(Last Updated On: )
لاہورادبی لحاظ سے ہمیشہ اس خطہ میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہاہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں فارسی زبان کا پہلا شاعر سعد بن سلمان مدفون ہے۔ اِسی شہر میں تصوف کی پہلی باقاعدہ کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ لکھی گئی۔ مختلف بادشاہوں نے اس شہر کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ مغلوں نے تعمیر و ترقی اور فنون کی ایسی بے مثال عمارتیں تعمیر کیں کہ جن کی بدولت یہ خطہ اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ۱۷۰۷ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد جب مسلمانانِ ہند پستی اور زوال کا شکار ہوئے تو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی نے اُن پر غلامی مسلط کر دی۔ مسلمانانِ ہند اس نازک دور میں مختلف لسانی‘ مذہبی‘ جغرافیائی اور فکری گروہوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے جس کا نتیجہ مایوسی‘ نااُمیدی اور بے یقینی کی سی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ اُس وقت سرسید احمد خاں کی علی گڑھ تحریک نے جہاں اُنہیں علمی و فکری سطح پر دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع فراہم کیا وہیں خلیفہ قاضی حمید الدین کی اُس انجمن نے اُنہیں اتحاد و یگانگت کا ایک ایسا موقع اور پلیٹ فارم مہیا کیا جس کے دُور رَس نتائج ایک آزاد اسلامی ریاست کے حصول کے لیے کار آمد ثابت ہوئے۔ یہ تنظیم ’’انجمن حمایتِ اسلام‘‘ ہی تھی جس ک بنیاد ۲۲ ستمبر
۱۸۸۴ء کو موچی دروازہ‘ لاہور کی ایک چھوٹی سی مسجد ’’مسجد بکن خان‘‘ میں رکھی گئی۔یہ وہ نازک دَور تھا جب انگریزی حکومت کے جبر و اقتدار کے سائے میں عیسائی مشنری ہندوستان کے گوشے گوشے میں عیسائیت کی تبلیغ میں کوشاں تھے اور مسلمانوں کو مختلف تراغیب کے ذریعے اسلام سے روگرداں کرنے میں مشغول تھے۔ ان لوگوں کا ہدف زیادہ اَن پڑھ اور مفلس و نادار لوگ تھے۔ بہت سے لوگ اپنا دین
چھوڑ کر عیسائیت قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کرنے لگے۔
۲۱ جنوری ۱۸۶۵ء کو ’’انجمن پنجاب‘ لاہور‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ بنیادی طور پر یہ ایک علمی اور تعلیمی انجمن تھی‘ جس کے تحت ۸ دسمبر ۱۸۶۹ء کو پنجاب یونیورسٹی کالج (موجودہ اورینٹل کالج) اور ۱۴ اکتوبر ۱۸۸۲ء کو باقاعدہ طور پر پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔۱۸۶۹ء میں پنجاب کے مسلمانوں کی پہلی جماعت ’’انجمن اسلامیہ‘ پنجاب‘‘ قائم ہوئی۔ اس کا مقصد مسلمانوں کی سیاسی‘ معاشرتی‘ تعلیمی اور اخلاقی حالت کو سنوارنا تھا۔ ۱۸۷۸ء میں سر سید احمد خاں میدانِ عمل میں اُترے۔ جنگِ آزادی کے بعد سر سید پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی اصلاح اور مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو واپس لانے کے لیے ایک پُر امن‘ آئینی اور تعلیمی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’علی گڑھ تحریک‘‘ ہے۔ اسے عموماً ایک سیاسی اور تعلیمی تحریک سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت میں یہ ایک علمی و ادبی اور فکری تحریک بھی تھی‘ جس کے زیر اثر فکرونظر میں اہم انقلاب رونما ہوا۔سرسید کے افکار و نظریات نے ان کے زمانے کی تقریباً تمام تحریکوں کو متاثر کیا۔ اہلِ پنجاب نے بھی
