اپارٹمینٹ کا نمبرٹھیک تھا۔ مُجھے گھنٹی کا بٹن نہیں دکھائی دیا۔ دِھیرے سے دروازہ تھپتھپایا، حالانکہ دروازہ صرف بِھڑا ہوا تھا، بند نہیں تھا۔ ”کم اِن‘‘ ایک کھرکھری سی مردانی آوازنے جواب دِیا۔
دروازہ کھولتے ہی ایک دم وہ سامنے لیٹے تھے، ہسپتال نُمابِستر پر، پلنگ سِرہانے سے اُونچاکیا ہُوا تھا، سفید کُرتا پاجامہ پہنے، چہرے پردو تین دِن کی داڑھی اور عُمرشائد ساٹھ کے آس پاس، ناک پرنالیاں لگی ہُوی تھیں،اُنکے دائیں طرف ریسپِریٹر تھا۔
اُنکی بڑی بڑی آنکھیں مُجھ پر ٹِک گئیں۔ پل بھر میں میں کافی کُچھ سمجھ گئی۔ اُنکے بارے میں بہت کُچھ سُنا تھا۔ میں نے ادب سے ہاتھ جوڑ دئے۔اُنھوں نے سر ہلاکر میرا سلام قبول کیا۔ آنکھیں پھر بھی مُجھے گھورتی رہیں۔ ”جی رما بہن ہیں؟ میں نے اُنھیں روٹی بنانے کا آرڈر دیا تھا؟“
وہ پُر سُکون ہو گئے، آنکھیں بائیں جانب گُھوم گئیں۔ایک کِھلتی مُسکراتی عورت آٹے سے سنے ہاتھ لِئے باہر نِکلیں۔
”آپ ہی نے وین سے فون کیا تھا نا؟”
”جی، آپ رما بہن ہیں؟”
”ہاں میں ہی ہُوں” اُنھوں نے ایسے اپنائیت سے مسکراکر کہا جیسے بہت عرصہ سے جانتی ہوں۔
”سوری بس پانچ دس منٹ اور لگینگے، تب تک آپ بیٹھئے۔”کہہ کر وہ واپس مُڑ گئیں۔ میں یوں ہی کھڑی رہی، بیٹھنے کی کوئی جگہ دکھائی نہ دی۔
ایک لانبا سا کمرہ جسکے ایک کونے میں اُن کے اپاہِچ شوہر کا بِستر تھا اور دُوسرے کونے میں اُن کا کِچن تھا ۔ شائدوہ اِنہی کونوں کے بیچ گھومتی رہی ہونگی،ہنستی روتی، بولتی ہوئی یا خامُوش۔ کونے میں لٹکے ہُوے منی پلانٹ کی ڈالیوں کو سُتلی سے باندھ کرکمرے کی چھت کے اندر ایک منڈوا سا تنا تھا۔ گھر کی اندر اور باہر کی ہریالی کو مناکر لے آنے کی ایک ناکام کوشش۔ کمرے کے بیچ میں ایک بڑا سا ٹیلیویژن تھا۔ مُجھے لگا جیسے یہ لگاتار چلتا رہتا ہوگا۔اُنکی آنکھیں ٹیلیویژن سکرین پر جمی ہوئی تھیں۔ جسم ہِلنے جُلنے سے معذُور تھا پر اُنکا من شائداِسی کہ سہارے سے اُڑان بھرتا ہوگا۔اُنکی آنکھوں کے سامنے ہی دیوار پر ایک جوڑے کی خُوبصورت سی تصویرلگی تھی۔ میں نے دِھیان سے دیکھا،عورت کی شکل پوسٹروں میں لگی دیویؤں سے مِلتی جُلتی تھی اوربڑی بڑی آنکھوں والے آدمی کی…؟ میں نے پلٹ کر دیکھا، شک ہُوا کہ کہیں اُنہی کی تصویر نہ ہو۔
” لیجئے آپکے پچاس پراٹھے۔” وہ ہاتھ میں بڑا سا پیکٹ اُٹھائے باہر آئیں
“کِتنے ہوئے؟”
اُنہوں نے دام بتائے۔ میں نے گِنکر اُنہیں قیمت چُکادی۔
” یہ فوٹو….؟” میں نے جان بُوجھ کر سوال پُورا نہیں کیا۔
“اوہ” اُنکے چہرے پر نرمی سی چھا گئی
