برطانوی حکومت نے اپنے 50 پونڈ کے نوٹ پر ایک مسلمان خاتون نور عنایت خاں کی تصویر چھاپنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے ہم لوگوں نے مہم بھی چلائی ہے کہ کسی مسلمان خاتون کا برطانوی روایت کا حصہ بننا ایک تاریخی امر ہوگا .رشتے میں ٹیپو سلطان کی یہ پڑپوتی جنگ عظیم کے دوران فرانس میں انگریزوں کی جاسوس تھی اور صرف 30 سال کی عمر میں ماری گئی تھی.
کچھ دوستوں نے سوال کیا ہے کہ کیا وہ واقعی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی تھی، تو اس کا جواب ڈھونڈتے ہوئے انتظار حسین کا یہ کالم ہاتھ آیا ہے، جوانہوں نے چھ سال پہلے نور کو ایک اور اعزاز ملنے کے موقع پر لکھا تھا :یہ لڑکی نور عنایت کون تھی؟
لندن کے”گارڈین “میں شائع ہونے والا ایک کالم ابھی کل پرسوں”ڈان“ کے مضمون میں دہرایاگیا ہے۔ اس میں ایک مسلمان بی بی نور عنایت کا ذکر ہے جو دوسری عالمی جنگ میں فرانس میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نازیوں کی زد میں آ گئی اور بالآخر ان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئی۔اس وقت اس کی عمر تیس سال تھی۔اسے جارج کراس کا تمغہ تو پہلے ہی مل چکا ہے۔اب خبر یہ ہے کہ لندن کے گولڈن اسکوائر میں اس کا مجسمہ نصب کیا جائے گا۔18نومبر کو یہ تقریب ہو گی اور پرنسس این اس کی نقاب کشائی کریں گی۔
اس کالم میں اس کے حسب نسب کے بارے میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ وہ ایک بزرگ عنایت خان کی صاحبزادی تھی۔ یہ بزرگ صوفیا کے کسی سلسلے سے منسلک تھے اور یہ کہ یہ بہت خاموش لڑکی تھی اور فرانس میں جنگی مشن پر جانے سے پہلے وہ اپنے گھر کے قریب کے پارک میں بنچ پر بیٹھی کتاب کے مطالعہ میں غرق نظر آتی تھی۔ جو بتانے کی باتیں تھیں وہ تو اس کالم میں بتائی ہی نہیں گئیں۔ یہ بی بی اصل میں سلطان ٹیپو کی پڑپوتی تھی۔شعر و افسانے سے اسے بہت شغف تھا۔کہانیاں لکھتے پڑھتے اسے مہاتما بدھ کی جاتکوں تک رسائی ہوگئی اور ان جاتکوں سے اسے اتنا شغف ہوا کہ اس نے منتخب جاتکوں کو انگریزی میں منتقل کرکے ایک مجموعہ مرتب کر ڈالا۔ہماری ان معلومات کا ماخذ آصف فرخی کی تحقیق ہے۔جاتکوں کا یہ انگریزی مجموعہ ان کے ہاتھ لگ گیا۔پھر اس کے بارے میں لکھی گئی ایک کتاب بھی نظر سے گزری۔اس طرح اس بی بی کی تفصیلات ان کے علم میں آئیں۔انہوں نے ہم سے اس قصے کا ذکر کیا۔ہم نے کہا کہ سبحان اللہ، سلطان ٹیپو شہید کا مہاتما بدھ سے کہاں جا کر اور کس رنگ سے ٹانکا ملا ہے۔ ارے اس مجموعہ کو اردو میں ڈھالو اور اس قصے کو قلمبند کرو۔سو انہوں نے یہ کام جھٹ پٹ انجام دیا۔ اب وہ مجموعہ زیر طباعت ہے، مگر کراچی میں اس کی اشاعت سے پہلے ہی اس کی تعارفی تقریب ہو گئی، جہاں ہم بھی موجود تھے۔
