ادبی فائل -٦
عندلیب گلشنِ نا آفریدہ
مشرف عالم ذوقی
بالا خانے پر اونٹ
خاموشی شرط ہے کہ اس کے در پر شور کی رسایی نہیں .ایک نور جسے انسانی شکل میں دیکھا ، اور جس نے میری روح پر اپنی روشنی کا تسلط فرما دیا۔
آمدی درمن مرا بردی تمام
اے تو شیر حق مرا خوردی تمام
میں کون ہوں؟ میں تھا ہی کیا— ایک حقیر ذرہ— برسوں پہلے ایک نور کا ظہور ہوا اور میں اس کے سایہ فیض یا مشاہدہ فیض میں سما گیا— ہزاروں قصے— لکھنے بیٹھوں تو آنسووں کی شاہراہ…. یاد کرنے بیٹھوں تو بدن میں لرزہ…. نہ یاد کرسکتا ہوں اور نہ ہی لکھ سکتا ہوں…. میں وادی جنون یا وادیِ حیرت میں ان لمحوں کا گواہ بن رہا ہوں جہاں کبھی اچھلتا، کودتا ہوا ایک خوبصورت سا جملہ میرے سامنے آیا تھا اور آنکھوں کے آگے کوہ قاف کے راستے کھل گئے تھے۔
’میں حشر کا قائل نہیں— لیکن حشر کا منتظر ضرور ہوں— میں قرة العین طاہرہ کے قاتلوں کا حشر دیکھنا چاہتا ہوں….‘
میدان حشر…. سوچتا ہوں۔ میدانِ حشر میں اگر یہ سوال ہو کہ وہ بے ثبات دنیا جو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے ، وہاں ایسا خاص کیا تھا، جس کا نام تم پہلی بار میں لینا چاہو…. ؟
اور میں بغیر تاخیر کیے جواب دیتا— ڈاکٹر محمد حسن
شہنشاہ التمش کے حوالہ سے ایک قصہ مشہور ہے — قطب صاحب کی وصیت تھی کہ ان کے انتقال پر ان کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے، جس سے کبھی چاشت اور تہجد کی نماز بھی قضا نہ ہوئی ہو۔ جنازہ رکھا ہوا تھا— اچانک لوگوں نے دیکھا کہ گھوڑے پر ایک نقاب پوش چلا آ رہا ہے— نقاب پوش قریب آیا۔ نقاب الٹ دی۔ چہرہ زرد— آنکھوں میں آنسو— فرمایا، حضرت پیر نے راز فاش کر دیا۔ یہ خود بادشاہ التمش تھے—
رات جب مجھے اپنے محبوب کا خیال آیا، میری نیند اڑ گئی—
یہ قصہ اس لیے ضروری تھا کہ دل میں محبوب کے ایک لمحے کا مشاہدہ تخلیقی سلطنت کو صدیاں دے جاتا ہے— عمر کی کچی بہاروں کی تلاش میں نکلوں…. تو میرا شہر آرہ ہے…. آرہ کی گلیاں…. جین اسکول…. مہاراجہ کالج…. مہاراجہ کالج کو جاتے ہوئے راستے میں سوئرباڑی…. اور جانے کب نوجوانی کی چمکتی آنکھوں نے اس سوئر باڑی میں ایک کہانی تلاش کرلی— تب میں ذرّہ بھی نہیں تھا۔ کوئی جانتا بھی نہیں تھا— کہانی فیئرکی اور عصری ادب کے لیے بھیج دی— اور یہ کیا— جیسے ایک پل میں سب کچھ بدل گیا۔ دنیا بدل گئی— کائنات بدل گئی— ایک نئی تخلیق لذت کا ادراک ہوا— ایک خط سامنے تھا— اور یہ خط ایک دو نہیں…. میں ہزار بار پڑھ چکا تھا— اور ہر بارایک نئی دنیا، ایک نئی کائنات کے دروازے میرے لیے کھلتے چلے جاتے تھے۔
’آپ میں آگ ہے۔ اس آگ کو کبھی کم نہ ہونے دیجئے گا….‘
گربہ بینی یک نفس حسن ودود
اندر آتش افگنی جان ودود
میں گم تھا— ایک نور مسلط تھا مجھ پر— اور آہ، کہ اس راز میں التمش بادشاہ کی طرح میں نے کبھی کسی کو شریک ہی نہیں کیا…. کہ میں تھا ہی کیا…. لیکن صحرا کے سناٹے میں یہ آواز، تجلیِ طور سے کم نہ تھی— اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اسی چند جملے کا کرشمہ تھا کہ ادب کی جو سلطنتِ لازوال مجھے حاصل ہوئی، وہ اسی محبوب کے تعلق سے، کہ وہ (ڈاکٹر محمد حسن) جب بھی بلاتے یا ان کا فون آتا…. میری آواز میں تھرتھراہٹ شامل ہوجاتی….
