انگریز استعمار نے اس خطے کے لوگوں سے سب سے بڑا، دیرپا اور بھیانک بدلہ علی گڑھ یونیورسٹی کی شکل میں لیا۔
اس ادارے نے ایک ایسی پود تیار کی جو علی گڑھ سے نکل کر سول سروس میں آئے اور پھر کبھی دوبارہ انسان نہیں بنے۔
آزادی کے بعد بھی یہ مخلوق دونوں طرف قابض ہو گئی اور دونوں مُلکوں کا حشر نشر کر دیا۔۔مطلب اچھے بھلے لوگ سول سروسز اکیڈمی میں داخل ہوتے ہیں اور ایسے زومبیز بن کر نکلتے ہیں جنکو اپنے ہی لوگوں، ثقافت، رہن سہن سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ پوری سروس انہی لوگوں سے انتقام لیتے گُزار دیتے ہیں۔
سول سٹرکچر انگریزوں کا تشکیل دیا ہوا ہے جو کہ اُنکے غاصبانہ قبضے کو طول دینے اور مزاحمت کو کُچلنے کے لیے، لوگوں کو ذہنی طور پر بانجھ بنانے کے لیے تھا۔
ماشاءاللہ سے ستر سال بعد بھی بارڈر کے دونوں اطراف وہ سٹرکچر اُسی سلیبس کے ساتھ پوری شدومد کے ساتھ چل رہا ہے۔۔اور پھر دعوی بھی ہے کہ ہم آزاد مملکت ہیں۔
کانگریس کے لیڈر ششی تھروور نے اس پر بہت بہترین تحقیق کر کے کتاب لکھی ہے۔۔اس کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے انگریز استعمار نے اس خطے کو مالی،ذہنی طور پر کھوکھلا کیا۔
ایک واقعے میں بنگال کے کپڑے کی صعنت سے وابستہ ہنرمندوں کے انگوٹھے کٹوا دئے گئے تا کہ ہندوستان کی کپڑے کی صعنت کو تباہ کیا جا سکے۔۔ایکسپورٹس پر پابندیاں لگا کر انگلش امپورٹس کو ڈیوٹی فری رعائتی ایکسس دی گئی تاکہ انگلینڈ کی اکانومی پھل پھول سکے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد اُنکے بنائے تمام قوانین کا جائزہ لیا جاتا۔۔۔سول سٹرکچر کو انگریز استعمار کی بجائے مُلکی ضروریات کے لحاظ سے ری سٹرکچر کیا جاتا۔۔مُلک کے عدالتی، تعلیمی نظام کو دوبارہ سے ری شیپ کیا جاتا۔۔لیکن آج تک مُلک انگریز کے بنائے عدالتی نظام، تعلیمی نظام، سول سروس سٹرکچر پر چل رہا ہے اور پھر بھی ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔
آپکا ہر ادارہ سول ہو یا ملٹری آپ میں سے ہی لوگوں کو چُن کر فرعون بنا کر آپ سے سر مسلط کر دیتا ہے۔۔جب تک یہ چلتا رہے گا صرف چہرے بدلیں گے اس مُلک کے حالات وہی رہینگے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...