“یہ تو بہت پُرانی ہے۔ ہمارے امریکہ آنے سے بھی پہلے کی۔ بھارت میں کھنچائی تھی۔ اب تو ہمیں بھارت گئے بھی ستائیس برس ہو گئے۔” اُنکی آواز رُندھ گئی۔وہ ابھی بھی اُس فوٹو کو دیکھ رہی تھیں جِس میں وہ سیتا کی طرح لگ رہی تھیں
” اچھا تھینک یُو” کہہ کر میں اُنکے گلے لگ گئی، اُنہوں نے بھی بہت محبّت سے مُجھے گلے لگا لیا۔ ” بہن آتے رہنا، میرے لئے کُچھ بھی کام ہو تو، میں کُچھ بھی کِسی بھی طرح کا کھانا بنا سکتی ہُوں ”
ضرور کہہ کر میں لوٹی، اُن کے شوہر شائد سو گئے تھے۔
خریداری کر کے گھر لوٹی، سامان رکھنے جمانے میں ہی تھک گئی۔رما بہن من پر قبضہ کئے بیٹھی ِتھیں۔ ایک تھیں تصویر میں مُسکراتی خُوبصورت عورت اور دُوسری تھیں وہ عورت جِس سے میں آج مِل کر آئی تھی، تصویر والی عورت کی پرچھائی۔ گُجراتی طرز کی ساڑی کی جگہ پرڈھیلی سی پینٹ، ٹی شرٹ،کس کر باندھے بالوں میں سفید پھولوں کی جگہ تھی بالوں کی بے رحم سفیدی،سُست چہرہ، پھر بھی مُسکراتیں تو اُنکے سفید دانتوں کی کوند سوچنے پر مجبُور کر دیتی کہ یہ عورت مُسکرا کیسے لیتی ہے؟
فون بجنے سے دھیان بٹا۔دِیپا تھی۔” آپ سے اُس دن سٹاف پارٹی مین مِلکر بہت اچّھا لگا تھا”
“ہاں ہاں مُجھے بھی اچّھا لگا تھا” میں نے بھی تکلّف سے کہا۔ اِس وقت میں پروفیسر کا چولہ اُتار کر گھریلو عورت کے بھیس میں آچُکی تھی، باطن اور ظاہر دونوں طرح سے۔
” میں آپ سے مِلنا چاہتی ہُوں، آپ اِس وقت کیا کر رہی ہیں؟”
میں چونکی۔ اِس وقت کسی سے مِلنے کے مُوڈ مین بِالکُل نہیں تھی۔ میرے گلے سے کُچھ ہکلائی سی آواز نِکلی۔
” میرا من اِس وقت بُہت پریشان ہے۔ نہیں تومیں یوں ایسے آپ کو نہیں کہتی” اُسکی آواز میں بیچارگی تھی۔
میں جھینپ گئی ” نہیں نہیں ضرُورآؤ۔بات یہ ہیکہ میں ابھی ابھی باہر سے لوٹی ہُوں اورگھر بِالکُل بِکھرا پڑا ہے”
” آپ ایسا کُچھ مت سوچیں۔ میں بس آدھے گھنٹے میں آپکے یہاں پہنچ جاؤنگی ”
” آپ مُجھے دِیپا کہہ کر بُلاسکتی ہیں” پہلے تعارُف میں اُسنے یہی کہا تھا۔
میرے ہی دیس کی ایک لڑکی، ہمارے ہی محکمہ میں آئی ہے، میں نِہایت گرمجوشی سے مِلی۔ اُسکے چہرے کی سردمُہری پرایک چھوٹی سی گرم دراڑتک نہ پڑی۔ آج وہ اچانک میرے گھرمیں میرے سامنے آکربیٹھ گئی۔ اُسکا چہرا دیکھ کرمُجھے لگا کہ جیسے اُسنے نہ مُسکُرانے کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی خاص بات ہوجو وہ مُجھے سُنانا چاہتی ہو۔ وہ تیزی سے پلکیں جھپک رہی تھی۔ کبھی کبھی ہونٹوں کو تر کرنے کے لِئے وہ اُن پر زبان پھیر لیتی تھی۔
” چائے بناؤں؟” ماحول کو آرامدہ بنانے کے لِئے میں نے پُوچھا۔ اُسنے حامی میں سرہِلایا۔ مُجھے دِھیان آیا اُسنے بتایا تھا کہ وہ اِس شہر میں نئی نئی آئی ہے اورکِسی کے گھرمیں ایک کمرہ لیکررہ رہی ہے۔
