پاکستان میں 75 زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان عربی اور فارسی کی روایت کا امین ہے۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے۔ لیکن ایک سروے کے مطابق گزشتہ 20 سال کے دوران انگلش میڈیم اسکولوں کے طلبہ کی تعداد میں 105 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلش میڈیم اسکولوں کے غیر معمولی فروغ کے باوجود ہمارے پانچویں جماعت کے 55 فی صد طلبہ درجہ دوم کے نصاب سے انگریزی کا صرف ایک فقرہ پڑھ پاتے ہیں۔ (دی نیوز 24 مئی 2020)
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں انگریزی کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب ہماری غلامانہ اور نوآبادیاتی ذہنیت ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے لیے انگریزی محض ایک زبان نہیں ہے بلکہ دو سو سالہ غلامی کے تجربے کا حاصل ہے۔ ایک زمانے میں سرسید اردو کے بڑے حامی تھے مگر پھر انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ اردو کیا عربی اور فارسی میں بھی کچھ نہیں رکھا۔ ’’ترقی‘‘ کرنی ہے تو انگریزی اور فرانسیسی سیکھو۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید کے لیے بھی انگریزی محض ایک زبان نہیں تھی بلکہ ایک نوآبادیاتی تجربہ تھی۔ انگریز ہمارے حاکم تھے اور انگریزی حاکموں کی زبان تھی۔ بدقسمتی سے یہ حاکم ترقی یافتہ بھی تھے۔ چناں چہ انگریزی کی کشش دو آتشہ ہوگئی۔ وہ دن اور آج کا دن ہے ہم انگریزی کے سلسلے میں غلامانہ ذہنیت کے حصار سے باہر نہیں نکلے۔ ہمیں لگتا ہے کہ انگریزی سیکھ کر ہم بھی اہل مغرب کی طرح ہوجائیں گے۔ ہم بھی ’’غلام‘‘ کے بجائے ’’آقا‘‘ نظر آنے لگیں گے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی سے ہماری مرعوبیت ہمیں زیادہ سے زیادہ غلام بنائے چلی جارہی ہے۔ ایک مسلمان انگریزی سمیت دنیا کی کسی بھی زبان سے نفرت نہیں کرسکتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں زبانوں کو اپنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سرسید انگریزوں اور ان کے پیدا کردہ طبقے نے انگریزی کو صرف زبان نہیں رہنے دیا بلکہ انہوں نے اسے غلامانہ ذہنیت کا مظہر بنادیا ہے۔ چناں چہ انگریزی کی تنقید ہماری بہت بڑی تہذیبی اور نفسیاتی ضرورت ہے۔
بلاشبہ انگریزی علم کی زبان ہے مگر ہمارے یہاں لوگوں کی عظیم اکثریت اسے علم حاصل کرنے کے لیے نہیں علم حاصل کرنے کا ’’تاثر‘‘ پیدا کرنے کے لیے سیکھتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انسان علم اسی زبان میں حاصل کرسکتا ہے جو اُسے آتی ہو اور پاکستان میں بمشکل ایک فی صد لوگوں کو انگریزی آتی ہے۔ ہمارے 55 فی صد طلبہ کا یہ حال ہے کہ وہ انگریزی کا ایک آدھ فقرہ پڑھ اور سمجھ پاتے ہیں۔ ہمیں انگریزی اخبار پڑھتے ہوئے 30 سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر ہمیں انگریزی اخبارات میں ایسے مضامین یا کالم شاز ہی نظر آتے ہیں جنہیں ’’عالمانہ‘‘ کہا جاسکے۔ انگریزی لوگوں کو ’’صاحب علم‘‘ بناتی تو انگریزی اخبارات میں عالمانہ تحریروں کی بھرمار ہوتی۔ پاکستان میں جو لوگ انگریزی فکشن کے ’’امام‘‘ سمجھے جاتے ہیں ان کی کتابیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ یہ اتنے سطحی، معمولی اور حقیر کیوں ہیں؟ ان کی کسی تحریر میں اس گہرائی کا دو فی صد بھی کیوں موجود نہیں جو قرۃ العین حیدر، بیدی اور منٹو کے افسانوں میں ملتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کم از کم ہمارے یہاں انگریزی ابھی تک علم پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بنی ہے۔ سرسید کے علی گڑھ کالج سے طلبہ کا جب پہلا بیچ نکلا تو سرسید یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان طلبہ کو انگریزی لباس پہننے اور انگریزی بولنے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ مگر ہمارے یہاں تو انگریزی میڈیم کے اکثر طلبہ کو انگریزی بولنی بھی نہیں آتی۔ البتہ وہ انگریزی لباس زیب تن کرنے کی ’’اہلیت‘‘ کے حامل ضرور ہوتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کچھ عرصہ پہلے زبیدہ مصطفی نے روزنامہ ڈان میں لکھا تھا کہ وہ ایک انگریزی میڈیم اسکول میں گئیں اور طلبہ سے فرمائش کی کہ وہ انہیں انگریزی میں کہانی سنائیں۔ زبیدہ مصطفی کے بقول دوچار طلبہ کے سوا کسی نے انگریزی میں کہانی نہ سنائی۔ تھوڑی دیر بعد زبیدہ نے انگریزی میں کہانی سنانے کی شرط ختم کردی۔ انہوں نے طلبہ سے کہا کہ وہ چاہیں تو اردو میں بھی کہانی سنا سکتے ہیں۔ زبیدہ مصطفی کے بقول اردو میں گفتگو کی اجازت ملتے ہی کلاس روم میں گفتگو کا سیلاب آگیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اردو ہمارے طلبہ کی عظیم اکثریت کے لیے ’’اظہار ذات‘‘ کا ایک وسیلہ ہے اس کے برعکس ہمارے طلبہ کی عظیم اکثریت کے لیے انگریزی اظہار، ذات کیا ’’اظہار بد ذات‘‘ کا ذریعہ بھی نہیں ہے۔ ہم دو سو سال سے انگریزی پڑھ رہے ہیں مگر ہم نے آج تک نہ انگریزی میں کوئی بڑا مفکر پیدا کیا ہے، نہ بڑا مفسر پیدا کیا ہے، نہ بڑا شاعر پید اکیا ہے، نہ بڑا ناول نگار پیدا کیا ہے، نہ بڑا افسانہ نگار پیدا کیا ہے، نہ بڑا نقاد پیدا کیا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہمارے یہاں انگریزی علم کی زبان کہلاتی ہے۔
انگریزی کی مقبولیت کا ایک سبب یہ ہے کہ اسے ’’تہذیب کی زبان‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے نہ انگریز مہذب تھے اور نہ ان کے پیدا کردہ مقامی انگریز مہذب ہیں۔ انگریز مہذب ہوتے تو وہ نسل پرست نہ ہوتے، رنگ پرست نہ ہوتے، وہ غلاموں سے بدترین سلوک کرنے والے نہ ہوتے، وہ غلاموں سے ان کا مذہب، ان کی تہذیب اور ان کی زبان نہ چھینتے۔ انگریزوں کے پیدا کردہ انگریزی دان یا مقامی کالے انگریزوں کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ اپنی ہی قوم کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ہندوستان اور امریکا کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار تانتے ہیں۔ یہ اپنی ہی قوم سے ملنا پسند نہیں کرتے، ان کے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، کلب اور جیم خانے الگ ہیں۔ کیا تہذیب ایسی ہی ہوتی ہے؟ تہذیب یہ ہوتی ہے کہ کسی عربی کو عجمی یا عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں۔ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ برتری کی بنیادیں صرف دو ہیں۔ تقویٰ اور علم۔ غلام تقوے اور علم میں آگے بڑھ جائے تو آقا سے بہتر کہلائے۔ کالا تقوے اور علم میں کمال پیدا کرے تو گورے اس کے آگے احترام سے سرجھکائیں۔