آگے بڑھ کر لبیک کہا اور سر سید سے ’’زندہ دلانِ پنجاب‘‘ کا خطاب پایا۔
علی گڑھ تحریک کے آٹھ سال بعد ۱۸۸۴ء میں ’’انجمن حمایتِ اسلام‘ لاہور‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ علی گڑھ تحریک کا دائرہ محدود تھا۔ انجمن نے اس کام کو آگے بڑھایا اور بالخصوص اسلام اور اسلامی اقدار کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں وہ خدمات سر انجام دیں ‘ جو علی گڑھ تحریک انجام نہ دے سکی تھی۔ اس لحاظ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے ایشیا میں ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں ہوا‘ جس نے اسلام اور حمایتِ
اسلام کا بیڑہ اُٹھایا ہو۔ یہ فخر صرف انجمن حمایتِ اسلام کو حاصل ہے۔
مارچ ۱۸۸۴ء میں دہلی دروازہ‘ لاہور کے باہر ایک جلسے میں ایک پادری عیسائیت کی حمایت میں تقریر کررہا تھا۔ تقریر کے دوران میں اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں بعض نازیبا کلمات کہے۔ سامعین میں منشی چراغ دین بھی شامل تھے۔ اُنہوں نے پادری کی اس حرکت پر اُسے ٹوکا اور کہا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے‘ مگر اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین برداشت نہیں کر سکتا۔ مجمع میں زیادہ تر تعداد خاکروبوں اور موچیوں کی تھی‘ جو خوف اور لالچ میں عیسائیت قبول کر چکے تھے۔ اُنہوں نے دھکے دے کر منشی چراغ دین کو جلسے سے نکال دیا۔ مشی چراغ دین وہاں سے دل پر زخم کھا کر سیدھے منشی محمد کاظم کے مکان پر آئے اور یہ درد ناک واقعہ بیان کیا۔ مختلف مجالس اور بیٹھکوں میں اس واقعہ کو بیان کیا جاتا رہا اور بالآخر ۲۴ ستمبر ۱۸۸۴ء کو تقریباً ڈھائی سو افراد نے مسجد بکن خان‘ اندرون موچی دروازہ‘ لاہور میں انجمن حمایتِ اسلام کی بنیاد رکھی۔ ان افراد میں لاہور کے بعض بااثر اور بزرگ بھی موجود تھے‘ جن میں کچھ ناموں کے علاوہ مرزا ارشد گورگانی‘ مولوی احمد دین وکیل‘ منشی محبوب عالم جیسی ہستیاں بھی تھیں۔ جن کے ساتھ بعد ازاں علامہ محمد
اقبال کے گہرے مراسم قائم ہوئے۔
انجمن حمایتِ اسلام کے بنیادی مقاصد یہ تھے:
۱) عیسائیوں کی تبلیغ کا سدِ باب کرنا۔
۲) مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ایسے ادارے قائم کرنا ‘ جن میں قدیم و جدید دونوں قسم کے علوم کی تعلیم دی جائے۔
۳) مسلمانوں کے یتیم و لاوارث بچوں کے لیے ایسے ادارے قائم کرنا جن میں پرورش کے علاوہ ان کی تعلیم و تربیت بھی ہو۔
۴) اسلامی لٹریچر کی اشاعت۔
انجمن کے قیام میں سب سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ منشی چراغ دین نے کیا۔ انجمن کے قیام کے ساتھ ہی عہدیداروں کا انتخاب بھی کر لیا گیا۔ قاضی خلیفہ محمد حمید الدین صدر‘ مولوی غلام محمد قصوری دبیر اعلیٰ‘ منشی چراغ دین اور منشی پیر بخش نائب دبیران اور منشی عبدالرحیم خاں خازن منتخب ہوئے۔ پہلا دفتر حویلی سکندر خاں‘ واقع ڈبی بازار کے ایک کمرے میں کھولا گیا جو ڈھائی روپیہ ماہوار کرایہ پر حاصل کیا گیا