’میں نہیں آسکتا….‘
’لیکن کیوں….؟‘
سارے زمانے سے آنکھیں ملانے والا ذوقی یہاں کمزور ہوجاتا ہے۔ ادب کی دنیا کو اپنی بغاوت ، اپنے احتجاج سے ڈرانے والا ذوقی یہاں جھک جاتا ہے…. یہاں اس کی حکومت ہے، جہاں کلمہ
¿ احترام واجب ہے— اور جس کی چوکھٹ پر میر کی طرح چپکے جانا ہے اور آواز کو نرم رکھنا ہے—
حضرت ابراہم بن ادھم سے ایک روایت مشہور ہے کہ ایک رات بالاخانے پر آواز سنی۔ دیکھا کوئی ہے، جو اپنا اونٹ تلاش کر رہا ہے۔ بلخ کے سلطان کو اس ادا پر ہنسی آئی کہ بالا خانے پر اونٹ کہاں؟ جواب ملا۔ سچ کہا— بالاخانے پر اونٹ کہاں…. لیکن تو بھی تو زندگیِ عیش میں خدا کو تلاش رہا ہے—؟
اور یہی بات ان دنوں مجھے حسن صاحب، میرے پیر و مرشد نے سمجھائی۔
کہانی وہی ہے۔ جہاں سوئر باڑی ہے۔ مشاہدہ کی آنکھوں کو اور تیز کرو— گھر کے ویران کمرے جدیدیت کو آواز دے سکتے ہیں لیکن اس کہانی کے لیے۔ جس کی آج ضرورت ہے، تمہیں گھر سے باہر نکلنا ہوگا— ان بستیوں میں جاو
¿…. جہاں دکھ ہے—
جہاں غربت ہے—
اس سسکتی ہوئی زندگی کو قریب سے محسوس کرو۔‘
میں نے سر جھکا لیا۔ مجھے اسی راستے اپنی کہانیوں کی نئی دنیا آباد کرنی تھی۔
۴۸۹۱ءکی گرمیوں کی بات ہے— تب میں ایک کہانی لکھ رہا تھا— وحشت کا بائیسواں سال— اور یہاں بھی کم و بیش یہ وہی رشتہ تھا جو مولانا رومی نے شمش تبریزؒ کی صحبت میں دیکھا تھا— اور یہی وہ لمحہ تھا جب میرے سینے میں عشق حق کی آگ داخل ہوئی اور تخلیق کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔وہ آگ اب بھی میرے وجود کا حصہ ہے—
ابرار رحمانی، آجکل کا دفتر اور ایک ادھورے وعدے کی سسکتی داستان
مجھے ابرار رحمانی کا چہرہ یاد ہے…. وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں—
’حسن صاحب کے یہاں چلنا ہے…. آپ کو معلوم ہے نا….‘
’ہاں— وہ بہت بیمار ہیں—‘
’حسن صاحب پر میں ایک گوشہ نکالنا چاہتا ہوں۔ ان کی اپنی زندگی میں۔ آپ کو پتہ ہے…. میں نے فون کیا تھا….‘ ابرار رحمانی کی آواز میں تھرتھراہٹ ہے…. میری آواز سنتے ہی وہ بول پڑے….’ ابرار…. آجاو
¿…. آجاو
¿….‘ یہ آجاو
¿…. آجاو
¿ کی آواز ذہن سے گم ہی نہیں ہوتی— کب چلیں گے….؟‘
’اگلے سومبار….‘
’بھولیے گا مت…. ہم دونوں ساتھ چلیں گے—‘
