عصرِ موجود کے سقراط میرے آنِس معین
توبے کیا سوچ کے پیمانہ ٕ زہر آب پیا
مرگِ بے رحم نے یہ تجھ پہ نیا وار کیا !
طاقِ فردا میں جلانا تھا ابھی اور دیا !
تجھ کو معلوم نہ تھا
انتقامی ہے بہت وقت کا ہر لمحہ ٕ تلخ
تجھ کو معلوم نہ تھا
وقت قاتل بھی ہے سفاک بی جلاد بھی ہے
وقت نمرود بھی ہامان بھی شداد بھی ہے
اس کی سازش کا نشانہ بن کر
اور سقراطِ زمانہ بن کر
تو نے کیا سوچ کر پیمانہ ٕ زہر آب پیا
نٸی سوچوں کے ارسطو تیرا اسلوب قلم
عصرِ آٸندہ کا اک مخزنِ بے پایاں تھا
تو نہیں ہے تو ترے فکر کی کونپل کونپل
میرے آنگن کو مگر آج بھی مہکاتی ہے
آج تک پھیلی ہوٸی ہے ہر سو
تیرے گلدانِ غزل کی خوشبو
اے دھنک رنگ مصور تیرے گل بیز نقوش
اب آراستہ ہیں تیرے غزل خانے میں
تیرے ہر نقشِ مزّین میں ہے تصویر تری
دل گرختہ مجھے کردیتی ہے تحریر تری
مرے سر پر ہے ترا دست قلم
تیری سوچیں مری ہمسایہ ہیں
میری تخلیق کا سرمایہ ہیں