تھا۔ یہاں انجمن کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے۔
انجمن حمایتِ اسلام نے اپنی تعلیمی کوششوں کا آغاز دو پرائمری سکولوں سے کیا جو ۱۸۸۴ء میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اندرون موچی دروازہ قائم کیے گئے تھے۔ ۱۸۹۴ء تک مدارس کی تعداد پندرہ ہوگئی جہاں تعلیم کے علاوہ قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی پڑھائے جاتے تھے۔شہر لاہور کی مسلمان خواتین بھی خراجِ تحسین کی مستحق ہیں جو دونوں وقت آٹا گوندھنے سے پہلے مٹھی بھر آٹا انجمن کے نام پر مٹی کے برتن (چٹوری) میں ڈال دیا کرتی تھیں۔ یہ انوکھا طریقہ بانیانِ انجمن نے ایجاد کیا تھا۔ آٹا جمع کرنے والے تنخواہ دار ملازم یا رضا کار نہیں‘ بلکہ خود بانیانِ انجمن ہوا کرتے تھے۔ یہ ایک عجیب منظر تھا کہ انجمن کے قابلِ احترام بانی تھیلے اُٹھائے شہر کا چکر لگار ہے
ہیں اور گلی کوچے اس شعرسے گونج رہے ہیں:
آٹا پا چٹوری
صدقہ جان پیاری دا
۱۸۸۶ء میں کرائے کا ایک مکان حاصل کرکے ’’مدرسۃ المسلمین‘‘ کے نام سے ایک مردانہ سکول کی بنیاد رکھی گئی۔ شروع میں اس مدرسے کے طلبہ کی تعداد تیس تھی لیکن تین سال کے اندر اس نے انتی ترقی کی کہ ۱۸۸۹ء میں اسے ہائی سکول کا درجہ حاصل ہوگیا اور آئندہ تین سال یعنی ۱۸۹۲ء میں کالج کا۔ ۱۹۰۶ء تک یہ کالج اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ‘ لاہورمیں قائم رہا۔ پھر برانڈرتھ روڈ‘ لاہور پر ایک وسیع قطعۂ اراضی حاصل کرکے نئی عمارت تعمیر کیا گئی۔ افغانستان کے حکمران امیر حبیب اللہ خان نے لاہور تشریف لا کر اس کا سنگِ
بنیاد رکھا‘ چنانچہ کالج کا حبیبیہ ہال انہیں کے نام سے موسوم ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اسلامیہ کالج دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اسلامیہ کالج‘ ریلوے روڈ اور اسلامیہ کالج‘ سول لائنز۔ جبکہ طالبات کے لیے اسلامیہ کالج‘ کوپر روڈ‘ لاہور الگ قائم ہوا۔ تاریخ شاہد ہے کہ انجمن کی سرگرمیاں تحریک ِ پاکستان کو مسلسل تقویت پہنچاتی رہی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کا قیام انجمن کے مقاصد کی وسیع تر تکمیل ہے۔ پاکستان کا بنیادی تصور بھی وہی ہے ‘ جو انجمن
حمایتِ اسلام کا اوّلین مقصد ہے‘ یعنی حمایتِ اسلام۔
پاکستان کی بنیاد اسلامی اُصولوں پر ہی رکھی گئی تھی اور جس شخصیت نے اس آزاد اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا اُس کا نام علامہ محمد اقبال ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شخصیت ہمارے سامنے ایک مفکر کی حیثیت سے نمایاں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ گزشتہ صدی میں اسلامی دُنیا کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ اقبال نے اپنی فکر کو شاعری کے ذریعے ہی فروغ دیا ۔ اقبال جب ایف۔ اے کے بعد مزید تعلیم کے لیے لاہور تشریف لائے تو اس شہر میں اُنہیں وہ ماحول میسر آ گیا جس میں اُن کی صلاحیتیں اُجاگر ہوئیں۔ بھاٹی دروازہ کے بازارِ حکیماں میں ہونے والے مشاعروں میں اقبال نے بھی اپنے اشعار سُنانے شروع کیے۔ یہاں اقبال کی شعری عظمت کا اعتراف مرزا ارشد گورگانی جیسی شخصیت نے بھی کیا۔ دوسری طرف انجمن حمایتِ اسلام کے اسلامیہ کالج میں سر عبدالقادر جیسی شخصیت موجود تھی‘ جو وہاں نہ صرف پروفیسری کے عہدے پر فائز تھے بلکہ پنجاب آبزرور اور مخزن کے ایڈیٹر بھی تھے۔ اقبال کے ساتھ اُن کے روابط حکیماں والے بازار اور حکیم شہباز دین کی بیٹھک سے ہی قائم تھے۔ انجمن حمایتِ اسلام کے پلیٹ فارم سے ہی اقبال کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ انجمن کے پلیٹ فارم
پر آنے سے پہلے علامہ اقبال عوامی حلقوں میں غیر معروف تھے۔
مولوی محبوب عالم (مدیر پیسہ اخبار) نے تجویز پیش کی تھی کہ اقبال سے انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس میں نظم پڑھوائی جائے۔ علامہ اقبال نے سب سے پہلے اپنی نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ انجمن حمایتِ اسلام کے اجلاس میں مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۰ء میں پڑھی۔ یہ انجمن کا پندرھواں سالانہ اجلاس تھا جو ۲۳ فروری تا ۲۵ فروری ۱۹۰۰ء کو منعقد ہواتھا۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ان دنوں ایک انگریزی لیکچر انجمن کے جلسوں کا مستقل حصہ ہوتا تھا۔ ’’شیخ محمد اقبال ۔ایم اے‘‘ کا نام پروگرام کمیٹی میں پیش ہوا اور یہ طے پایا کہ ان کو نظم کے لیے وقت دیا جائے۔ مولوی علی محمد جو انجمن کے ایک نہایت مخلص کارکن تھے اور سالانہ اجلاس سے متعلق لکھنے پڑھنے کا کام انجام دیا کرتے تھے‘ جب کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق پروگرام مرتب کرنے لگے تو یہ خیال کرتے ہوئے کہ انگریزی خواں نوجوان انگریزی میں ہی کوئی نظم پڑھے گا‘ اُنہوں نے ’’شیخ محمد اقبال‘‘ کے نام کے سامنے ’’انگلش پوئٹری‘‘ لکھ دیا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان دنوں انجمن کے عہدیداران میں بھی بعض کو گمان تک نہ تھا کہ جو شخص اپنی عمر میں پہلی مرتبہ انجمن کے سٹیج پر عوام کے سامنے آ رہا ہے‘ وہ تھوڑے ہی عرصہ میں اپنے لیے ایک بلند مقام پیدا کرلے گا۔’’نالۂ یتیم‘‘ کے نفسِ مضمون اور شاعر کے دلکش لہجے نے وہ سماں باندھا کہ حاضرینِ جلسہ ہمہ تن گوش تھے اور ان کی آنکھیں اشک بار۔ ساری محفل پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری تھی۔ یہ نظم سراپا سوز و گداز ہونے کے باعث اس قدر مقبول ہوئی کہ حاضرین نے اکثر بند باربار پڑھوائے جس کا نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے اشک فشانی کے ساتھ ساتھ زر افشانی بھی خوب کی۔ نظم
کے خاتمہ پر ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے فرمایا:
’’میں نے ان کانوں سے انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیے سنے مگر جس پایہ کی نظم آج سننے میں آئی اور جو اثر اس نے
میرے دل پر کای وہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا‘‘۔