مفاد پرست اور مکاروں کی اس دنیا میں حقیقی محبت کا یہ چہرہ روشن ہے…. مگر تب کیا معلوم تھا کہ خواب اور حقیقت میں کتنا فاصلہ ہے— زندگی اچانک امتحان لینے کا ارادہ کر بیٹھتی ہے…. اور ایک ایسا ناقابلِ فراموش زخم دے جاتی ہے، جو ساری زندگی آپ کو ٹیس دیتا رہتا ہے— وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔ ایک ضروری کام کے لیے مجھے لکھنو
¿ جانا پڑا…. آگ اڑاتی سڑکیں— تپش ایسی کہ جسم کے ریزے ریزے میں اتر جائیں— دوپہر کا وقت تھا— موبائل کی گھنٹی بجی…. دوسری طرف کمال جعفری تھے— مشہور شاعر— آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ آپ نے خبر سنی— ابھی کچھ دیر پہلے ارتضیٰ کریم کو فون کیا تھا— بولے ۔ ڈاکٹر محمد حسن کا انتقال ہوگیا۔ نماز جنازہ میں شامل ہونے کے لیے آیا ہوں….
ابرار رحمانی کا چہرہ آنکھوں کے پردے پر کوند گیا— دیکھئے…. وہ بہت پیار سے بلا رہے تھے…. ابرار…. آجاو
¿…. آجاو
¿….‘
از غم ما روز ہا بیگاہ شد
روز ہا با سوزہا ہمراہ شد
غم ایسا کہ زندگی کے یہ لمحے اچانک اجنبی ہوگئے ہیں— اور میرے شب و روز میں جدائی کا یہ زخم شامل ہوگیا ہے….
کمال جعفری سے کہتا ہوں…. ابھی بات نہیں کر پاو
¿ں گا۔ ایک دنیا ابھی اس لمحے مجھ سے دور ہو گئی ہے— آپ نہیں جانتے میں نے کیا کھویا ہے…. یہ جتنا اردو دنیا کا نقصان ہے، اتنا ہی میرا ذاتی نقصان بھی—
اودھ انٹر نیشنل کا کمرہ نمبر ۱۱۱— کمرہ گھوم رہا ہے…. آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ کہیں دور جھانجھریں بج رہی ہیں….
گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈالے کیس
چل خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چودیس
امیر خسرو بھی تو پردیس میں تھے جب محبوب کے جہاں سے پردہ فرمانے کی خبر ملی تھی— میرا محبوب بھی گم ہے…. وہ معصوم سا چہرہ…. جو مجھے کبھی اس دنیا کا عام چہرہ نہیں لگا— ہزاروں لاکھوں لکھنے والے…. سے می نار سجانے والے…. راتوں رات خبر بن جانے والے…. اچھے بھی— برے بھی— عیاراور مکار بھی— خود پر مضامین لکھوانے والے۔ اپنی کتابوں کا ڈھول پیٹنے والے…. لیکن یہ خاموش سنجیدہ چہرہ…. اس چہرہ میں ادب کے سنجیدہ فرشتے کی روح بسی ہوئی تھی…. اب یہ چہرہ نہیں ہے…. اب اس چہرے کو کبھی دیکھ نہیں پاو
¿ں گا…. میں رو رہا ہوں…. سسک رہا ہوں…. وہ سارے لمحے آنکھوں کے پردے پر زندہ ہوگئے ہیں، جو میری زندگی بھر کا حاصل ہیں….
