۷ جولائی ۱۹۱۴ء کو بری سال جو، اب بنگلہ دیش میں ہے، کے ایک متوسط خاندان میں انل بسواس کا جنم ہوا۔ ان کے والد کا نام جے۔ سی۔ بسواس تھا۔انل بسواس نے صرف چار برس کی عمر میں ہی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی پہلی استاد ان کی والدہ ہی بنیں اور وہ ایک اچھے طبلہ نواز بن گئے۔ جن دنوں انل بسواس اسکول میں تھے، تو گاندھی جی کی سول نافرمانی تحریک کا آغاز ہو چکا تھا، ایسے وقت میںانل بسواس رِولیوشنری پارٹی کے قریب آئے اورآزادی کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ اس دوران وہ چار بار جیل بھی گئے۔
اپنے والد جے۔سی۔ بسواس کے انتقال کے بعد ۱۹۳۰ء میں صرف سولہ برس کی عمرمیں ماں، بھائی اور بہن کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آگئی اور انل بسواس کلکتہ آگئے۔ شعور کی آنکھیں کھلتے ہی انل بسواس نے موسیقی سے اپنے آپ کو وابستہ پایا اور ساری زندگی اس وابستگی کو قائم رکھا۔ایک بار میگا فون کمپنی کے مالک جے۔ این۔ گھوش نے ان کا گانا سنا اور اپنی کمپنی کے لئے کام دے دیا۔یہاں ان کا کام گیت لکھنا اور موسیقی ترتیب دینا تھا۔ اس کمپنی سے ان کو ایک گانے کے صرف پانچ روپے ملا کرتے تھے۔
تھوڑے ہی عرصہ کے بعد انل بسواس رنگ محل تھیئٹر سے وابستہ ہو گئے اور وہاں انہوں نے اداکاری کے ساتھ گیت گانے اور آرکسٹرا سنبھالنے کا کام بھی کیا۔ رنگ محل تھیئٹر میں رہتے ہوئے ہی انل بسواس نے موسیقی کے اسرار و رموز سے واقفیت حاصل کی ، دادرا، ٹھمری اور خیال جیسے اہم فنون میں مہارت حاصل کی۔ رنگ محل تھیئٹر میں انھوں نے تین سال تک کام کیا۔ اسی دوران پتی ورتا اور مہانشا جیسے بنگالی ناٹکوں میں انھوں نے موسیقی ترتیب دی۔
کلکتہ کے دورانِ قیام انل بسواس کی ملاقات انقلابی شاعر نذرلاسلام سے ہوئی اور تقریباً ایک برس تک انھوں نے نذرلاسلام کے ساتھ کام کیا۔ بعد میں ہیرین بوس کے بلانے پر انل بسواس کلکتہ سے بمبئی آگئے۔ کیونکہ وہ کلکتہ سے آئے تھے اور وہاں انھوں نے ناٹکوں کے لئے موسیقی ترتیب دینے کا کام کیا تھا، اس لئے بمبئی میں ان کا اچھا استقبال ہوا۔ہندوستانی فلموںمیں موسیقی ترتیب دینے کی شروعات انل بسواس نے فلم بھارت کی بیٹی سے کی۔ لیکن انھوں نے اس فلم کے بارہ میں سے صرف تین گانوں کی موسیقی بنائی تھی۔ صحیح معنوں میں فلم بسنت ایسی پہلی فلم تھی جس میں انھوں نے مکمل موسیقی ترتیب دی۔ مگر کچھ وجوہات کی بنا پراس فلم کے ٹائٹل میں ان کا نام نہ دے کر ان کے دوست پنا لال گھوش کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد فلم زمیندار میں انھوں نے سنگیت دیا جو کافی مقبول ہوا تھا۔
۱۹۳۷ء میں فلمساز و ہدایت کار محبوب خان کے لئے انھوں نے پہلی بار موسیقی ترتیب دی اور ۱۹۴۲ء تک انل بسواس ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔ دونوں نے کئی اچھی فلمیں تیار کیں، جن کے گانے بہت پسند کئے گئے۔
نوجوانی کے دنوں میں انل بسواس انقلابی خیالات کے تھے اور اسکول کے دنوں میں ہی ان کا تعلق بنگال کی انقلابی تحریک جگانتر سے ہو گیا تھا۔ اسی لئے ۱۹۴۳ء میں بامبے ٹاکیز کی فلم قسمتمیں جب انھوں نے موسیقی ترتیب دی تو کوی پردیپ سے ایک انقلابی گانا… ’’دور ہٹو اے دنیا والوںہندوستان ہمارا ہے‘‘ لکھوا کر ریکارڈ کرایا تھا۔ تمام ملک میں اس گانے کی دھوم مچ گئی اور تحریک آزادی کے اس دور میں یہ گانا عوام میں بے حدمقبول ہوا تھا اور اسی گانے پر بنگال جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے انل بسواس کو بہترین موسیقار کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔
۱۹۴۲ء سے ہی انل بسواس نے بامبے ٹاکیز میں کام کرنا شروع کر دیاتھا۔ فلم اچھوت کنیا میں ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی پر دیویکا رانی کا گایا ہوا گیت… ’’میں بن کی چڑیا بن کے، بن بن ڈولوں رے‘‘ اس زمانے میں کافی مقبول ہوا تھا۔انل بسواس نے فلمی سنگیت کی دنیا کو بہت سے نئے گلوکاروں سے متعارف کرایا۔ ایک طرف انھوں نے بیگم اختر، راج کماری، زہرہ بائی امبالے والی اور پارول گھوش جیسی آوازوں کو موقع دیا تو دوسری طرف ستارہ دیوی جیسی ماہر رقاصہ سے بھی گانا گوا لیا۔ طلعت محمود، مکیش اور مینا کپور توان کے لئے مثال بن گئے تھے۔اس کے علاوہ سدھا ملہوترا اور سندھیا مکھرجی جیسی گلوکارائوں نے بھی انل بسواس کی ہدایت میں ہی اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ بہت سے گلوکاروں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز انل بسواس کی ہی ہدایت میں شروع کیا۔ گلوکار مکیش نے ۱۹۴۶ء میں فلم پہلی نظر کے گیت… ’’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘‘ کے ساتھ فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کے اس گیت میں کندن لعل سہگل کا اثر بہت زیادہ نمایاں تھا۔ بعد میں انل بسواس نے انہیں سمجھایا کہ اگر اچھا گلوکار بننا ہے تو کسی کے اثر میں نہ ا ٓئو بلکہ اپنا خود کا انداز اختیار کرو۔ اس کے بعد مکیش کا اپنا انداز بنتا چلا گیا۔
طلعت محمود کو انل بسواس نے پہلی بار فلم آرزو میں گانے کا موقع دیا تھا۔ ان کا پہلا ہی گانا…’ ’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو۔‘‘ اتنا مقبول ہو اتھا کہ لوگ آج بھی اس گانے کو گنگناتے ہیں۔ ابتداء میں طلعت محمود کی آواز میں ایک خاص قسم کی لرزش تھی جسے وہ شروع میں دبانے کی کوشش کر تے تھے مگر انل بسواس نے کہا کہ تم اس لرزش کو ہی اپنا انداز بنائو اور اسے دبانے کی کوشش نہ کرو۔ تب سے یہ مخصوص لرزش ہی طلعت محمود کی پہچان بن گئی۔
اداکارہ گلوکارہ ثریا نے فلم ہماری بات میںاپنا پہلا گانا… ’’بستر بچھا دیا ہے تیرے در کے سامنے‘‘ انل بسواس کی موسیقی میں ہی گایاتھا۔ فلم بسنت کی کامیابی کا سہرا پوری طرح انل بسواس کے سر بندھتا ہے۔ اسی طرح اس دور کی سب سے کامیاب فلم قسمت کا سنگیت بھی انل بسواس نے ہی تیار کیا تھا۔ حالانکہ یہ فلم اس دور میں چلنے والے موضوعات سے ہٹ کر تھی، اس لئے شروع میں تو ڈر تھا کہ فلم چلے گی بھی یا نہیں۔ فلم کی ناکامی کا مطلب تھا انل بسواس کے فلمی کیرئر کو زبردست جھٹکا لگنا، مگر فلم چلی اور خوب چلی۔ کلکتہ کے ایک سنیما ہال میں فلم قسمت لگاتار تین سال آٹھ ماہ تک چلتی رہی، جو اپنے زمانے کا عالمی ریکارڈ تھا اور اس بے پناہ کامیابی میں بھی انل بسواس کی موسیقی کو بے حد دخل تھا۔
فلمی موسیقی کو لے کر انل بسواس کے اپنے کچھ اصول تھے۔ وہ کسی دوسرے کی شرط پر موسیقی تیار کرنے کو تیار نہیں تھے۔ چھٹی دھائی کے آخر میں جب فلمی دنیا میں کالے دھن کی زیادتی کی وجہ سے اور سستی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کے سمجھوتے ہونے شروع ہو گئے تھے، تب انل بسواس کے لئے بمبئی میں ٹِکے رہنا مشکل ہو گیا اور وہ دہلی آگئے۔ اس کے بعد انھوں نے بمبئی کی صرف دو ہی فلموں میں موسیقی ترتیب دی۔ ایک فلم تھی موتی لعل کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور دوسری گرودت کی فلم سوتیلا بھائی۔ ان دونوں فلموں کے لئے انل بسواس کو بہترین موسیقی کے خصوصی انعام سے نوازا گیا۔
