انگوٹھا۔ ۔ ۔ میرا پسندیدہ جسمانی عضو
علم الابدان یعنی انیٹمی کے ماہرین کے مطابق انسانی جسم ایک کامل خودمختار مشین ہےجس کا ایک ایک کل پرزہ اپنی جگہ اہمیت وافادیت کا حامل ہے۔ مثلاً ٹانگیں پاجامہ، شلوار یا پتلون پہننے یا بیڈروم سے باہر بھاگنے کے کام آتی ہیں۔ پیٹ پر آزار بند یا پتلون کی بیلٹ باندھی جاتی ہے۔ حسین خواتین سے مڈ بھیڑ کی صورت میں سانس روکتے ہوئے اسے اندر کھینچ کر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ پھیپھڑے سگریٹ کا طویل کش لینے کے بعد کھانسنےمیں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ سر پر جمعہ کے روز سفید ٹوپی پہن کر محلّے میں پارسائی کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔ آنکھوں سے دیکھنے کے علاوہ پیغام رسانی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب میکانکی انجینئروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک دائمی کامل خودمختار مشین ایجاد نہیں ہوئی۔ ان کے مطابق ہر مشین کی مانند انسانی جسم میں بھی متعدد ایسے اعضا ہیں جو کبھی کبھار یا تو اپنا بنیادی مقصد پور انہیں کرپاتے یا اس کے علاوہ بھی کچھ غیر آئینی حرکا ت میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ صرف دماغ ہی کو لیجئے، سوچ، فہم، ادراک اور دانش کا محرک یہ عضوتمام عمر شعوری یا غیر شعوری طور پر انسانی جسم کی ان تمام سرگرمیوں کا ذمہّ دار ہوتا ہے جن کا اوّلین مقصد فرد کی فلاح، سلامتی، بہتری اور ترقی ہے۔ لیکن کچھ مواقع پر چوبیس گھنٹے چاک وچوبند و چوکس رہنے والا دماغ جیسا پیچیدہ عضو بھی اپنے فرائض سے سنگین غفلت برت جاتا ہے مثلاً جوانی، جوانی کی ڈرائیونگ، جوانی کا عشق، نکاح نامے پر دستخط، ادھیڑ عمری کا عشق، قومی انتخابات۔ ۔ ۔ کچھ سوالات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے سامنے قوی ترین دماغ قطعاً مفلوج ہو جاتا ہے، مثلاً " آ پ اتنی دیر کہاں تھے؟" یا پھر "آپ کے فون پر یہ نمبر کس کا ہے؟"
لیکن ان تمام مفید اعضا میں میرا پسندیدہ عضو انگوٹھا ہے۔ ظاہری طور پر بے ڈھنگا یہ عضو اکثر ہماری توجہ کا محور نہیں بن پاتا۔ اس کا عمومی استعما ل ہاتھ کے ایک حصّے کے طور پر یا انگلیوں کے ساتھ اشتراکی سرگرمیوں میں مفید ہونا پایا جاتا ہے۔ لیکن کھلے اور ٹھنڈے دماغ سے سوچا جائے تو انگوٹھا جسم کے کارآمد ترین اعضا میں سے ایک ہے۔
غور سے دیکھئے تو انگلیوں سے چھوٹا بے ڈھب قدرے بد شکل یہ عضو ابتدا ہی سے ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً ذرا یاد کریں کہ کیا انگوٹھے کی غیر موجودگی میں والد صاحب یا والدہ ہمارے کان کھینچ سکتے تھے ؟ نہیں۔ آج جومیرے کانوں کی لوَ کاندھوں کو چھوتی ہیں تو اس کے پیچھے بھی قاری صاحب کے دائیں انگوٹھے کا کمال ہے۔ سکول کالج یونیورسٹی کی سولہ سالہ تعلیم کے بعد بھی یہ تو معلوم نہ ہو سکا کہ ٹینٹوا جسم کے کس حصّے کو کہتے ہیں لیکن اسے دبانے میں بھی استادوں پروفیسروں کے انگوٹھوں کا ہی ہاتھ رہا۔ اس زمانے میں پھوپھی یا دادی اماّں سے پوچھتے کہ اماں کے انگوٹھے کے نیچے کیا ہے تو وہ جواب تو نہ دیتیں لیکن ان کی نگاہ فوراً اباّ کی جانب اٹھتی۔ انگوٹھا نہ ہوتا تو سکول کی استانیاں اور یونیورسٹی کی ہم جماعت لڑکیاں اپنے کانوں کے بندے یا ناک کی لونگ کو کیسے سنبھاتیں ؟ نہ سنبھالتیں تو میں امتحانوں میں اعلیٰ نمبروں سے پاس نہ ہوتا؟ بعد ازاں زندگی میں اپنے پہلے ہی انٹرویو میں ناکامی میں بھی دلفریب او ر نازک اندام انگوٹھے کی حامل ایک ایچ آر منیجر کا ہاتھ تھا۔ اگر وہ مجھے ہر سوال پوچھنے کے بعد اپنے مخروطی انگوٹھے سے اپنی گلابی ٹھوڑی کو سہلانے نہ لگتی تو آج اس بنک میں میرا کنٹری منیجر ہونا لازم تھا۔ بےتوجہی اور بے کلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
بہرحال اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔ نوکری بھی مل گئی اور پھر ایک ہی انگوٹھے کے چار پرتوں پر نشان کی بدولت شادی بھی ہو گئی۔ ایک ہی گاڑی کے دو متوازی پہیےّ ہونے کے بنا پر افہام و تفہیم سے اس امر کا کامل احاطہ کیا گیا ہے کہ کس مواقع پر کن لوگوں کے سامنے کس کے انگوٹھے کے نیچے کون پایا جائے گا۔ میرے دوست احباب اور خصوصاً آبائی گاؤں سے آنے والے رشتہ دار میری ازدواجی فتوحات سے مرعوب ہوتے ہیں۔ واپس گاؤں جاتے ہیں اور اپنے سالوں سے پٹتے ہیں۔
فطری طور پر انگوٹھا ایک سادہ اور منکسرالمزاج عضو ہے جو بے جا نمود ونمائش سے اجتناب برتتا ہے۔ مثلا دانتوں میں انگوٹھا دابا جائے تو کچھ بڑی بات نہیں۔ دوسری جانب دانتوں میں انگلی دابی جائے تو اسے "انگشت بدنداں" کہتے ہیں۔ اس حد تک کثیر الاستعمال ہے کہ اگر معصوم بچہ منہ میں انگوٹھا داب کر ماں کی جانب دیکھے تو ماں ممتا کی محبت سے بے حال ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اسی بچے کی قدرے غیر معصوم ماں ہونٹوں میں انگوٹھا داب کر شوہر کی جانب دیکھے تو شوہر کے بدحال ہونے کے امکانات قوی ہیں۔
انگوٹھا سیاسیات میں بھی ایک تاریخی مقام کا حامل ہے ۔ کتابیں بھری پڑی ہیں ایسی جدید اقوام ِ عالم سے جنہوں نے انگوٹھے پر سیاہی کے ایک داغ سے اپنا حال اور مستقبل سنوار دیا یا بگاڑ دیا۔ اس امر سے ریاضی دانوں نے یہ کلیہ اخذ کیا کہ انگوٹھے کی سیاہی اقوام کے مستقبل کی سیاہی سے راست متناسب ہے۔ جمہوریت سے پہلے ایسا کچھ نہ ہوتا تھا۔ بادشاہوں کے محلّات کے پہلو میں ایک گڑھے میں سینکڑوں ہزاروں انگوٹھوں کا ڈھیر لگا ہوتا۔ بادشاہ ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔ اختلافات سے نمٹنے کا ان کا اپنا ہی وطیرہ ہوا کرتا تھا۔ ان کے اپنے انگوٹھے البتہ سلامت رہتے تھے کیونکہ انہوں نے ٹوپیاں سی کر اپنے اہل واعیال کے نان نفقے کا اہتمام کرنا ہوتا تھا۔