بوئے آں دلبر چو پراں می شود
ایں زبانہا جملہ حیراں می شود
محبوب کی خوشبو میں صرف حیرتوں کا بسیرا ہے…. آنسو خشک ہیں…. جو جینوئن ہوتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے— وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہم میں زندہ ہوجاتے ہیں…. واقعات کے رتھ تیزی سے آنکھوں کے پردے پر گھوم رہے ہیں—
آرہ کے آخری شب و روز، دلّی کی گلیاں اور حسن صاحب
سن انیس سو پچاسی — میں نے آرہ چھوڑ دیا— آرہ چھوڑتے ہوئے حسن صاحب کی محبت کی میراث لے کر دلّی آگیا— آنے کے فوراً بعد ہی ان سے ملا تھا۔ وہ حیران تھے…. شاید میرے اندر سو ر باڑی والی کہانی کے خالق کو تلاش کر رہے تھے…. وہ مجھ سے مل کر خوش تھے۔ کیریئر نہیں، وہ مجھ سے میری کہانیوں کے بارے میں ہی جاننا چاہتے تھے— وہ پر امید تھے…. ایسی کہانیاں صرف تم لکھ سکتے ہو ذوقی— اور پھر وہی جملہ— اپنے اندر کی آگ کو کبھی بجھنے مت دینا— یہ وہی دور تھا جب مجھے حسن صاحب سے لے کر ان تمام لوگوں سے عشق تھا، جنہوں نے حسن صاحب کو دیکھا تھا…. یا اُن کے شاگرد تھے…. یا حسن صاحب جن سے خاص محبت رکھتے تھے۔ انہی دنوں پیٹ کی خاطر میں کانگریس پارٹی سے نکلنے والے ایک رسالہ دل جگت سے وابستہ ہوگیا تھا۔ آفس ہوٹل جن پتھ کے ٹھیک سامنے تھی۔ ایک دن ۴ نوجوان ملنے آئے…. یہ شایدستاسی یا اٹھاسی کی بات ہوگی— ایک خوبصورت چہرہ انور پاشا کا تھا— انور پاشا تب بھی داڑھی رکھتے تھے۔ آنکھیں بڑی بڑی اور گھنی— ساتھ میں ابرار رحمانی کی پر کشش شخصیت بھی تھی۔ توحید صاحب تھے— پیش رو، نکالنے کی بات چل رہی تھی۔ ڈاکٹر محمد حسن کا ذکر بار بار آیا— اور یہ چہرے اس وقت سے میرے اپنے چہرے بن گئے— ان سب میں ڈاکٹر صاحب کاعکس کہیں نہ کہیں موجود تھا۔ جیسے ایک ظاہری نقش میں کہیں نہ کہیں کسی کی موجودگی یا آگا ہی کا احساس پوشیدہ ہوتا ہے…. تخلیق سے الگ بھی ایک چہرہ ہوتا ہے، اس خالق کا— جہاں گنجینہ معنی کاچشمہ ابل رہا ہے…. یہ دوستی ہنوز قائم ہے— ان لوگوں نے بھی میری کہانی اور میری کہانی کے تعلق سے حسن صاحب کی رائے پڑھ رکھی تھی—
سن انیس سو اٹھاسی ،(جولائی) عصری ادب کے شمارہ میں حسن صاحب کا ایک مضمون شامل تھا— ’نئے زاویے، ہندستان میں نئی اردو شاعری اور نئے افسانے کے نو رتن‘— ان نو رتنوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس کا آزادانہ اظہار بھی کیا تھا—