یہ پہلا موقع تھا جب اقبال نے اتنے بڑے جلسے میں نظم سنائی۔ نظم کیا تھی؟ یتیم خانے کی مناسبت سے ایک یتیم بچے کی فریاد لکھنے کا فیصلہ کیا گیا جو پہلے حاضرین سے اپنا درد بیان کرے گا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضے پر فریاد کرے گا۔ نظم کے آخری حصہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم کی فریاد کے جواب میں اُمت سے خطاب کریں گے ۔ گویا نعت کی صنف میں ایک نئی طرح ڈالنے
کا اہتمام تھا۔
انجمن لاہور میں اِک حامیِ اسلام ہے
آسماں پر جس کا پیمانِ محبت نام ہے
جس کی ہر تدبیر تسکینِ دلِ ناکام ہے
جس کا نظارہ مرادِ چشمِ خاص و عام ہے
جمع ہیں عاشق مرے سب ہند و پنجاب کے
تو وہاں جا کر مری اُمت کو یہ پیغام دے
تھی یتیمی کچھ ازل سے آشنا اسلام کی
پہلے رکھی ہے یتیموں نے بناء اسلام کی
کَہ رہی اہلِ دل سے ابتدا اسلام کی
ہے یتیموں پر عنایت انتہا اسلام کی
تم اگر سمجھو تو یہ سو بات کی اِک بات ہے
آبرو میری یتیمی کی تمھارے ہات ہے
وہ بزرگ جنہوں نے غالب کا زمانہ دیکھا تھا جان گئے کہ اسد اللہ خاں نے دوسرا جنم لیا ہے اور پنجابی لباس پہنے اُن کے سامنے کھڑا
ہے۔ شیخ عبدالقادر بانگِ درا کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں:
’’کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا‘ جو اُردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا اندازِ بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادبِ اُردو کے فروغ کا باعث ہوں گے‘ مگر زبانِ اُردو کی خوش اقبالی دیکھیے‘ کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا۔۔۔لاہور میں جلسۂ حمایتِ اسلام میں جب اقبال کی نظم پڑھی جاتی ہے تو دس دس ہزار آدمی ایک وقت میں جمع ہوتے ہیں اور جب تک نظم پڑھی جائے لوگ دم بخود بیٹھے رہتے ہیں جو سمجھتے ہیں
وہ بھی محو اور جو نہیں سمجھتے وہ بھی محو ہوتے ہیں‘‘۔
ابتدا ہی سے علامہ اقبال کا دستور تھا کہ انجمن میں پڑھنے کے لیے جو نظم لکھتے اسے چھپوا لیتے تھے۔ نظموں کی چھپی ہوئی کاپیاں قدردان اصحاب جلسے ہی میں خاصی بڑی رقم دے کر خرید لیتے تھے۔ اس طرح انجمن کو معقول رقم ان مطبوعہ نظموں سے بھی مل جاتی تھی۔عام چندہ ان کے علاوہ تھا۔ اس جلسے کے بعد اقبال نے اپنی قومی نظموں کے لیے انجمن حمایتِ اسلام کے پلیٹ فارم کو ہی منتخب کیا۔ جس کا نتیجہ
یہ ہوا کہ آپ کی نظمیں انجمن کے سالانہ جلسوں میں لازم و ملزوم ہو گئیں۔
علامہ اقبال نے انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں جو نظمیں اور مضامین پڑھے اُن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۹۰۰ء ۔’’نالۂ یتیم‘‘
۱۹۰۱ء ۔’’ دردِ دل ‘‘یا ’’یتیم کا خطاب ہلالِ عید سے‘‘
۱۹۰۲ء ۔ ’’اسلامیہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘‘۔ ’’خیرمقدم‘‘۔ ’’دین و دُنیا‘‘۔’’زبانِ حال‘‘
۱۹۰۳ء۔ ’’ابر گہربار (فریادِ اُمت)‘‘
۱۹۰۴ء۔’’ تصویر درد‘‘
۱۹۰۸ء ۔ انگریزی لیکچر
۱۹۰۹ء ۔ انگریزی لیکچر
۱۹۱۱ء ۔ ’’شکوہ‘‘۔ ’’اصولِ تمدن‘‘ پر ایک عالمانہ لیکچر بھی دیا۔
