرت کی عکاسی تو کرتی ہے لیکن فرد کے رومانی مزاج کو خاطر خواہ آسودگی عطا نہیں کرتی ۔چنانچہ اس تحریک کی فطرت نگاری کو انگریزی ادب کی اس تحریک سے مماثل قرار دینا ممکن نہیں جس کے نمائندہ شعرا ورڈورتھ ،کیٹس اور شیلے وغیرہ تھے ۔مجموعی طور پر تحریک انجمن پنجاب کی شاعری میں صرف ایک جہت نمایاں نظر آتی ہے اور یہ اس کی ارضیت پسندی کی صورت میں نمایاں ہوئی۔تاہم اس تحریک کی یہ عطا تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے غزل کی مقبولیت کے دور میں نظم کو منظر عام پر لانے کا موقع پیدا کیا اور مستقبل میں نظم کے فروغ کے لیے راہ ہموار کی۔‘‘۲۱؎
اس کے علاوہ آزادؔ نے نظم کی مروجہ ہئیتوں میں تبدیلی کی کامیاب کوششیں بھی کیں ’نظم معریٰ‘ کی ہئیت کو اردو میں متعارف کرانے کا سہرا آزادؔ کے سر ہی ہے ۔۲۲؎بعد ازاں اسی دور میں اسمٰعیل میرٹھی نے بھی معریٰ کی ہئیت میں نظمیں لکھیں لیکن یہ نظمیں بچوں کے لیے لکھی گئی تھیں اس لیے ان کی اس قدر شہرت نہ ہو سکی۔
انجمن پنجاب کا سورج توبظاہر مارچ ۱۸۷۵ء مین ڈوب گیا لیکن اس سے روشنی حاصل کرنے والوں نے نظم نگاری کی تحریک کو مزید تقویت پہنچائی۔اس سلسلے میںعبد الحلیم شرر ، شیخ عبد القادر ،تاجور نجیب آبادی اور مولوی عبد الحق کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔مختصر یہ کہ انجمن پنجاب کے توسط سے پہلی مرتبہ جدید اردو نظم کو صنف کا درجہ حاصل ہوا ساتھ ہی مستقبل میں ترقی کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔
حوالے:۔
۱۔جدید اردو شاعری، عبادت بریلوی،ایجوکیشنل بک ہائوس ،علی گڑھ،۲۰۰۵ء ، ص ۱۱۔۱۲
۲۔جدید اردو شاعری، عبد القادر سروری، کتاب منزل ،لاہور،۱۹۴۶ئ، ۶۷
۳۔آزادؔ انجمن پنجاب اور جدیدیت ،ڈاکٹر تبسم کاشمیری،مشمولہ آزادؔ صدی مقالات،شعبۂ اردو ،پنجاب یونیورسٹی ،اورینٹل کالج ،لاہور،۲۰۱۰ئ، ص ۸۸
۴۔اردو ادب کی تحریکیں، داکٹر انور سدید ، انجمن ترقی ارود ،پاکستان،۱۹۹۱ء ، ص۳۶۸
۵۔محمد حسین آزادؔ ۔احوال و آثار ،ڈاکٹر محمد صادق، مجلس ترقی ادب ،لاہور۱۹۷۶ء ، ص ۳۷
۶۔اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رجحانوں کا حصہ، ڈاکٹر منظر اعظمی،اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنؤ، ۲۰۰۹ء ،ص ۱۲۳۔۱۲۵
۷۔A History of the universty of punjab.P11 by J.F. Bruceبحوالہ اردو ادب کی تحریکیں،داکٹر انور سدید ، انجمن ترقی ارود ،پاکستان،۱۹۹۱ء ، ص۳۲۹
۸۔محمد حسین آزادؔ ۔احوال و آثار ،ڈاکٹر محمد صادق، مجلس ترقی ادب ،لاہور۱۹۷۶ء ، ص۴۱
۹۔ایضاً ،ص ۴۲
۱۰۔ایضاً ،ص۴۰
۱۱۔تاریخ ادب اردو (جلد چہارم،حصہ اول)داکٹر جمیل جالبی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس،دہلی،۲۰۱۳ء ص۹۹۴
۱۲۔نظم آزادؔ ،مرتبہ آغا محمد باقر، شیخ مبارک علی تاجر کتب لوہاری بازار ،لاہور،۱۹۲۹ئ، ص ۲۲۔۲۳
۱۳۔ایضاً ،ص ۲۶ تا ۳۲
۱۴۔ اردو ادب کی تحریکیں،داکٹر انور سدید ، انجمن ترقی ارود ،پاکستان،۱۹۹۱ء ، ص۳۸۴تا ۳۸۶
۱۵۔ایضاً ،ص ۳۸۶
۱۶۔اردو نظم کا نیا رنگ و آہنگ،خلیل الرحمن اعظمی،مشمولہ سوغات (جدید نظم نمبر)شمارہ ۷۔۸ ،ص۸۷
۱۷۔انگریزی شاعری کے منظوم ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،حسن الدین احمد ،ولا ایکیڈمی ،حیدرآباد ، ۱۹۸۱،ص ۱۲۱
۱۸۔کلیات نظم حالیؔ ،دیباچہ مجموعہ نظم حالیؔ ،خواجہ الطاف حسین حالیؔؔ،مجلس ترقی اردو ادب ،لاہور ،بار اول ،۱۹۶۸ء ، ص ۵۱
۱۹۔سر سید بنام آزادؔ ۲۹؍ اکتوبر ۱۸۸۴ئ، بحوالہ تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ،شمیم حنفی ،سنگ میل پبلشرز ،لاہور ، ۲۰۰۶ئ، ص ۲۷۵
۲۰۔اردو ادب کی تحریکیں،داکٹر انور سدید ، انجمن ترقی ارود ،پاکستان،۱۹۹۱ء ، ص۳۹۵
۲۱۔اردو میں نظم معریٰ اور آزادؔ نظم ،پروفیسر حنیف نقوی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،نئی دہلی،۲۰۰۳ء ، ص ۲۴۸
۲۲۔اردو نظم کا تشکیلی دور ،خلیل الرحمن اعظمی، مشمولہ نئی نظم تجزیہ و انتخاب،مرتبہ زبیر رضوی،مکتبہ ذہن جدید ،۲۰۰۷ء ،ص ۱۱
“