معاشرتی روابط میں بھی انگوٹھا مختلف معاشرتوں میں مختلف طور پر اظہار ِ خیال کا حامل ہوتا ہے۔ مغربی سماج میں انگوٹھا دکھانا کسی امر کی قبولیت یا منظوری کا مظہر ہوتا ہے۔ سڑک پر کھڑے ہوئے آتی گاڑی کو انگوٹھا دکھانا سفر میں مدد مانگنے کا اشارہ ہے۔ تاہم اگر سڑک طویل اور سنسان ہو اور گاڑی میں صرف ایک نوجوان حسین اورمختصر لباس میں ملبوس خاتون موجود ہو تو اس پر ہالی وُڈ میں فلم بن سکتی ہے۔ مشرقی معاشروں میں ایسے انگوٹھا دکھانے کو "ٹھینگا" کہہ کر پکارتے ہیں اور اکثر ان کا نتیجہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا مختصر لباس والی امریکی ڈرائیور کا ہوتا ہے۔
طبّی لحاظ سے انگوٹھا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ناک کی صفائی سے لیکر سر درد کی صورت میں سر کو دبانا، ان تمام حالات میں انگوٹھا ناگزیر رہتا ہے۔ بچوں کے سروں سے جوئیں نکالنے اور انہیں انگوٹھے کے ناخن پر پچکنے میں انگوٹھے کی افادیت ثابت ہے۔ ختنے کرنے والے نائی سے لیکر اوپن ہارٹ کرنے والے سرجن تک سبھی انگوٹھوں کے دست نگرہیں۔ آپریشن کے بعد ٹانکے لگانے والی نرس کا انگوٹھا نہ ہو تا توتصوّر کریں مریض اپنی انتڑیوں پر سکاچ ٹیپ لگائے گھر لوٹتے کیسے لگتے۔
بازاروں میں موجود درجنوں ایسے پیشہ ور افراد ہیں کہ ہماری ازدواجی زندگیاں جن کے انگوٹھوں کی درست ساخت اور کارگزاری کی مرہون منت ہے۔ مثلاً مزید تفصیلات میں جائے بغیر محض مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تصوّر کریں، " آپ میرے درزی کے پاس نہیں گئے ؟"۔ ۔ ۔ " اور وہ جو میرے دوپٹّے جو پیکو والے کے پاس پڑے ہیں ؟"۔ ۔ ۔ " کیا مطلب ، رنگساز نے کپڑے نہیں دئیے ؟"۔ ۔ ۔
کھیلوں کی دنیا میں بھی انگوٹھا مختلف اشکال میں موجود ہے۔ فٹبال اور کرکٹ میچ کی ابتدا ٹاس سے ہوتی ہے۔ ایک لمحے کے لئے توقف کیجئے اور سوچئے کہ انگوٹھے کی غیر موجودگی میں کرکٹ اور فٹبال کے میچ کیسے شروع ہو سکیں گے؟ اگر فٹبال اور کرکٹ کے میچ نہ ہوتے تو ان کے ورلڈ کپ بھی نہ ہوتے۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ نہ ہوتا تو۔ ۔ ۔ خیر باقی آپ خود سمجھدار ہیں ۔ انگوٹھا اور اس پر نصب ناخن نہ ہوتا تو ہمارے "نسوار کی چٹکی" اور "ایرئیل ہُو ہُو" فیم ہیرو ملک و قوم کا نام کیسے روشن کرتے ؟ اگر محلّے کی نکڑ پر بیٹھے بوڑھے بزرگوں کے دانتوں کے ساتھ ساتھ انگوٹھے بھی نہ ہوتے تو وہ کیرم بورڈ یا تاش کی بازیاں کیسے لگاتے ؟ اگر یہ تمام بزرگ عمر کے آخری دنوں میں گلی میں کیرم بورڈ یا تاش کی بازیاں نہ لگاتے تو ملک میں بڑھاپے کی طلاقوں میں اضافہ نہ ہو جاتا؟ اب اسّی نوّے سال کے لڑکوں لڑکیوں کے لئے کہاں سے رشتے آتے ؟
تحریر : شوکت نواز نیازی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