انگریزی کی مقبولیت کا ایک سبب یہ ہے کہ انگریزی سے بہتر روزگار حاصل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انگریزی کا کوئی مدمقابل ہی نہیں لیکن کیا روزگار انسان کی پوری زندگی ہے، اس کی پوری تہذیب ہے، اس کی پوری تاریخ ہے؟ یہ حقیقت راز نہیں کہ انگریزی نہ ہمارے مذہب کی زبان ہے نہ تہذیب کی زبان ہے نہ تاریخ کی زبان ہے نہ ہمارے علم کی زبان ہے نہ ہمارے ادب کی زبان ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے ماحول کی زبان بھی نہیں ہے۔ ہمارے لوگوں کی عظیم اکثریت نہ انگریزی میں سوچتی ہے، نہ محسوس کرتی ہے، نہ خواب دیکھتی ہے۔ ان حقائق سے ہم جان سکتے ہیں کہ ہمارے درمیان دو سو سال گزارنے کے باوجود بھی انگریزی ہمارے لیے اجنبی کیوں ہے۔
لوگ کہتے ہیں اردو پاکستان میں صرف 7 فی صد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ ضرور ہوگی مگر اردو ہمارے مذہب کی زبان ہے۔ ہماری تہذیب کی زبان ہے، ہمارے مشترکہ تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی زبان ہے، اردو ہماری تخلیقی زبان ہے، اردو ہمارے ماحول کی زبان ہے۔ چناں چہ اردو جن لوگوں کی مادری زبان نہیں ہے وہ بھی اہل زبان کے برابر بلکہ بسا اوقات ان سے اچھی اردو جانتے ہیں۔ کوئی زبان جب مذہب کی زبان ہوتی ہے تو اس کے سیکڑوں الفاظ محض مذہب کی وجہ سے انسان کو آجاتے ہیں۔ کوئی زبان جب کسی تہذیب کی علامت ہوتی ہے تو اس کے درجنوں الفاظ بغیر سیکھے انسان کے حافظے کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کوئی زبان جب ماحول اور رابطے کی زبان ہوتی ہے تو اس کے بہت سے الفاظ خود بخود چل کر انسان تک آجاتے ہیں۔ اردو اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے پورے برصغیر کی زبان بنی ہے اور انگریزی انہی خوبیوں سے محرومی کی وجہ سے ہماری زندگی میں ایک اجنبی زبان کا کردار ادا کررہی ہے۔
زبان کا تخلیقی پہلو کسی فرد، گروہ یا قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمارے لیے انگریزی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انگریزی ہمارے لیے تخلیق کی زبان نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیق کی زبان وہی زبان بن سکتی ہے جس میں تفہیم کی راہ ہموار ہوتی ہو۔ انگریزوں نے ترقی کی ہے تو انگریزی کے ذریعے۔ فرانسیسیوں نے ترقی کی ہے تو فرانسیسی زبان میں۔ جاپانیوں نے ترقی کی ہے تو جاپانی زبان میں۔ روس نے ترقی کی ہے تو روسی زبان میں۔ چین نے ترقی کی ہے تو چینی زبان میں۔ ہم بھی اگر ترقی کریں گے تو اردو، پنجابی، سندھی، پشتو یا بلوچی زبان میں۔ اس لیے کہ یہی زبانیں ہمارے ظاہر اور باطن کی زبانیں ہیں۔ یہی زبانیں ہمارے مذہب، ہماری تہذیب اور ہماری تاریخ کی زبانیں ہیں۔ یہی ہمارے ماحول کی زبانیں ہیں۔ یہی ہمارے خوابوں کی زبانیں ہیں۔ اس سلسلے میں اردو کی فوقیت یہ ہے کہ اس کے پاس مذہبیات کا سب سے بڑا علمی سرمایہ ہے۔ اس کے پاس شاعری اور نثری اصناف کی سب سے زیادہ دولت ہے۔ اردو برصغیر کے مشترکہ تہذیبی اور تاریخی تجربے کو بیان کرنے والی سب سے بڑی زبان ہے۔ اردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ اردو ہمارے اجتماعی لسانی ماحول کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انگریزی اردو کا پاسنگ بھی نہیں ہے۔ البتہ ایک اہم زبان کی حیثیت ہمیں انگریزی ضرور سیکھنی چاہیے۔