’انیس سو اکہتر میں عصری ادب نکلا تو پچھلے دس سال کی اردو غزل، نظم، افسانے کے خزانوں کو کھنگالا گیا— یہ اصول پیش نظر رکھا گیا کہ اس مدت میں جن شاعروں اور نثر نگاروں کی کتاب چھپی ہیں، ان کا ذکر کیا جائے۔ اور نئے میلانات کا تجزیہ کیا جائے۔ اب اس کی ضرورت ایک بار پھر ہے— بیس سال ہونے کو آئے۔ دو دہائیاں بیت گئیں— انہی خیالات میں الجھے ہوئے جی چاہا کہ اپنی پسند کے شاعروں اور افسانہ نگاروں کی ذرا فہرست سازی کی جائے—
جب یہ شمارہ منظر عام پر آیا، میری عمر ۶۲ سال کی تھی— اور افسانوں کے نو رتنوں میں سب سے پہلا رتن میں تھا— میرے بعد سلام بن رزاق، حسین الحق، عبد الصمد، کنور سین، ایم منوجہ، قاسم خورشید، انور خاں اور شفق کے نام درج تھے— انہوں نے آگے لکھا تھا— ’ اس میں شوکت حیات، اشرف، علی امام نقوی کے نام نہیں آسکے— ان کی کہانیاں فکر انگیز اور کیفیت سے بھرپور ہیں مگر کامیاب کہانیوں کا تسلسل قائم نہیں رہا ہے—‘
احترام و عقیدت کا ایک نیا آسمان سامنے تھا۔
عشق می گوید بگوشم پست پست
صید بودن بہتر از صیادی ست
عشق نے میرے کانوں میں کہا کہ صید ہونا، صیادی سے بہتر ہے— خود کو اس محبت کی تجلی کے حوالے کر دے۔
بر درم ساکن شود بے خانہ باش
دعویٰ شمعی مکن پروانہ باش
عشق نے کہا، میرے دروازہ پر آجا— شمع ہونے کا دعویٰ مت کر…. احترام کی ان گلیوں میں اب جانا کم ہوگیا تھا— دلی کی مصروفیات نے مجھے گرفتار کر لیا— سے می ناروں میں چھا جانے والے ذوقی کی زبان اس محبوب کے سامنے گنگ ہوجاتی تھی۔ میں اکثر سوچتا تھا، میری سحر بیانی یا خوش الحانی ڈاکٹر کے سامنے کہاں گم ہوجاتی ہے— اور اس کا جواب تھا، میں اپنے پروانہ ہونے میں خوش تھا۔ عشق کی شمع کے آگے جل جاتے، فنا ہوجانے والا پروانہ—
اس درمیان ملک کی فضا بد سے بدتر ہوئی اور بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا۔ میں نے اپنا ناول بیان مکمل کیا— اور اس کی پہلی کاپی خود ڈاکٹر صبح کو پیش کرنے گیا— صبح دس بجے میں نے اپنا ناول ان کے سپرد کیا تھا اور ٹھیک دو بجے ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا— وہ ناول پڑھ چکے تھے— وہ رو رہے تھے— ذوقی تم نے کیسے لکھا یہ سب کچھ…. میں تمہیں ایک خط لکھ رہا ہوں— خط کو پڑھتے ہی میرے احساس کو سمجھ جاو
¿ گے—
کچھ ہی دنوں بعد ڈاک سے حسن صاحب کا خط ملا تھا۔ ایک بار پھر عقیدت اور محبت کے رقص کرتے تارے میری جھولی میں آ گرے تھے—
”ذوقی!