” لنچ کب کھایا تھا؟” میں نے بِنا کسی تکّلُف کے پُوچھا۔
” اُووں” وہ سوچنے لگی۔ پھر بولی”نہیں کھایا”
میں نے ایک بڑا سا سینڈوِچ بناکرچائے کے ساتھ اُسکے آگے رکھ دِیا۔ وہ جلدی جلدی کھانے لگی۔ ” آپ نے چٹنی، پیاز،اور ہری مِرچ بھی ڈالدی ہے ناتو بہت کرارا بنا ہے” میں ایک اور بنانے کیلئے اُٹھی تو اُسنے منع نہیں کیا۔
میں اُسے کھاتے ہُوے دیکھتی رہی۔ وہ قُبول صُورت تھی، کس کر پونی ٹیل باندھی ہُوئی تھی۔ بڑی بڑی آنکھوں کے باوجود اُن میں قصباتی جھلک تھی۔اُس دِن جب کُھلے بالوں کے ساتھ فیشن ایبل دُھوپ کا چشمہ ہلکی سی لِپ گلوس لگائے تھی تو مارڈن عورت لگ رہی تھی۔ یہ تو صاف لگ رہا تھا کہ وہ مُجھ سے عُمر میں چھوٹی تھی،مگر کِتنی میں اندازہ نہیں لگا پائی۔ کھانا کھاکر وہ تھوڑی پُرسُکون ہو گئی۔
ٍ”آپ کے شوہر کب گھر آتے ہیں؟ ”
“اِس ہفتہ وہ کام سے باہر رہینگیں۔”مُجھے لگا جیسے وہ بات کہنے سے پہلے لفظوں کو تول رہی ہو۔
“مُجھے آپ سے ایک بات کہنی تھی” کہہ کر اُسنے مُجھے دیکھا۔میں پُوری طرح سے سُن رہی تھی۔
“میں یہاں کِسی کو بھی نہیں جانتی۔ پتہ نہیں مُجھے کیوں لگاکہ میں آپ پر بھروسہ کر سکتی ہُوں ”
میں نے مُسکراکراُسے تیقن دِیا-
” شائدآپ کو معلوم ہوگا کہ میں ٹورنٹو میں رہتی ہُوں، یہاں یونیورسٹی میں پڑھانے کے لئے ہر پِیرکوصُبح پہونچتی ہُوں اور جُمعرات کی شام کی فلائٹ لیکرواپس چلی جاتی ہُوں ” مطلب چار راتیں کینیڈا میں اور تین راتیں امریکہ میں، عادۃًمیں نے حِساب لگایا۔
“کیوں کرتی ہو ایسا؟”
“میرا بوائے فرینڈ ہے وہاں، اُسکے لئے سفرکرنا آسان نہیں ہے۔ میری نوکری میں زیادہ لچکیلا پن ہے”
” تُمہارے ماں باپ بھی وہیں ہے کیا؟”
” نہیں وہ بھارت میں ہے”
میں چُپ کرگئی، کُچھ سمجھ نہیں پائی۔
” میرا اورارجُن کا فلیٹ ہے ٹورنٹو میں، ہم نے اُسے بہت پیارسے سجایا ہے۔ نیوجرسی میں تو میں صرف نوکری کرنے کیلئے رہ رہی ہُوں۔ یہاں گھر بسانے کا کوئی اِرادہ نہیں ہے ” میں سُن رہی تھی۔
” خیر، اصل بات جو میں آپ سے کہنا چاہتی تھی وہ یہ کہ…” وہ رُکی، دانتوں میں ہونٹوں کودبایااورچہرہ دُوسری طرف کر لیا۔ ” آج میری وائس چانسلر، ڈپارٹمنٹ ہیڈ، اور یونین کے نُمائندے کے ساتھ مِیٹینگ ہوئی تھی اور میں معُطّل کر دی گئی ہُوں ” میں بِالکُل ساکِت اور خامُوش بیٹھی رہی۔مُجھے اپنے رویّہ پرفخرہُوا۔ میں اپنے کوتیّارکررہی تھی کہ میں اُسکو آنکُونگی نہیں، میری قدریں صرف میرے لئے ہیں۔ کِسی اورکواُنسے نہیں آنکُونگی۔
” آپ پُوچھینگی بھی نہیں کہ کیوں ” لگا وہ رودیگی۔
“کیوں؟” میں نے اُسکی بات اُسی کو پکڑادی۔