انل بسواس کو ایک ملال زندگی بھر رہا، وہ یہ کہ ان کی موسیقی میں کبھی نورجہاں اور کے۔ایل۔ سہگل نے گانا نہیں گایا تھا۔ ایک بار ایک فلم پر کام شروع ہوا تھا جس میں یہ تینوں ایک ساتھ ہو سکتے تھے۔ اس فلم کی ہدایت نورجہاں کے شوہر شوکت حسن رضوی کو کرنی تھی۔ مگر اسی دوران نورجہاں اور شوکت حسن رضوی کے درمیان اختلافات ہو گئے اور شوکت پاکستان چلے گئے۔ فلم کا کام وہیں رک گیا۔ اس کے بعد سہگل کے ساتھ کام کرنے کا موقع انل بسواس کو کبھی نہیں ملا۔
ایک بار انل بسواس روس کے دورے پر تھے۔ وہاں انھوں نے مقامی فنکاروں کو دیسی سازوں سے سمفنی بجاتے سنا۔ انھوں نے سوچا یہ تجربہ کیوں نہ ہندوستان میں کیا جائے۔ اس کے لئے انھیں ایک مضبوط پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ لہٰذا وہ بمبئی چھوڑ کر دہلی آگئے اور آکاش وانی سے وابستہ ہو گئے۔ دہلی آکر انھوں نے تقریباً بارہ برسوں تک آکاش وانی میں پروڈیوسر اور چیف پروڈیوسر کے بطور کام کیا اور یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو تقریباً سمیٹ لیا۔ نئی نسل کی بے تکی اچھل کود اور شور وغُل میں وہ اپنے آپ کو فٹ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ اس لئے دہلی کی ہی ایک کمپنی میں جنرل منیجر کے بطور خاموشی سے کام کرتے رہے اور اس طرح دہلی کے ہی ہوکر رہ گئے۔
دوردرشن کے پہلے ٹی۔ وی۔ سیریل ہم لوگ کی موسیقی بھی انل بسواس نے ہی ترتیب دی تھی۔ انل بسواس کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں بانسری کو خاص اہمیت حاصل تھی جو، ان کے لئے پنا لال گھوش بجایا کرتے تھے۔ اسی طرح فلمی موسیقی میں سیکسوفون کا استعمال سب سے پہلے انل بسواس نے ہی شروع کیا تھا۔ سیکسوفون ان کے لئے رام سنگھ بجایا کرتے تھے۔ فلمی موسیقی میں آرکیسٹرا کا استعمال بھی سب سے پہلے انل بسواس نے ہی کیا تھا جو بہت کامیاب رہا۔ انھوں نے فلمی موسیقی کو ناٹک اور اسٹیج کی موسیقی کے انداز سے الگ کرکے اپنی پہچان قائم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستانی راگ راگنیوں کا بھرپور استعمال انل بسواس کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ موسیقار اعظم کہے جانے والے نوشاد علی بھی انل بسواس کی دھنوں کے قائل ہیں۔
فلمی سنگیت کی دنیا میں میلوڈی کنگ کہلائے جانے والے موسیقار انل بسواس اپنی موسیقی کے ذریعہ الفاظ کو مفہوم دینے کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ موسیقی سے الفاظ میں روح پھونکی جا سکتی ہے۔
انل بسواس نے دو شادیاں کیں۔ ان کی دونوں بیویوں کا بھی ان کے فلمی کیرئیر میں قابل قدر تعاون شامل رہا ہے۔ ان کی پہلی بیوی اداکارہ آشالتانے انل دا کے ساتھ مل کر کئی یادگار فلمیں بنائیں، جن میں لاڈلی، بڑی بہن، اور ہمدرد کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے۔انل داکی دوسری بیوی مینا کپور ایک مشہور گلو کارہ رہی ہیں اور انل دا کے لئے ہی انھوں نے گلوکاری سے سنیاس لے لیا تھا۔
آکاش وانی سے ریٹائرمنٹ کے بعد انل بسواس ’’ دی انڈین ریکارڈ مینوفیکچرنگ کمپنی‘‘ کی دہلی کی شاخ کے منیجر کے بطور کام کررہے تھے۔ ۸۸ برس کی عمر میں ۳۰ مئی ۲۰۰۳ء کو دو ماہ کی لمبی بیماری کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے بیٹے اُتپل بھی میوزک ڈائرکٹر ہیں۔ انل دا کے نام سے مشہور بسواس کے خاندان میں ان کی بیوی مینا کپور، دو بیٹے اُتپل اور امیت، اور ایک بیٹی شکھا ہیں۔
“