انگارے اور سرخاب
اگر آپ قاری ہیں، بالخصوص فکشن کے قاری، تو آپ کے لیے ان افراد کی زندگیاں جو فکشن تخلیق کرتے ہیں، دل چسپی اور توجہ کا محور بن جاتی ہیں کہ آپ ان زندگیوں میں اُن کرداروں کو کھوجنا چاہتے ہیں، جنھیں اُن تخلیق کاروں نے تراشا، آپ اُن کی سوانح عمری میں ان قصوں کی جھلک کے متلاشی ہوتے ہیں، جس پر انھوں نے اپنے بیانیوں کی بنیاد رکھی۔
گو اداس نسلوں کے قصہ گو عبداللہ حسین فکشن میں فکشن نگار کے سوانحی اثرکو پسندیدہ خیال نہیں کرتے تھے، مگر اپنی صحافتی زندگی کا ایک بڑا حصہ انٹرویو نگار کے طور پر صرف کرنے کے بعد میں اِس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ لکھنے والا، چاہے اوروں کی زندگی بیان کرے، اس میں اپنی زندگی شامل کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا۔
تو قاری کے لیے ان افراد کی زندگی بہت اہم ہوتی ہے، جو ادب تخلیق کرتے ہیں اور وہ مزید اہم ہوجاتی ہے، جب انھیں عرفان جاوید جیسا کوئی تخلیقی ذہن کا حامل قلمکار، جس کے الفاظ کے پیچھے ادب کا وسیع مطالعہ اورایک فکشن نگار کی جرات کارفرما ہوتی ہے، بیان کرے۔ جب عرفان جاوید ممتاز شخصیات کے خاکے لکھتے ہیں، تووہ فقط خاکے نہیں رہتے، دروازے بن جاتے ہیں، جن کے وسیلے آپ ان قلمکاروں کی زندگی میں جھانکتے ہی نہیں، بلکہ ان کا حصہ بن جاتے ہیں کہ اوروں کے برعکس (مجھ جیسوں کے برعکس) عرفان جاوید جم کر لکھنے والے ہیں، طویل مضامین، گتھے ہوئے، قابل مطالعہ۔
میرا موضوع عرفان کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ سرخاب ہے، جس کا ذکرکرتے ہوئے میں کافی کی وہ مہک محسوس کرسکتا ہوں، جوہم نے اُس خوشگوار سہ پہر پی۔ وہ ایک تکون تھی، عرفان جاوید، سیدکاشف رضا اور ہم۔ اور ’’چار درویش اور کچھوا‘‘ کے مصنف سید کاشف رضا کو یہ فکر ستاتی تھی کہ شاید اُس کے کپ میں بھی کافی تیارکرنے والے نے، منع کرنے کے باوجود، چینی ڈال دی ہے۔
’’سرخاب‘‘ میں آپ کو خالد حسن جیسا انوکھا لاڈلا اور پارو جیسی پروین شاکر ملے گی۔ استاد دامن، منٹو، جون ایلیا سے ملاقات ہوگی۔ منشا یاد، تصدق سہیل،گلزار، امجد اسلام امجد، محمد الیاس، ایوب خاور اور افتخار بخاری کی تصویر بھی عرفان نے تخلیقی ڈھب پر خوب کھینچی ہے۔گو یہ خاکے ایک موقر روزنامے میں قسط وار شایع ہوکر قارئین تک پہنچتے رہے ہیں، مگر کتاب کی صورت ان کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔
’’دروازے‘‘،جو عرفان جاوید کی پہلی کتاب ہے، سے ’’سرخاب‘‘ تک آتے آتے عرفان جاوید نے میرے اندر یہ خواہش جگا دی ہے کہ وہ تواتر سے یہ خاکے لکھتا رہے اور ہم مسلسل اسے پڑھتے رہیں۔ سنگ میل کی شایع کردہ اس کتاب کی قیمت 900 روپے ہے، جو کچھ زیادہ تو ہے، مگراس کے وسیلے جو قصے عرفان جاوید آپ کو سنانے والے ہیں، ان کے سامنے کچھ زیادہ نہیں۔
’’سرخاب‘‘کے ذکر بعد، اے پڑھے والے، ہم اپنی توجہ’’انگارے‘‘پر مرکوز کرتے ہیں۔ ایک ناول پر، جو ہنگری کے فکشن نگار شاندور مارئی کی تخلیق ہے اور عظیم روسی ناولزکی اُس بھولی بسری شے کو پھر ہمارے سامنے لے آتا ہے، جو اب ناپید ہوگئی، یعنی طویل گفتگو، مسلسل مکالمے اور اطمینان سے کسی کو سننا۔