“کیونکہ میں ایک آن لائن کورس پڑھارہی تھی” بیس دسمبر تک اُسکے مارکس رجِسٹرارکے دفترکو بھیجنے تھے، میں بُھول گئی، اُس پرکافی ہنگامہ ہُوا”
“بات تو گمبھیر ہے، طالب عِلموں کے مُستقبل کا سوال ہے، اُنہیں نئے سال میں داخلہ نہیں مِل سکتا”
“مگرکِسی نے مُجھے یاد بھی تونہیں دِلایا یوں بات بات پررِمائنڈربھیجتے رہتے ہیں” وہ دفتر والوں کی غلطی بتارہی تھی۔
“کِتنی دیر کی؟”
” اصل میں مَیں یہاں تھی ہی نہیں، دسمبر کی چھُٹیوں میں بھارت چلی گئی تھی، میرے پاپا بِیمار تھے ”
“اِتنی سی بات پر تو معطّل نہیں کیا جاسکتا” میں نے اُسکی طرفداری کی۔
” نہیں کیس توکُچھ اورہی ہے” کہہ کروہ اپنے ہاتھوں کودیکھنے لگی
آج میرا بھی اِمتحان تھاکہ میں دُوسروں کے قدروں کے بارے میں کتنی لاتعلّق رہ سکتی ہُوں
میں اُسکی طرف دیکھتی رہی اوروہ میرے چہرے کے زرا دائیں یا بائیں دیکھ کربات کرتی رہی، نظریں چُراتے ہُوے۔
“بتانے پر پتہ نہیں آپ میرے بارے میں کیا سوچینگی؟”
” کُچھ بھی نہیں ” میں نے سچ کہا۔
” میں اصل میں کالج بند ہونے سے پہلے ہی نِکل گئی تھی”
میرے ماتھے پر شائد کوئی سِلوٹ سوالییہ نِشان کی طرح اُبھری ہوگی۔ “میرا مطلب، میں نے کالج والوں سے کہا کہ مُجھے ایک کانفرنس میں حِصّہ لینے کے لئےلندن کی اکادمی نے مدعوکیا ہےتومُجھے جلدی جانےکی اِجازت مِل گئی۔آدھے رستے تک تو چلی گئی تھی، پھراُسکے بعد میں بھارت چلی گئی”
” میں سمجھی نہیں،تو اِس میں غلط کیا بات ہُوئی؟”
“اصل میں پاپا بہت بیمار تھے، مُجھے سیمیسٹرکے بیچ میں چُھٹی نہیں مِل سکتی تھی، یہی ایک طریقہ تھایہاں سے نِکلنے کا”
” قانُونی طورسے توکُچھ غلط نہیں کیا؟” مُجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔
” غلط تو بہت کُچھ ہوگیا۔ میں کانفرنس میں ارجُن کے ساتھ گئی تھی، مگراندرنہیں گئی، وہاں میرے ایک سینئیرکولیگ بھی تھے جِنھوں نے مُجھے دیکھ لیا، اُنھوں نے میرے وہاں بُلائے جانے کی سچّای پر سوال کردیا، طالِب عِلموں کے مارکس نہ جمع کرنے کی وجہ سے بات بہت بِگڑگئی ہے”
“تو؟”
” میں وہاں اپنا پیپر پڑھنے کے لئے مدعو ہی نہیں تھی، بلکہ میں نے ہی لندن والوں کو لِکھا تھا کہ کیا میں بھی وہاں حاظِر ہوسکتی ہُوں؟اُنھوں نے اِجازت دے دی تھی ”
اصل میں میں خُود سوچ رہی تھی کہ دِیپا اِتنی مشہُور کب سے ہوگئی تھی کہ اُسے بین اُلاقوامی سطح پرمدعُو کیا گیا ہوگا، مگرصرف اِتنا ہی پُوچھا،” تو یہ سب صحیح نہیں تھا؟”
