اندرون لاہور کے جنات
اندرون لاہور تنگ وتاریک گلی کو چوں کے نیچے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے اور اچھے ہمسایوں کی طرح رہتے ہیں۔ یہ جن بھوت عام طور پر پرانے مکان کی کسی پچھلی اندھیری کوٹھڑی میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ مکان کی یہ کوٹھڑی اکثر بند رکھی جاتی ہے۔ سال چھ مہینے میں اگر ایک بار اس کی صفائی وغیرہ کروائی جاتی ہے تو سب سے پہلے گھر کا کوئی بوڑھا بزرگ باوضو ہو کر کلمہ شریف کا ورد کرتا ہوا کوٹھڑی میں داخل ہوتا ہے۔ اندرون شہر لاہور کے پرانے مکانوں کی پچھلی کوٹھڑیوں میں ایسے آلے اور طاق بھی پائے جاتے ہیں جہاں عورتیں رات کو چراغ روشن کرتی ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کوئی نیک دل بزرگ کی روح رہتی ہے۔ پھر اس بزرگ کے بارے میں یہ بھی سنا جاتا ہے کہ کل فلاں شخص یا فلاں عورت نے سفید لباس والے ایک بزرگ کو کوٹھڑی میں سے نکلتے دیکھا ہے۔ جو دو قدم چل کر غائب ہو گئے تھے۔ جن بھوتوں کے بارے میں تو عجیب وغریب محیر العقول باتیں مشہور ہو جاتی ہیں یا کردی جاتی ہیں۔ ہماری رشتے کی ایک پھوپھی جان اندرون لاہور لوہاری میں رہتی ہیں۔ ان کا تین منزلہ حویلی نما مکان دو ڈھائی سو سال پرانا ہے۔ ان کے مکان کا زینہ نیچے سے شروع ہو کر مکان کی چھت کے دروازے تک جاتا ہے۔ زینے میں ہر وقت اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ مکان کی دوسری منزل کے دروازے کے پہلو میں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں جنات کی ایک فیملی رہتی ہے اس کوٹھڑی میں ان کے ہاں بیاہ شادیاں ہوتی ہیں۔ ان کے رشتے دار آتے جاتے ہیں۔ میری پھوپھی کی بڑی بیٹی کا کہنا ہے کہ ایک دن وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اس کوٹھڑی کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے دیکھا کہ کوٹھڑی کے اندر بڑے پلنگ پر ایک جن دولہا اور اس کی دلہن بیٹھے مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے ہیں۔ گھر والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اکثر راتوں کو ایسی آوازیں سنی ہیں کہ جیسے کوئی تیز قدم اٹھاتا سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ کبھی کبھی اس کوٹھڑی میں سے گھنگھروﺅں کی آواز بھی آجاتی ہے۔ گھر والوں نے اس کوٹھڑی کا نام شیش محل رکھا ہوا ہے۔ کوٹھڑی میں ایک بلب ساری رات اور سارا دن جلتا رہتا ہے۔ جمعرات کو کوٹھڑی میں چراغ روشن کئے جاتے ہیں اور اگر بتیاں سلگائی جاتی ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ جنات مسلمان ہیں میری سب سے بڑی ہمشیرہ کا مکان مستی گیٹ میں تھا۔ ان کے مکان کے پاس ہی ایک کٹڑی تھی جہاں بی بی دائی رہا کرتی تھی۔ بی بی دائی بڑی عبادت گزار پرہیز گار خاتون تھی۔ بچے کی پیدائش کے وقت لوگ بی بی دائی ہی کو بلواتے تھے۔ کہتے ہیں ایک بار بی بی دائی کے ساتھ ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ سردیوں کی رات تھی۔ سخت سردی پڑ رہی تھی۔ شہر کی گلیاں سنسان پڑی تھیں کہ کسی نے بی بی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بی بی دائی کا بڑا بیٹا نیچے آیا۔ دیکھا کہ دو بزرگ کھڑے ہیں ایک بزرگ نے کہا ”ہماری بہو کے بچہ ہونے والا ہے ہم بہن بی بی دائی کو لینے آئے ہیں“ بی بی دائی کو پتہ چلا تو اس نے پوچھا۔ ”کہاں جانا ہو گا؟“ بزرگ نے کہا۔ ”قریب ہی جانا ہے بہن جی! ہم تانگہ ساتھ لائے ہیں۔ ہم آپ کو واپس بھی چھوڑ جائیں گے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی ہم آپ کو منہ مانگی فیس دینگے۔ بی بی دائی راضی ہو گئی کٹڑی کے باہر تانگہ کھڑا تھا۔ بی بی دائی کا بیان ہے کہ تانگے کا کوچوان اگلی سیٹ پر خاموش بیٹھا تھا۔ دونوں بزرگ بھی تانگے کی اگلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور تانگہ مستی دروازے سے نکل کر دریائے راوی کی طرف ہو گیا۔ بی بی دائی نے سردی سے بچنے کے لئے گرم اونی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ دونوں بزرگ خاموش تھے۔ بی بی دائی کوئی بات کرتی تو وہ بھی جواب دے دیتے۔ تانگہ جب سڑک سے اتر کر دریا کے پرانے ذخیرے کی طرف مڑا تو بی بی دائی نے پوچھا۔ بھائی جان آپ کا مکان ابھی کتنی دور ہے؟ ایک بزرگ نے جواب دیا۔ ”بس قریب ہی ہے بہن جی“ بی بی دائی کا کہنا ہے کہ جب تانگہ ذخیرے کے درختوں سے نکل کر دریا کے کنارے کنارے چل پڑا تو میں گھبرا گئی آدھی رات کا وقت، اجاڑ سنسان جگہ، اجنبی لوگ، بی بی دائی کو خوف محسوس ہونے لگا مگر ہمت کر کے اس نے ایک بار پھر پوچھ لیا کہ آپ کا مکان کس جگہ پر ہے، بزرگ نے کہا۔ ”گھبرائیں نہیںبہن جی ! مکان قریب ہی ہے“۔ آخر دریا کے کنارے درختوں کے نیچے ایک جھونپڑی کے پاس آکر تانگہ رک گیا۔ جھونپڑی کے اندر لالٹین روشن تھی۔ ایک بزرگ خاتون جھونپڑی کے باہر کھڑی انتظار کر رہی تھی۔ بی بی دائی نے خاتون کو دیکھا تو اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ دونوں بزرگ جھونپڑی کے باہر ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ بزرگ خاتون بی بی دائی کو جھونپڑی میں لے گئی بی بی دائی کا کہنا ہے کہ اندر ایک خوبصورت جوان لڑکی پلنگ پر لیٹی تھی۔ بچے کی پیدائش قریب تھی ،بچہ پیدا ہو گیا۔ بی بی دائی کہتی ہے کہ وہ لوگ مجھے عجیب وغریب لگ رہے تھے۔ زچہ اور اس کی والدہ بزرگ خاتون کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ جس کو دیکھ کر میرے بدن میں خوف کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ زچہ کے ہاں بیٹا ہوا تھا۔ پیدا ہونے والے بچے کی آنکھوں میں بھی جب میں نے وہی مافوق الفطرت چمک دیکھی تو میں جلدی سے جھونپڑی سے باہر آگئی۔ باہر مجھے واپس چھوڑ نے کے لئے تانگہ کھڑا تھا۔ میں جلدی سے تانگے میں بیٹھ گئی، بزرگ آدمی نے کہا۔ ”بہن جی! آپ کی فیس دینے کے لئے ہمارے پاس اس وقت کچھ نہیں ہے۔ اس پوٹلی میں جو کچھ ہے اسے قبول کر لیں۔“ بزرگ نے پوٹلی میرے پاس سیٹ پر رکھ دی۔ تانگہ چل پڑا۔ اپنے مکان پر پہنچی تو خدا کا شکر ادا کیا۔ کوچوان مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ میرے بیٹے نے ناراض ہو کر کہا۔ ”اماں اتنی سردی اور رات کے وقت تمہیں نہیں جانا چاہئے تھا، یہ کون لوگ تھے“؟ بی بی دائی نے کہا۔ ”کوئی غریب غرباخانہ بدوش تھے میری فیس دینے کے لئے بھی ان کے پاس پیسے نہیں تھے، یہ پوٹلی دے دی ہے کہ اسے قبول کرو“ اوپر کمرے میں آکر بیٹے نے پوٹلی کھول کر لالٹین کی روشنی میں دیکھا کہ پوٹلی میں بجھے ہوئے کوئلے ہی کوئلے تھے۔ بیٹے نے غصے میں کوئلے فرش پر پھینک دیئے اور ماں کو سختی سے منع کیا کہ آئندہ کبھی رات کے وقت کسی کے ساتھ نہ جایا کرو۔ بی بی دائی کو بھی بجھے ہوئے کوئلے دیکھ کر بڑا غصہ آیا مگر اب وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ دن چڑھا تو ماں بیٹے نے کمرے کے فرش کی طرف دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ فرش پر جہاں بیٹے نے رات کو بجھے ہوئے کوئلے پھینکے تھے وہاں اب سونے کی ڈلیاں بکھری ہوئی تھیں۔ دونوں دنگ ہو گئے اب معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو رات کو بی بی دائی کو لے گئے تھے جنات تھے۔ بیٹے نے سونے کی ساری ڈلیاں جلدی جلدی سمیٹ کر صندوق میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیں۔ دونوں ماں بیٹا تانگہ کرا کر دریا کنارے اس جگہ گئے جہاں رات کو جھونپڑی کے اندر ایک عورت کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی مگر اب وہاں کسی جھونپڑی کا نام ونشان تک نہ تھا۔
نوٹ:
اس پوسٹ سے منسلک تصویر سن 1920 کے لاہور کا نظارہ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