انہونی کو ہونی کیا
Break through کا ترجمہ شاید انہونی کو ہونی کرنا ہی ہوتا ہو یا پھر نیا کام یا کچھ اور، ترجمہ چاہے جو بھی ہو روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ہیمبرگ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ شام میں جنگ بندی کا سمجھوتہ کرنے کو Break through کہا ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت آج یعنی 9 جولائی سے شام کے کچھ حصوں میں جنگ بندی ہو چکی ہے تاکہ عام آبادی کو جنگ زدہ علاقوں میں پھر سے بسنے یا کئی ناقابل رہائش علاقوں سے نکل جانے میں سہولت مل سکے۔
گذشتہ چند دنوں سے اس جنگ زدہ تاریخی شہر جس پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا ہوا تھا یعنی الیپو جسے حلب بھی کہتے ہیں، میں مکینوں کی واپسی کے مناظر بہت ہی خوشگوار اور کیف آگیں رہے،اگرچہ شہر کی ہو چکی تباہی اور ملبے کے ڈھیر دیکھ کر غم زدہ ہوئے بنا بھی نہیں رہا جا سکتا۔ اور تو اور وہاں اب تھیٹر نے بھی کام کرنا شروع کر دیا ہے جہاں پہلا کھیل محبت سے متعلق دکھایا جا رہا ہے یعنی رومیو جولیٹ۔
ولادیمیر پوتن نے کہا، یہ ایک انہونی کو ہونی کرنا تھی جو ہم نے امریکہ کے صدر کے ساتھ مل کر کی ہے۔ ہم نے طے کیا کہ ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیں گے جو غور کرے گا کہ کیا کیا جا سکتا ہے تاکہ عام لوگوں کے لیے سہولت ہو اور وہاں دہشت گرد پھر سے نفوذ نہ کر سکیں، جی ہاں یہ ایک "پراریو" یعنی بریک تھرو ہے۔
شام کے قضیے کو شروع ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں۔ کئی شہر ملیامیٹ ہو چکے ہیں۔ دہشت گردوں نے تاریخی یادگاروں کو برباد کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کی ہے۔ داعش نام کی دہشت گرد سپاہ کے خلاف کارروائی کا بیڑہ پہلے عرب ملکوں کے ساتھ مل کر امریکہ نے اٹھایا تھا۔ ترکی کی فضائیہ بھی ان کے ساتھ تھی۔ امریکی فضائیہ دہشت گردوں پر کتنے وار کرتی تھی، اس کے بارے میں زیادہ معلومات جاری نہیں کی جاتی رہیں تاہم امریکہ کی جانب سے پھینکا گیا اسلحہ جب دہشت گردوں کے ہاتھ لگا اور اسے میڈیا پر دکھایا گیا تب واضح ہو گیا کہ امریکہ دہشت گردوں پر فضائی وار کرنے کی آڑ میں شام مخالف مسلح گروہوں کی مدد کر رہا ہے۔ یوں شامی حکومت کے خلاف مسلح کارروائیوں کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے البتہ امریکہ نے موقف اختیار کیا کہ اسلحے کی متعلقہ کھیپ "اعتدال پسند" شامی باغیوں کے لیے تھی جو غلطی سے اس علاقے میں جا گری جس پر داعش والوں کا قبضہ تھا۔
بعد میں روس نے حکومت شام کی درخواست پر "حمیمی ایر بیس" پر اپنی فضائیہ تعینات کی اور داعش و جبہۃ النصرہ و دیگر دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر تابڑ توڑ اور مسلسل بم داغنے شروع کیے۔ نہ صرف یہ کہ روسی فضائیہ کے بمبار اور لڑاکا شامی فضائیہ کے ساتھ اس کارروائی میں شریک ہوتے رہے بلکہ بہت دور سمندر سے بھی بحری جہازوں اور آبدوزوں سے شام میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغے جاتے رہے اور روس سے اڑ کر بہت اونچائی پر پرواز کرنے والے سٹریٹیجک بمبار طیاروں نے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں حصہ لیا۔
روس کی وزارت دفاع شام میں کی جانے والی بمباری کی مسلسل مانیٹرنگ کرتی رہی۔ ماسکو میں اطلاعاتی مرکز قائم کیا گیا جہاں تعینات میجر جنرل روزانہ بنیاد پر وڈیو کی مدد سے مقانمی و غیر ملکی صحافیوں اور بعض اوقات سفارتکاروں کو بھی بریفنگ دیتے رہے۔ تاہم مغرب بھرپور پروپیگنڈہ کرتا رہا کہ روس معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور "اعتدال پسند" حکومت مخالف قوتوں پر بمباری کر رہا ہے۔ یہ منطق بحر طور ناقابل فہم رہی کہ حکومت مخالف باغی کیونکر "اعتدال پسند" ہو سکتے ہیں۔ روس ان سب الزامات کو مسترد کرتا رہا۔ روس کا المیہ یہ ہے کہ اطلاعاتی میدان میں ہمیشہ کمزور رہا ہے۔ انگریزی اور دوسری زبانوں میں بہت کم ذرائع ہیں جو استعمال کیے جاتے ہیں، ویسے بھی دنیا بھر کے میڈیا پر مغربی میڈیا کی چھاپ ہے۔ باوجود اپنے موقف کو بہتر طور پر پھیلانے سے قاصر رہنے کے روس ڈٹا رہا۔ ساتھ ساتھ شام کے مسلح دستوں نے ایرانی رضاکار دستوں کے ساتھ مل کر کمزور ہو چکے دہشت گردوں سے بہت سے علاقے جن میں چند بڑے شہر بھی ہیں آزاد کرا لیے۔
گذشتہ دنوں جب صدر امریکہ سعودی عرب کے دورے پر گئے اور ان کے وہاں سے رخصت ہو جانے کے بعد چار عرب ملکوں نے قطر کا مقاطعہ کر دیا تو لگنے لگا تھا جیسے ترکی اور ایران کی جانب سے قطر کی مدد کیے جانے کی حامی بھرنے سے شام میں حالات زیادہ خراب ہونگے لیکن یہ ولادیمیر پوتن کی فراست اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی معاملہ فہمی ہے کہ انہوں نے شام میں جنگ بندی کرنے جیسا بڑا اقدام لیا۔
اس انہونی کو ہونی کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر روس ولادیمیر پوتن نے بتایا کہ ہم شام کے معاملے میں اردن سے اور اسرائیل سے مذاکرات کرتے رہے ہیں اور کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل سے پھر مشاورت کریں گے تاکہ امن قائم کیے جانے میں پیش رفت ہو۔
جنگ یا لڑائی مسئلوں کا حل نہیں ہوا کرتے بلکہ ان سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ جنگ یا لڑائی زود یا بدیر ختم کرنی پڑتی ہے۔ ہمیشہ مذاکرات ہی وہ واحد ذریعہ رہے ہیں جس سے مفاہمت کی راہ نکلتی ہے اور مسئلے جیسے بھی ہوں ان کا اگر مکمل نہیں تو جزوی حل کیا جانا ممکن ہو پاتا ہے۔ مذاکرات کی بنیاد ڈالنے کی غرض سے پہلا قدم تو لینا ہی پڑتا ہے جو دنیا کی دو بڑی قوتوں کے سربراہوں نے لے لیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب ہونی ہونے میں یعنی امن قائم کیے جانے میں مدد ملنے کا آغاز انجام کی جانب بڑھنا شروع ہو جائے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“