” نہیں” وہ ہونٹ دبائے چھت کی طرف دیکھنے لگی، بہت سے خیالات ایک دُوسرے کوڈھکیلتے ہُوئے میرے دِل میں آئے چونکہ مین نے خُود سے وعدہ کیا تھا کہ میں اُسے آنکُونگی نہیں میں خامُوش رہی۔ رما بہن کا چہرہ پھرآنکھوں کے سامنے تیرگیا، زندگی میں بہت سی باتیں نہ چاہتے ہُوے بھی تو ہوجاتیں ہیں، زندگی کھینچنے کیلئے اُنہیں لانگھنا توہوتا ہی ہے۔ ہم دونوں کے بیچ تھی بات کی خامُوشی،خیالوں کا طُوفان شائد ہمیں اپنے اپنے دائیرے میں گھسیٹ کر پست کررہا تھا، سمجھ نہیں پارہی تھی کہ مُجھے اس وقت کیا کہنا چاہئے؟
“میں اس وقت آپ سے ایک مدد مانگنے آئی ہُوں، آپ چاہیں تو نہ بھی کرسکتیں ہیں،آخرآپ مُجھے جانتی ہی کِتنا ہیں؟”اب تک میں نے تھوڑی سی دُنیاداری سیکھ لی ہے، اِسی لیئے سوچ کرکہا، “تُم کہو،اگرکرسکی توضرُورکردُونگی”
“میں آپ کے یہاں دو چاردِن رُک سکتی ہُوں؟ میں نے اگرکل کمرہ خالی نہ کیا تو مُجھے پُورے مہینے کا کِرایہ دینا پڑیگا، مُجھے ابھی کُچھ کام سمیٹنے کیلئے وقت چاہئے ” اُسنے مُجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
” ارجُن کو سب بتایا؟ ”
” ہاں وہ میرے ساتھ ہے، جو بھی ہوگا ہم اِکٹّھے جھیلینگے”
اگلے دِن صُبح دِیپا کافون آیا کہ اُسنے کِرائے کا کمرہ خالی کر دیا ہے،بینک کا ابھی کُچھ کام باقی ہے،اگرمُجھے کُچھ جھجھک ہے تووہ ہوٹل میں بھی رہ سکتی ہے۔
” نہیں نہیں چلی آؤ” مارچ میں ایک ہفتہ کی چُھٹی ہوتی ہے، میں گھرپراکیلی ہی تھی، سوچا ساتھ ہوجائیگا۔ شام کو وہ آئی، کُھلے بال اوردُھوپ کا چشمہ لگائے ہُوئے۔ آج وہ زرا سا مُسکرائی۔
” ارجُن کہتا ہے کہ جو ہُوا اچّھا ہُوا، اب ہم لوگ زیادہ وقت ساتھ بِتا پائینگے”
” کب سے جانتی ہواُسے؟”میں نےاُسے پُوچھ ہی لیا۔
” بہت برسوں سے، میرے بھائی کا دوست تھا”۔وہ ان منی سی ہوگئی
تُمہیں میری بات بہت ذاتی نہ لگے تومیں ایک سوال پُوچھوں؟ تُم ارجُن سے شادی کیوں نہیں کرلیتیں؟ باقی سب کُچھ تو ویسا ہی ہے ”
” شادی کرنے سے مُحّبت کی ساری جہتیں بدل جاتی ہیں “اُسنے ایسے کہا جیسے اُسے اچھّی طرح معلُوم ہو۔
اگر پیارکرنے والا شوہرہوتوزندگی اوربھی خُوبصورت ہوسکتی ہے” میں نے اُسے مُثبت راستہ دِکھانے کی کوشِش کی۔
تب بھی نہیں ہوتی اُسنے یقین سے کہا۔
کہیں کُچھ پھانس سی چُبھی، میری سوچ کے پردے کے پیچھے رما بہن جِھلمِلاگئیں شادی کے بعد کیا اُنکی جہتیں بدل نہیں گئیں ہونگی؟ میری سہیلییاں اکثر اُنکے بارے میں باتیں کرتی تھیں، شادی کے تین سال بعد ایک چھوٹی سی بچّی کو لیکر وہ دونوں ایک جنّت کی تلاش میں امریکہ آئے تھے، اِنجینئرشوہرشُروع کےجدّوجہد کے دِنوں میں رات کی شِفٹ میں نوکری مِلی۔دیر گئے رات کو لوٹتے وقت،کِسی نے نشہ کی ضرُورت کو پُورا کرنے کیلئے پِستول تان کرجیبیں خالی کروالیں، پِھر جاتے وقت پیچھے سے گولی بھی داغ دِی،گولی ریڑھ کی ہڈّی میں اٹک گئی،وہ اپاہچ ہوگئے۔ رما بہن نے لوگوں کیلئے روٹیاں بیلنا شُروع کردیں، بچّوں کی بیبی سِٹینگ، کپڑے سِینا، جوجووہ کرسکتیں تھی وہ کیا۔ شوہر کو کبھی رسپِریٹرلگتا، کبھی ہٹ جاتا،وہ خِدمت میں لگی رہتیں، بیہوش پڑے شوہرکودیکھتیں توبس دیکھتی رہ جاتیں،”بس یہ زِندہ رہیں، سُہاگ ہے یہ میرا” وہ اکثر یہی کہتیں، جو بھی سُنتا، اُنکے لئے رحم دِلی اورعقیدت محسُوس کرتا۔
” آجکل کے زمانے میں ایسی عورت؟کون مانیگا کہ اب بھی سیتا اورساوِتری جیسی عورتیں ہوسکتی ہیں۔ مُجھے کھویا ہُوا دیکھ کردِیپا اپنا سوٹ کیس اوربیگ اُٹھا لائی۔
“ویسے میرے لیئے تکلیف کرنے کی ضرُورت نہیں، میں نیچے صوفہ پربھی سوسکتی ہُوں۔”
“نہیں نہیں، اُوپرکا کمرہ خالی ہے،تُم وہیں آرام سے رہو”
میں کمرہ دِکھانے کیلئے دِھیرے سےاُٹھی،وہ پُھرتی سےایک ساتھ سارا سامان اُٹھاکرسیڑھیاں چڑھ گئی۔ سامان رکھ کر کِھڑکی سے باہرجھانکا،چُپ چاپ دیکھتی رہی۔
“میرے پاس بھی ایسا ہی گھرتھا “اُسنے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
بھارت میں؟”
“نہیں، یہیں ٹیکساس میں ”
مُجھے کُچھ سمجھ نہیں آیا، یہ تو کہہ رہی تھی کہ کناڈا میں رہتی ہے، مانباپ بھارت میں ہیں، ابھی ابھی نوکری لگی تھی، پِھریہ گھرکہاں سےآگیا؟ کُچھ پُوچھنا دوستی کی حد لانگھنے کے برابر تھا۔
“چلوتھوڑا آرام کرلو، میری چُھٹّیاں ہیں، رات کو کُچھ ہلکا پُھلکا بنا دُونگی”
میں نیچے آگئی، آوازوں سے ظاہر تھا کہ وہ فون پرطویل گُفتگومیں مصرُوف تھی۔
رات کے اندھیرے میں ایک عجیب سی خامُوشی ہوتی ہے۔ جسمیں اِنسان کے اندرکا شوراپنے آپ اندرونی پرتیں کھولتا جاتا ہے۔ دو اِنسان جب گئی رات کوآمنے سامنے بیٹھ کرباتیں کرتے ہیں توبیگانگی کا بھیس بدل جاتا ہے۔ وہ رازداربن کر، ہاتھ پکڑ سب کُچھ سُنتی ہے۔
”پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ مُجھے آپ سے کچھ چُھپانا نہیں چاہئیے۔”
”میں سُن رہی ہوں۔”
اُسکی آواز جیسے کسی گہرے کوئیں سے ِنکل رہی تھی۔
”میری شادی ہُوئی تھی۔ وہ مُجھ سے بہت پریم کرتا تھا – نام نہیں بتاؤنگی۔ میری ہرضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ تب میں یہاں اکیلی پڑھ رہی تھی۔ میرے گھر والوں نے ہی اسے میرا پتہ دیا تھا۔”
وہ چپُ کر گئی۔ چائے کا گھونٹ بھرتی اورمگ کوآنکھوں کےآگے یوں کر لیتی کہ میں اسکا چہرہ نہ دیکھ پاؤں۔ جیسے اپنے آپ سے ہی آنکھ مُچولی کھیل رہی ہو۔ مجھے لگا وہ اپنے آپ سے ہی باتیں کر رہی ہے۔