۱۹۱۲ء۔ ’’شمع اور شاعر‘‘
۱۹۱۳ء۔ علالت کی وجہ سے نظم لکھ کر نہ لا سکے البتہ ایک فارسی نظم سنائی۔
۱۹۲۰ء۔ ’’ارتقاء‘‘۔ ’’مردِ آزاد‘‘
۱۹۲۲ء۔ ’’خضر راہ‘‘
۱۹۲۳ء۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘
۱۹۲۷ء۔ انگریزی لیکچر بعنوان "The Spirit of Islamic Culture"
۱۹۲۸ء۔ فلسفہ اسلام پر انگریزی میں تقریر کی۔
۱۹۲۹ء۔ مطالعہ قرآن کے موضوع پر خیالات کا اظہار کیا۔
۱۹۳۶ء۔ ’’نغمہ سرمدی‘‘ (لاالٰہ الا اللہ)
یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ روزنامہ زمیندار ۲۰ اپریل ۱۹۲۷ء کو یہ خبر صفحہ چار پر شائع کرتا ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے انگریزی لیکچر کے بعد اس کا اُردو خلاصہ بھی بیان کیا۔ اس جلسہ میں حاضرین کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی ۔ علامہ اقبال کے اس لیکچر سے متاثر ہو کر ایک عیسائی غلام مسیح نامی نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ ظاہر کیا چنانچہ سید سیلمان ندوی نے اسے مسلمان کیا۔یہی تقریر۱۹ اپریل
۱۹۲۷ ء کو انقلاب میں بھی شائع ہوئی۔
انجمن حمایتِ اسلام کے جلسوں میں اپنی نظمیں سنانے کے علاوہ بھی علامہ اقبال انجمن حمایتِ اسلام کے سرگرم رُکن رہے۔ ۱۲ نومبر ۱۸۹۹ء کو اُنہیں مجلس منتظمہ کا رُکن منتخب کیا گیا تھا۔ ۶ مئی ۱۹۰۰ء کے اجلاس میں اسلامیہ کالج میں بی اے کلاس جاری کرنے کی نسبت فیصلے پر غور کیا گیا اور اس ضمن میں علامہ اقبال کی قرارداد زیر بحث آئی۔ ۲۶فروری۱۹۰۵ء کو مجلسِ انتظامیہ برائے ۱۹۰۵ء کا انتخاب عمل میں آیا۔ علامہ اقبال رُکن منتخب ہوئے۔ ۱۶ مارچ ۱۹۰۵ء کو انجمن کی جنرل کمیٹی کا اجلاس ہوا‘ اس میں ایک پنج رکنی سب کمیٹی مقرر کی گئی اور علامہ اقبال اس کے رُکن منتخب ہوئے۔ ۲۴ جنوری ۱۹۰۹ء کو مجلسِ انتظامیہ کے ارکان سہ سالہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ علامہ اقبال اس کے رکن منتخب ہوئے۔ ۲۹اپریل ۱۹۱۰ء کو جنرل کونسل کے اجلاس میں صدر جلسہ نے سات افراد پر مشتمل ایک ثالثی مجلس مقرر کیے جانے کی تجویز پیش کی۔ علامہ اقبال کثرتِ رائے سے اس مجلس کے رکن منتخب ہوگئے۔ ۲۶جولائی ۱۹۱۰ کو کالج کمیٹی کا جو اجلاس منعقد ہوا تھا۔ اس میں علامہ اقبال سیکرٹری مقرر کیے گئے۔ ۱۱ ستمبر ۱۹۱۰ء کو جنرل کونسل کے اجلاس مین اقبال رُکن منتخب ہوئے۔ ۲۵ ستمبر ۱۹۱۰ء کو سب کمیٹی کے رُکن منتخب ہوئے۔ ۱۷دسمبر ۱۹۱۰ء کو کالج کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ ۱۷فروری ۱۹۱۲ء کو علامہ اقبال کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا۔ ۲ تا ۴ اپریل ۱۹۲۰ء کے ۳۵ ویں اجلاس میں اقبال آنریری سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ۳۱ جولائی ۱۹۲۲ء کو آپ نے بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر آنریری جنرل سیکرٹری سے استعفیٰ دے دیا۔ ۸ جولائی ۱۹۲۳ء کو آپ دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ نے تقریباً دس ماہ تک بحیثیت سیکرٹری خدمات انجام دیں اور ۲۴ مئی ۱۹۲۴ء کو مستعفی ہوگئے۔ مستعفی ہونے کے بعد آپ نے انجمن کو یقین دلایا کہ آپ اگرچہ انجمن کے عہدیدار نہیں رہے لیکن حسبِ سابق انجمن کی خدمت کرتے رہیں گے۔ جنرل کونسل نے آپ کا استعفیٰ منظور کرکے آپ کو دائمی صدر مقرر کر دیا۔یکم جولائی ۱۹۳۴ء کو علامہ اقبال کو انجمن کا صدر منتخب کیا گیا۔ یکم جولائی ۱۹۳۷ء کو صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوئے ۔ ۲۵ جولائی ۱۹۳۷ء کو حاجی رحیم بخش کی زیر صدارت آپ کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا۔ ۲۶دسمبر ۱۹۳۷ء کو انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ‘ لاہور نے ’’یومِ
اقبال‘‘ منانے کا فیصلہ کیا تو انجمن حمایتِ اسلام نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ انجمن کے سیکرٹر ی کی جانب سے باقاعدہ اعلان شائع ہوا:
’’مسلمان کا سب سے بیش قیمت سرمایہ یعنی ان کے مقدس مذہب کی حقیقت جو صدیوں کی روایات کے پردوں میں مستور تھی اقبال کے حیرتناک سوزِ قلب اور معرکہ خیز مساعی سے پھر نمایاں ہوتی ہے اور یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اقبال نے اپنی مسیحائی سے اسلام کے مردہ بدن میں ازسر نو روح پیدا کر دی ہے اور آج اسلام کے فرزندوں کے دلوں میں جوشِ عمل و ایمان کے جو ولولے اور ہنگامے پیدا ہورہے ہیں وہ بہت حد تک اس سوز
کا نتیجہ ہیں جو اس کی کتابِ زندگی کے ہر صفحہ پر لکھا موجود ہے‘‘۔
۲۶ دسمبر ۱۹۳۷ء کو منایا جانے والا ’’یومِ اقبال‘‘ بعض وجوہات کی بناء پر ملتوی ہوگای تو ۹ جنوری ۱۹۳۸ء کو یومِ اقبال منانے کا فیصلہ کیا گیا۔۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال انتقال فرماگئے تو ۲۵ اپریل ۱۹۳۸ء بروز سوموار بوقت ۶ بجے شام صدر دفتر انجمن میں نواب نثار
علی خان کی صدارت میں جنرل کونسل کا جو ہنگامی اجلاس منعقد ہوا‘ اس میں فیصلہ کیا گیا:
۔ریزولیوشن کی نقلیں مرحوم کے پس ماندگان اور اخبارات کو بھیجی جائیں۔
۔حمایتِ اسلام کا ایک ’’اقبال نمبر‘‘ نکالا جائے ۔ (جو بعد میں رشید اختر ندوی کی ادارت شائع ہوا)
۔ انجمن میں ان کی جلیل القدر و مدت العمر کی خدمات کے پیشِ نظر ان کی یادگار قائم کی جائے۔
غرض یہ کہ علامہ اقبال کا انجمن حمایتِ اسلام کے ساتھ مضبوط اور گہرا رشتہ قائم رہا۔ آپ نے نہ صرف انجمن کے جلسوں میں اپنی نظمیں سنائیں بلکہ انجمن کی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ انجمن کے مختلف اجلاسوں میں آپ کہ نہ صرف اعزازی رُکنیت دی جاتی بلکہ آپ کے مشوروں پر عمل در آمد بھی ہوتا۔ انجمن کے ساتھ آپ کے روابط اور دلچسپی کا اظہار آپ کے مکاتیب سے بھی بخوبی ہوتا ہے۔ یہ اعزاز بلاشبہ انجمن حمایتِ اسلام کو ہی حاصل ہے کہ علامہ اقبال نے اس کے سالانہ جلسوں میں اپنی شہرۂ آفاق نظمیں پڑھیں اور علامہ اقبال کی بدولت ہی انجمن حمایتِ اسلام کو لوگوں نے دل کھول کر عطیات دئیے۔ ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبا ل او ر انجمن حمایتِ اسلام دونوں ایک
دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے تھے۔ میرے خیال میں اگر علامہ اقبال کو ’’شاعرِ انجمن‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