اب سنئے کہ یہ کہانی مختصراً یوں ہے کہ سلطان ٹیپوکی شہادت کے بعد باقی اولاد پر جو گزری وہ قصہ الگ ہے، مگر سلطان کی ایک بیٹی بھی تھی جو اس وقت چودہ برس کی تھی۔سلطان شہید کے دو وفادار خادموں نے خفیہ طریقے سے محل سے اسے نکالا اور سر نگاپٹم سے میسور لے گئے۔ ّوہاں اس کی اس احتیاط کے ساتھ پرورش ہوئی کہ کسی کو اس کے حسب نسب کا پتہ نہ چلا۔وہاں ایک نامور موسیقار کا گزر ہوا،جسے راجہ کے دربار سے بہت انعام واکرام ملے۔کسی صورت اس لڑکی کی شادی اس موسیقار سے ہوگئی جس کا نام مولابخش تھا۔مولا بخش کو جب اصل صورت حال کا پتہ چلا تو وہ میسور سے نکلا اور بڑودہ میں آن بسا۔وہاں اس نے جو موسیقی کی ایک تربیت گاہ قائم کی تو اس تربیت گاہ میں پنجاب کے ایک نوجوان رحمت علی خان نے داخلہ لے لیا۔ادھر مولا بخش کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہو چکی تھی اور اب اچھی خاصی بڑی ہوگئی تھی۔اس لڑکی ( سمجھ لیجئے کہ ٹیپو سلطان کی نواسی) خدیجہ بی بی کی شادی رحمت علی خان سے ہوگئی۔خدیجہ بی بی کی جلدی ہی گود ہری ہوئی اور وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔اس بیٹے کا نام عنایت خان تھا۔اس نے موسیقی کی تعلیم باپ سے لی اور تصوف میں فیض سید ہاشم مدنی نام کے ایک بزرگ سے حاصل کیا۔ یہ 1910ءکی بات ہے کہ عنایت خان امریکہ چلے گئے۔وہاں موسیقی کے چکر میں ایک نوجوان خاتون سے ملاقات ہوئی جو ان پر ریجھ گئی۔جلد ہی شادی بھی ہوگئی۔پھر ان کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی،جس کانام نور النساءرکھا گیا۔یہی نور النسا آگے چل کر نور عنایت خان کے نام سے جانی گئی۔
نور عنایت خان کو انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں بہت مہارت تھی۔دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں وہ لندن میں تھی۔عنایت خان توصوفی مست بن کر دلی چلے گئے تھے۔وہیں مرکز نظام الدین اولیاءکی درگاہ میں جگہ پائی۔
نور کی تربیت تو صوفیانہ فضا میں ہوئی تھی۔مزاج بھی صوفیانہ ہی پایا تھا، مگر جنگ کے زمانے میں اسے فوجی جاسوسی کے ادارے میں کام کرنا پڑا۔اس ادارے نے اسے ایک خاص مشن پر فرانس بھیج دیا جو اس وقت نازیوں کے تصرف میں تھا۔وہاں اس نے اپنے فرائض بڑی جانفشانی سے انجام دیئے، مگر ایک وطن فروش فرانسیسی جاسوس نے نازیوں سے اس کی جاسوسی کی۔یوں وہ نازیوں کی قید میں آ گئی، مگرجبروتشدد کے باوجود اپنے فرانسیسی ساتھیوں کا پتہ بتانے اور باقی رازوں سے پردہ اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔پھر جرمن گسٹاپو اسے زندہ کیسے چھوڑ دیتی۔موت کے گھاٹ اتر گئی۔
قصہ کہانی سے جو نور کو شغف تھا، اس کے زیر اثر اس نے بچوں کے لئے کہانیاں لکھیں جو مقبول ہوئیں۔ شاید اسی حوالے سے اس کا تعارف مہاتما بدھ کی جاتک کہانیوں سے ہوا اور ان کہانیوں نے اس طرح اس کے دل میں گھر کیا کہ پھر اس نے ان کہانیوں سے اپنی پسند کا ایک انتخاب کیا، انہیں انگریزی زبا ن کا جامہ پہنایا۔ یہ مجموعہ 1939ءمیں لندن سے شائع ہوا۔