کیسے لکھ پائے تم
اتنا دل دوز المیہ
بغیر خون کے آنسوو
¿ں کے/
سچ یہ ہے کہ ذوقی، تم نے ایک عظیم ناول لکھا ہے۔ بیان: اور خون جگر سے لکھا ہے— ہر لفظ کثرت استعمال سے گونگا ہوجاتا ہے۔ میرے لفظوں کا بھی یہی ہے حال ہے کہ وہ اس ڈھڑکتے ہوئے ناول کی کیفیات کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ صرف آنکھ میں تیرتے آنسو ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ اقبال نے داغ پر نظم لکھی تھی جس میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جس طرح سعدی۔ بغداد کی تباہی پر اور ابن بدروں قرطبہ کی بربادی پر فریادی ہوئے تھے اسی طرح جہاں آباد کی تہذیب کا ماتم داغ کے نصیب میں تھا۔ تقسیم ہند اور اس سے پیدا شدہ تباہی پر بہت کچھ لکھا گیا مگر ۶ دسمبر کی تباہی اس سے مختلف بھی تھی اور اس سے کہیں زیادہ بھیانک بھی کہ اس نے ہمیشہ کے لیے بال مکند شرما جوش جیسے انسان نما فرشتہ شاعرکوپایا تھا— اور اس کا کیسا عبرت ناک انجام…. جس پر جان دینے کے لیے اکیلے بالمکند شرما جوش— قتل ہونے کے لیے منا— اور اس المیہ کو رقم کرنے والے تم…. اس زندہ المیہ کو ناول کی حیثیت سے دیکھنا یا اس پر کچھ لکھنا بھی ستم ہے…. یوں بھی ابھی ہم اس سے پوری طرح گزرے کہاں ہیں، گزر رہے ہیں۔ تمہارے اس ناول کو ناول کی طرح پڑھنے اور پرکھنے کے لیے ابھی کچھ اور وقت اور کچھ اور فاصلہ درکار ہے۔ ابھی تو ایک ایسا کاری زخم ہے جس سے رہ رہ کر خون ابلتا ہے، اسے میں احتجاج نہیں کہوں گا۔ اسے میں دور حاضر کی گواہی بھی نہیں کہوں گا۔ یہ ناول ان اصطلاحوں سے کہیں بڑا ہے اور ان دو متوازی واقعات کے سلسلے پر قایم ہے جو منا کے قتل اور بال مکند شرما جوش کی موت سے عبارت ہے…. بلکہ یوں کہوں کہ ان دونوں کے ساتھ ایک عظیم تہذیب کے قتل سے عبارت ہے۔ تم نے اسے بڑے اہتمام اور احتیاط سے بیان کر دیا ہے۔ کیسے لکھ پائے تم ایسا دودوز المیہ بغیر خون کے آنسوو
¿ں کے….تمہارے ہاتھ میں قلم ہے— اس کی عزت کرو جو ایسے دردمند لمحوں کی کہانی اس قدر دلدوزی اور دلدودز انداز میں لکھ سکے۔اس ناول کا محاکمہ دیر طلب ہے جب تک ووقت ان زخموں کو بھر نہیں دیتا یہ کام شاید ممکن نہ ہوگا—
اپنی دھن کا اکیلا مسافر
جانِ قربت دیدہ را دوری مدہ
یار شب را روزِ مہجوری مدہ
جس جان نے تیری قربت کا مزہ چکھا ہو اُسے دوری کا عذاب نہ دیجئے— میرا تخلیقی سفر جس کی نعمتوں کا محتاج ہو، اس کے بارے میں کیا لکھوں۔ اپنی دھن کا اکیلا مسافر، نہ تاج و تخت کی پرواہ نہ سیاست کی غرض— خالص ترقی پسند، اور میں یہاں یادوں کے صنم خانے میں تصوف کے موتی چن رہا ہوں— عصری ادب شان سے نکالا— اور یہ رسالہ کوئی عام رسالہ نہ تھا۔ حسن صاحب کو خواص سے زیادہ نئی نسل کی آبیاری کی فکر کھائے جا رہی تھی— اور ساتھ ہی وہ اپنے عہد سے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتے تھے۔ اس لیے ملک گیر حادثہ ہو یا عالمی سیاست، حسن صاحب کے لفظ زمانے کی پرواہ کیے بغیر آگ اگلتے رہتے تھے—