کیا روسی ادب پڑھتے ہوئے یوں نہیں ہوتا کہ کسی سرائے کے کسی سیلن زدہ کمرے میں ایک کردار دوسرے کردار کو ایک واقعہ سنانے کا اعلان کرتا، مگر جب وہ بات شروع کرتا ہے، توکسی اور سمت نکل جاتا اور چلتا چلا جاتا۔اور یوں ایک کردار کا جملہ ایک سے دو، دو سے تین صفحات پر پھیلتا چلا جاتا ہے۔
اگر آپ نے روسی ادب پڑھا ہے، تو ایک ایسے ہی تجربے سے آپ 1900ء میں پیدا ہونے والے شاندور مارئی کے ناول Embers پڑھتے ہوئے گزرنے والے ہیں، جسے ممتاز مترجم محمد عمر میمن نے ’’انگارے‘‘ کے زیرعنوان اردومیں ڈھالا ہے۔
ناول کا موضوع دو آدمیوں کی دوستی ہے، جو بچپن اور جوانی کے مراحل طے کرنے کے بعد پختہ عمری میں یکدم، عجیب ڈھب سے ٹوٹ جاتی ہے۔یہ قصہ چار کرداروں جنرل، اس کی بیوی، گھر یلو ملازمہ اور ایک دوست کے گرد گھومتا ہے، البتہ مرکزی کردار جنرل ہی ہے، باقی کردار کہانی کو پس منظر فراہم کرتے ہیں۔
پلاٹ دل چسپ ہے۔ جنرل کو ایک روز اپنے اس دوست کی واپسی کی اطلاع ملتی ہے، جو 41 برس قبل بنا کچھ کہے، کوئی خط چھوڑے، بغیر کسی اشارے کے پراسرار ڈھب پر غائب ہوگیا تھا۔اب وہ دوست کونراڈ لوٹ آیا ہے، جنرل اسے عشایے پر مدعو کرتا ہے، جو جلد ہی ایک مقدمے کی شکل اختیارکرلیتا ہے، جس میں جنرل کا دوست ملزم کے طور پرکٹہرے میں کھڑا نظر آتا ہے۔
اس مقدمے میں ہمارا سامنا بار بار ماضی سے ہوتا ہے، جس میں شکارگاہ میں رونما ہونے والا ایک واقعہ اور اسی کمرے میں، جہاں وہ دونوں اب موجود ہیں، شام میں ہونے والی ایک بیٹھک کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
ناول کا بڑا حصہ مکالماتی ہے، بلکہ وہ مکمل مکالمہ بھی نہیں، بلکہ ایک شخص یعنی جنرل کا ماضی کو بازیافت کرنے کا عمل ہے، وہ مکالمہ طویل ہے اور متعدد صفحات پر پھیلا ہے، جس کے بڑے حصے میں دوسرا کردار خاموش رہتا ہے۔ ناول میں گفتگو کے دوران ماضی کی لہروں کو مہارت کے ساتھ منظرکیا گیا، کہیں کہیں ہمیں فلیش بیک تکنیک بھی ملتی ہے، مگر مجموعی طور پر مکالمہ غالب ہے۔قصرکا محل وقوع بیان کرنا، اس کے اندر کی خاموش صورتحال اور منتظر افسردگی کو منظر کرنا مصنف کا کمال تھا۔
جو احساس ناول پر چھایا ہے، وہ مسلسل انتظار کا احساس ہے، جو برسوں پر محیط تنہائی میں اس نہج پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنا اتاؤلا پن اور بے صبری کھو دیتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ ناول دوستی کے جذبے اور اس میں آنے والے نشیب و فراز کو منظرکرتا ہے، البتہ اس میں رقابت، نفرت اور انتقام جیسے جذبات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔
کتاب کا قابل تعریف پہلو مترجم کی وہ گرفت ہے، جس کے ذریعے محمد عمر میمن نے نہ صرف وہ سب کچھ منظرکیا، جو اصل مصنف نے لکھا، بلکہ وہ بھی گرفت میں لے لیا، جو ان کہا تھا۔ تراکیب وضع کرنے کے کامیاب تجربے کے ذریعے عمر میمن نے اس ناول میں نیا پن پیدا کر دیا، جس کی جانب بے بدل فکشن نگار نیر مسعود نے بھی اشارہ کیا۔
یوں ضخیم روسی ناولزکی یاد دلانے والا یہ ناول قاری کے لیے ایک ایسا دل پذیر تجربہ ثابت ہوتا ہے، جو طویل مکالمے کے باعث کہیں کہیں اکتاہٹ کو بھی جنم دیتا ہے۔ ناول شہر زاد کراچی نے شایع کیا، اس کی قیمت 180 روپے ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“