میرا من توارجُن کے بارے میں ہی سوچا کرتا تھا۔ اُسکی اور میری کہانی ادھوری ہی رہ گئی۔ میرامن اُسکا آخری ِسرا ڈھونڈنے کے لئے سرپٹکا کرتا۔ ارجُن نے بھارت میں رہتے ہوئے کبھی نہ بتایا نہ جتایا ہی کہ اسکے من میں میرے لئے کیاجذبات ہیں۔ میں نے اسے بتایا بھی کہ میں سکالرشپ پرامریکہ پڑھنے جا رہی ہوں۔ تب بھی اُسنے نہ روکا نہ ہی کُچھ کہا۔ ہم لوگ الگ الگ راستوں پرمُڑگئے۔ اِسنے تومیرا جاناچُپ چاپ قبول کرلیا، پرمیں چھٹپٹاتی رہی۔ مجھے اس جذبہ کی تکمیل چاہئیے تھی۔ اس ادھُوری کہانی کودِل سے لگائے میں زندگی میں لڑکھڑارہی تھی۔ تبھی یہ نیاآدمی میری زندگی میں آیا۔ ایسے میں جب کوئی ہروقت آپکی ہرضرورت، ہرخواہش مقّدم رکھے تو پیارکا ہوجانایقینی تھا۔ مُجھے بھی لگا کہ یہی میری منزل ہے۔ یہ مُجھے سنبھال لیگا۔ میں نے اُس سے بیاہ کر لیا۔
ہم لوگوں نے ایک گھرخریدا، سنوارا۔ پرمُجھے ہمیشہ لگتا کہ میں خوش نہیں تھی۔ تبھی ارجُن بھی نوکری کے سلسلے میں لندن آ گیا۔ جب پہلی باراُسکا فون آیا تو میں پرانے درد سے بِلبِلا گئی۔ اُسکے فون زیادہ آنے لگے۔ میرے پتی کو سب معلوم تھا۔ دِھیرے دِھیرے اُسنے اپنے حقُوق کااستعمال شروع کردیا۔
”ارجُن سے دوستی کا کوئی مطلب نہیں ہے، اُسے فون کرنا بندکردو۔”
میں باہر جاکر چوری چوری فون کرتی۔ جُھوٹ بولتی۔ گھرمیں روزجھگڑے ہونے لگے مُجھے میری آزادی پریہ پابندیاں بہت کھلتیں۔”
وہ چُپ کرگئی۔ میرے چہرے کودیکھا۔ اسے لگاہوگاکہ میں سُن تو رہی ہوں پراُسکے ساتھ ساتھ نہیں چل رہی۔ میرے دماغ میں رمابہن بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔
”میں نے اُس شادی کو بچانے کی کوشش توکی۔ ہم لوگ میرج کونسلرکے پاس بھی گئے۔”
”پھر؟” میں مُتجسّس تھی۔
”اُسنے کہا۔۔۔۔”، وہ رُکی۔لفظوں کوٹٹولنےلگی۔ اسکاچہرہ عُمرکی کتنی سیڑھیاں چڑھ گیا۔
”اُسنے کہا تھا کہ میں اپنے پتی سے پیارنہیں کرتی اورمجھےالگ ہوجاناچاہئیے۔” ایک جھٹکےسےاُسنےکہہ دیا جوکہنا تھا۔
اب وہ چُپ تھی پرمیں پوری طرح جاگ گئی تھی۔
”اس میں تمہارے پتی کا کیا دوش؟ وہ توتمہیں پیارکرتاتھا۔”
”ہاں، میں نےاسکی زندگی بھی تباہ کردی۔”
ہلکے اندھیرے میں دِیپا کی آنکھیں جھلملائیں۔ آنسوپُوری طرح سے گالوں پربہہ رہے تھے ِجنہیں پونچھنےکی اُسنے کوشِش بھی نہیں کی۔
میں اپنے اُصولوں اورخیالوں کے گنجلک میں جکڑی پڑی تھی۔ ہمدردی کے لئے لفظ ہی نہیں سُوجھے۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے اندر کوئی مُخالف جماعت کی ریلی ہورہی ہے۔ کئی بونے،اُصولوں کے جھنڈے اُٹھا اُٹھا کرمخالف نعرے لگارہے ہیں۔ نعروں کا شورتو ہے پرصاف کچھ بھی نہیں۔ایک شورکرتی خامُوشی تھی۔
تھوڑی دیربعد اُسنے ہی خامُوشی توڑی ۔
”پر میں نے بھی تواُس طلاق کے سمجھوتے پرسبھی حُقوْق چھوڑدیئے۔ پیسہ، مکان میں حِصّہ کچھ نہیں لیا۔ سبھی کُچھ تو میں نےاُسکالےلیاتھا،اب اوربچا ہی کیا تھا لینےکو۔”