”اور یہاں جس بات پر سب سے کم زور دیا گیا، وہ ہے ادب میں نظریاتی اور حسیاتی خلوص کی تلاش— ادب کی اصل ہے نظر— اور نظر سے ہی نظریہ پیدا ہوتا ہے۔ اور نظریہ جب تک نظر نہ بنے، پروپیگنڈہ رہتا ہے—“
وہ ادب میں پروپیگنڈے کے نہیں نظر کے قائل تھے— اور شاید اسی لیے تخلیقی سفر میں محض لکھا ڑی ہونے کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ شاید اسی لیے وہ ڈرامہ اور اسٹیج کے قائل تھے کہ یہاں سے نظریہ ، نظر بنتا ہوا عام انسانی میلانات کا حصہ بن جاتا ہے۔ خود بھی ڈرامے لکھے اور ایسے ڈرامے جو اردو ڈرامے کی تاریخ کا ایک نایاب حصہ بن گئے— تاریخ کی کتابوں سے ظلم و جبر کی علامت ضحاک میں اپنے عہد کے المیہ کو تلاش کر لیا— اور اس بہانے سے سرمایہ دارانہ استحصال کو انسانی تہذیب کی تباہی بتا کر اپنے نظریہ اور نظر دونوں کی وکالت کر دی— زندگی کے آخری سفر تک بے تکان لکھنے کا سلسلہ جاری رہا— یہاں تک کہ مشہور شاعر مجاز کی یاد میں ناول لکھ ڈالا— غم دل، وحشت دل— اور کیا عجیب اتفاق کہ یادوں کی ہر رہگزر پر میں ان کے شامل رہا اور ہر اک کہانی سے نکلتی شاخیں کہیں نہ کہیں سے ہوتی ہوئی مجھ تک پہنچتی رہیں— ۹۰۰۲ کی سردیاں شروع ہوچکی تھیں— دور درشن کے اردو چینل کے لیے میرے ایک پروڈیوسر دوست کو سیریل بنانے کے لیے ایک عدد بڑے ناول کی ضرورت تھی۔ کتنا عرصہ گزر گیا تھا— جیسے ایک بہانہ مل گیا— میں نے فون کیا — فون بھابھی نے اٹھایا تھا۔ پھر حسن صاحب کو فون دے دیا— نعرہ
¿ مستانہ خوش می آمدم— وہ چہکتی ہوئی نحیف و لاغر آواز جیسے اب بھی مجھ میں گونج رہی ہے— دوسرے دن میں اپنے دوست کے ساتھ وہاں گیا تھا— ان کی معیت میں اپنے اندر کے تخلیقی نور کا جائزہ لینا بھی مقصود تھا— وہ بستر مرگ پر تھے— کمرے میں گہری خاموشی— ایک کمزور جسم میرے سامنے تھا— خوابوں میں بھی میں ایسی کمزوری کا احساس ممکن نہیں تھا— مگر بیحد کمزوری کے عالم میں بھی وہ آنکھیں بقعہ
¿ نور کی طرح روشن تھیں— مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میری آخری ملاقات ہے— اچانک اس پل جسے اس نحیف جسم میں جانے کہاں سے برقی توانائی دوڑ گئی تھی۔ ٹوٹتے کمزور لہجے میں وہ بتا رہے تھے— بہت سا کام آدھا ادھورا ہے…. لے جاو
¿ ذوقی۔ وہ حضرت محل کا ذکر کررہے تھے۔ شاید حضرت محل پر بھی کوئی ڈرامہ لکھنا تھا— میں ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ کانپتی ہتھیلیوں نے میرے ہاتھوں کو تھام لیا تھا— شاید وہ بہت کچھ بولنا، بہت کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔ لیکن— یار شب را روز مہجوری مدہ— تب کیا معلوم تھا کہ یہ آنکھیں عقب کے اس پار یادوں کی ان وادیوں میں کھو جائیں گی کہ انہیں تلاش کرنے کی آرزو میں صرف آنسوو
¿ں میں ڈوبی ایک سڑک ہوگی اور ان آنسوو
¿ں کا بوجھ ڈھوتا ہوا میں—