نورالنساءنے باپ سے جو تصوف کی تعلیم پائی تھی،شاید یہ اس کا اثر تھا کہ جاتک کتھاﺅں سے اسے اتنا شغف ہوگیا اور بدھ تعلیمات میں اسے بہت معنی نظر آنے لگے۔ اس کی منتخب جاتکوں میں ایک جاتک ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری آزمائشی زمانے میں وہ گویا اسی کے رنگ میں بسرکررہی تھی۔ یہ کتھا اس طرح ہے کہ ایک باغ میں بسیرا کرنے والے بندراس طرح گھر گئے تھے کہ وہاں سے بچ کر نکل جانا ان کے لئے محال نظر آرہا تھا۔تب اس بندر نے جو ان کا گرو تھا،ان کی نجات کی ایک ترکیب سوچی۔باغ کی ایک عقبی حد پر ایک گھنا درخت تھا جس کی شاخیں عقب میں بہتی ہوئی گنگا پر دورتک پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسرے کنارے پر ایک ایسا ہی گھنا درخت تھا جس کی شاخیں دریا پر پھیلتے پھیلتے اس درخت کے قریب آ گئی تھیں۔ بس بیچ میں تھوڑاساکھا نچارہ گیا تھا۔گروبندر نے بندروں سے کہا کہ میں اس طرح پٹ لیٹوں گا کہ میرا سرادھر کے درخت کی شاخ پر ہوگا اور ٹانگیں گنگا پار کے درخت کی شاخوں پر ہوں گی۔تم باری باری مجھ پر سے گزرتے ہوئے گنگا پار والے درخت پر کود جانا۔
سب بندروں نے ایسا ہی کیا اور صحیح سلامت گنگا پاراتر گئے، مگر ان بندروں میں ایک بندر گرو کی جان کا بیری تھا۔وہ جان کر اس زور سے اس پر کودا کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی۔اتنے بندروں کے گزرنے سے گرو کا حال تو پہلے ہی پتلا ہوگیا تھا۔ اب سچ مچ اس کی جان پر آ بنی۔اس نے بس جلدی ہی جان دے دی۔
مہاتما بدھ نے یہ جاتک سنا کر کہا کہ وہ گروبندر میں تھا۔مَیں نے ان کی جان بچاتے بچاتے اپنی جان دے دی۔خیر کوئی بات نہیں۔ پھر مَیں نے بندر کے جنم سے رہائی پائی اور اگلے جنم میں چلا گیا۔
نورالنساءنے بھی تو نازیوں کے پھندے میں پھنس کر یہی کیا۔نازیوں کو اپنے کسی ساتھی کا پتہ نہیں دیا۔ان کے عوض اپنی جان پر کھیل گئی۔
ہندوستان کی ایک خاتون شرابنی باسو نے نور پر ایک پوری کتاب ”جاسوس شہزادی“ کے عنوان سے لکھی ہے۔آصف فرخی نے یہ ساری تفصیلات اپنے دیباچہ میں اسی کتاب سے مستعارلی ہیں۔ وہاں بتایاگیا ہے کہ جب آخر میں نازیوں نے اس پر ہلہ بولا تو فرانسیسی زبان میں اس نے آزادی کا نعرہ لگایا ۔اس کے ساتھ ہی ایک گولی نے اس کا کام تمام کیا
نورالنساءنے اگر فرانس کی خدمت انجام دی تو یہ اس کی خاندانی روایات کے عین مطابق تھا۔ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے مقابلہ میں فرانس ہی سے تورفاقت کا رشتہ قائم کیا تھا۔ باقی برطانیہ کی جو خدمت انجام دی اسے تاریخ کی بوالعجبیوں میں شمار کرنا چاہیے۔