وہ پِھرسے روپڑی۔ چُپ چاپ روتی رہی۔ میں بھی چُپ چاپ بیٹھی رہی۔
پھروہ دِھیرے سےاُٹھی۔”سوری” کہہ کراپنے کمرے کی طرف مُڑگئی۔
”گُڈ نائٹ” میں نے دِھیرے سے کہا۔ جانتی تھی کہ ابھی نہ وہ سو پائیگی اورنہ ہی مجھے نیند آئیگی۔رما بہن کی خواہشوں کا خیال آتا رہیگا جوریسپیریٹر کے بِنادم توڑتی ہونگی۔
ابھی میں مشین کی طرح ناشتے کااِنتظام کرہی رہی تھی کہ دِیپا پُوری طرح تیّارہوکرسامنےآگئی جیسے کہیں باہرجانے والی ہو۔ بالکل تروتازہ، کِھلی ہُوئی۔
میں اُسے دیکھتی رہ گئی۔ میرے دِل ودِماغ میں ابھی بھی رات کی باتیں حاوی تھیں اوروہ جیسے پرانی کینچلی اُتارکرکوئی نئی ہی دِیپا بنکرسامنے کھڑی ہو گئی تھی۔
”صبح ارجُن کا فون آیا تھا۔ وہ آج دوپہرکی فلائٹ سے نیویارک پہنچ رہا ہے۔ اُسکی تین دن کی کوئی میٹنگ ہے۔ میں بھی یہ تین دِن اُسکے ساتھ ہی رہ لُونگی۔ پھر وہیں سے ہم لوگ اِکٹھے کینیڈا لوٹ جا ئینگے۔”
میں کچھ اُلجھی سی تھی۔ اِسنےتوابھی میرے یہاں دوتین دِن اوررہنا تھا۔
”آپ پلیز مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ دیجیے۔ میں وہیں سے مین ہٹن چلی جاؤنگی۔ جب تک میں ہوٹل پہنچوگی، تب تک ارجُن بھی آجائیگا۔”
ناشتہ کرنے کے بعد اُسنے اپنا سامان کار کے ٹرنک میں رکھ دیا۔ وہ میرے ساتھ کارمیں دُھوپ کا چشمہ لگائے بیٹھی تھی۔ بال اُسنے کھول کر چھترا لئے۔ میں رات اوراِس وقت والی دِیپا میں تال میل بٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔ بس آنے میں دیر تھی۔ کھڑکیوں کے شیشے نیچے کرکے ہم دونوں خامُوش بیٹھے رہے۔ جانتی تھی کہ میں اُس سے پھرکبھی نہیں مِلونگی۔ اِس شہرنےاُسےجوکڑواہٹ دی تھی، وہ پھرکبھی لوٹ کراُسے یادنہیں کرنا چاہیگی۔ پھربھی کہہ دیا ”کبھی آنا۔ گھر
پہنُہچ کرفون کردینا۔”لگا، جیسے اُسنے سُنا نہیں۔ سٹینڈ پرآتی ہوئی بس کودیکھتی رہی۔ اُسکا چہرہ تنا ہوا تھا۔ میں نے ٹرنک کا دروازہ کھول کراُسکا سامان نِکالا۔ وہ بیٹھی رہی۔ بس آ کر لگ گئی۔ ابھی لمبی لائین تھی۔ وہ کار سے نِکلی۔ بیگ کندھے پر ڈالا، سُوٹ کیس ہاتھ میں اُٹھایا۔ پہلی باراُسنے مجھے بھرپُورنظروں سے دیکھا۔
”میں آپ کوایک اوربات بتادیناچاہتی ہُوں ”أاُسنے ہونٹوں کوبھینچا،”میں رما نہیں ہوں۔” کہہ کروہ پلٹی اورلائین میں لگ گئی۔
میں پھر سے کار میں بیٹھ کر بس کی سرکتی لائین کو دیکھتی رہی۔
وہ دِھیرے سے بس کی سیڑھیاں چڑھی اور بائیں گُھومی۔ میں نے ہاتھ ہلایا۔
اُسنے کوئی جواب نہیں دیا اورآگے بڑھ گئی۔
******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...