میں آستانہ سے باہر آیا— باہر آتے ہوئے کتنے ہی یادیں میرا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ ایک بیان اور لکھ ڈالو— یاد آیا…. میں نے ان پر آدھے گھنٹے کی ایک فلم بنائی تھی— تین دن تک ان کے گھر میں شوٹنگ کی تھی۔ بھابھی کے علاوہ انہوں نے اپنی بیٹی کو بھی بلا لیا تھا— پھر دنیا بھر کی یادیں— مجاز، فیض، جوش، کلیم الدین احمد— زندگی— آپ بیتی، جگ بیتی— ان تین دنوں میں وہ سب کچھ بھول گئے تھے— اور میرے لیے یہ تین دن، صدیوں کے برابر— عقیدت کے ہر دروازے پر ایک فانوس روشن تھا— اور یہ لمحے عالم غیب سے مجھے ودیعت کیے گئے تھے— یادوں کی اسی رہگزر پر ابھی بھی ہزاروں واقعات کی شمع روشن ہے— لیکن ان میں کچھ ایسی یادیں ہیں‘ جتنی ابھی لکھنا مناسبنہیں — شاید وقت اور عمر وفا کرے تو انہیں لکھنا چاہوں گا— کہ وہ ہر موڑ پر ایک مرشد، ایک گائڈ کی طرح میرے ساتھ کھڑے تھے— اور اپنی رحمت کے کیمیائی اثر سے میری تخلیقی سلطنت کو فیض پہنچانے کے خواہش مند تھے—
میں نے پہلے بھی کہا ہے ، وہ خالص ترقی پسند تھے— اور شاید آخری ترقی پسند بھی۔ وہ جنون، وہ آگ جو میں نے آخری وقت تک ان کے یہاں روشن دیکھی، کسی میں بھی محسوس نہیں کی— وہ آخری وقت تک اپنے نظریہ پر قائم تھے— اور شاید ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔ لیکن ادبی سیاست اور گروہ بندیوں نے انہیں کب کا تنہااور اکیلا کردیا تھا۔ ان سے ہزاروں بڑے کام لیے جاسکتے تھے۔ ان کے مشاہدہ فیض سے ان ہزاروں یادوں کو ایک کتاب میں جمع کیا جاسکتا تھا…. آخری وقت تک ان میں جنون، جوش اور محبت کی کمی نہ تھی— اور بھابھی برے سے برے موسم میں بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار— مجھے آخری ملاقات کی وہ بولتی، چمکتی آنکھیں اب بھی یاد ہیں— یہ آنکھیں جیسے اب بھی میرے تعاقب میں ہیں—
سہر العیون بغیر وجھک ضائع
و بکاو
¿ہن بغیر وجھک باطل
اور میں سوچتا ہوں…. میرے محبوب، اب یہ آنکھیں آپ کے علاوہ کس کا دیدار کریں۔ کس کے لیے جاگیں—؟ آپ کی جدائی کے علاوہ کسی کے لیے بھی رونا باطل ہے…. ابرار رحمانی کی آواز گونج رہی ہے…. ’انہوں نے بلایا ہے…. ابرار آجاو
¿…. آجاو
¿….‘
دور تک سناٹا— دھند میں کھوئے ہوئے راستے— آخری سفر کو کندھا نہ دے پانے کی کسک…. ابرار کی لرزتی آواز— ادب و سیاست کی مکروہ فضا میں ، آخری ملاقات میں وہ چمکتی آنکھیں— کہیں دور بجتی مولانا روم کی بانسری کی آواز…. بشنو از نے چوں حکایت می کند…. اور کہیں…. امیر خسرو کے نقارہ
¿ دل سے گونجتی صدا…. گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس…. صبر بگذیدند و صد یقیں شدند— جنہوں نے صبر اختیار کیا، وہ صدیقیت کی منزل پر پہنچ گئے— صبر ہی تمہیں ان تخلیقی منزلوں پر پہنچائے گا، جس کا خواب تمہارے مرشد نے دیکھا تھا….
کہیں دور جھانجھریں بج رہی ہیں— چل ذوقی گھر آپنے سانجھ بھئی چودیس—!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“