میں یوٹیوب میں ایک مزاکرہ دیکھ رہا تھا کہ نیچے تازہ خبروں دیکھائی جارہی تھیں ان میں ایک خبر چل رہی تھی کہ نیوی کے ایڈمڑل ظفر محمود عباسی صاحب نے پاکستان نیوی کو خراج تحسین پیش کیا تھا کہ اس نے دوراکا میں 1965 میں پاکستان نیوی کے جہازوں نے جاکر ڑیدار تباہ کرکے اسے خوفزدہ کردیا کہ وہ باہر نکلنے کے قابل ہی نہیں رہی۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے پاکستان نیوی نے اندھی جرت کے ساتھ دوراکا کے بھارتی ریڈار تباہ کیا۔ جس سے بھارت کو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا اور نہیں پاکستان کو کوئی خاص فائدہ ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے بھارتی بحریہ خوفزدہ تھی اس لیے اگر تھوڑی سی جرت کا مظاہر کرتی تو نقشہ کچھ اور ہوتا۔ جیسا کہ اس نے 71 میں مظاہرہ کیا تھا۔ اس پر مجھے ایک واقع یاد آگیا جس کا تعلق اسی واقعہ سے ہے۔ یہ 1998 کی بات ہے میں خالد اسحقٰ کے فورم کی بات ہے۔ یہ شاید اگست کا مہینہ تھا اور نواز شریف صاحب نے میڈم نور جہاں اور الن فقیر کو نشان پاکستان دیا تھا۔ لیکن اس وقت وہاں کسی اور موضع پر بات ہورہی تھی کہ ریٹائر ایڈمرل ایم آئی ارشد صاحب غصہ میں اندر داخل ہوئے اور اندر آکر کھڑے کھڑے وہ بولے۔ نواز شریف نے ایک کنجری کو نشان پاکستان دیا ہے۔ اب ہم اس کنجری کو سلوٹ ماریں گے۔ ایڈمرل صاحب نے زرا زور سے کہا۔
یاد رہے نشان پاکستان فوج کے نشان حیدر کے برابر ہوتا ہے۔ ان اعزاز پانے والوں کا احترم ہر وردی پوش پر لازم اسے سلوٹ مارے۔ اس طرح یہ اعزاز پانے والا شخص کسی گورنمٹ ادارے میں جائے تو اس ادارے کے سربراہ پر لازم ہے کہ وہ باہر آکر اس کا استقبال کرے، چاہے وہ صدر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے نشان پاکستان عموماً غیر ملکی سربراہوں کو دیے جاتے ہیں اور نشان حیدر کسی زندہ افسر یا سپاہی کو نہیں دیا جاتا ہے کہ ہر کسی کو اس کو سلوٹ مارنا پڑے گا اور اس کا استقبال باہر آکر کرنا پڑے گا۔ کار گل کی جنگ میں ایک بھارتی افسر کو غلطی سے ویر چکر دے دیا گیا تھا جو کہ پاکستان کے نشان حیدر کے برابر ہوتا ہے۔ بعد میں پتہ کہ وہ افسر زندہ ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔ اس پر بڑا مسلہ پیدا ہوا تھا اور انکوائریاں وغیرہ شروع ہوئیں تھیں۔ مجھے نہیں معلوم اس کا نتیجہ کیا نکلا؟
ایک اور صاحب جن کا نام مجھے یاد نہیں آرہا ہے انہوں نے بھئی ہم نے تو غیر ملکوں میں دیکھا ہے ایسا اکثر ہوتا ہے۔ ایڈمرل صاحب کچھ نہ بولے
میں نے ایڈمرل ایم آئی ارشد صاحب سے سوال کیا ارشد صاحب یہ اعزاز پھر کسے ملنا چاہیے؟ ایڈمرل صاحب نے جواب زرا زور دار آواز میں جواب دیا ہمیں ملنا چاہیے کیوں کہ ہم جنگ لڑتے ہیں۔
اس میں کہا ارشد صاحب اول تو یہ سول اعزاز ہے اور اس کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آپ نے جنگ لڑنے کی بات کی ہے اس لیے میں آپ سے جنگ پر کچھ بات کرلوں۔
ہاں ہاں کریں بات۔ ایڈمرل صاحب نے جواب
سب میری طرف دیکھ رہے تھے۔ میں ایڈمرل صاحب سے کہا کہ آپ کا تعلق نیوی سے ہے اس لیے آپ سے نیوی کے مطلق کچھ پوچھوں گا۔ 1971کی بات تو رہنے دیں۔ اس میں آپ کی جو کارکردگی تھی وہ سب کے سامنے ہے۔ ہاں 1965 کی بات کرلیتا ہوں۔ نیوی نے اس جنگ میں جو سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا تھا وہ خلیج کچھ میں پاکستان نیوی کے پانچ فری گیٹ گئے اور وہاں جاکر ایک ریڈار کو تباہ کیا تھا۔ کیا یہ غلط اقدام نہیں تھا؟
کیوں؟ جنگ میں تو یہی ہوتا ہے۔ ادیڈمرل صاحب نے کہا
میں نے کہا جو کام محض دو طیارے جاکر کرسکتے تھے وہ کام آپ کے پانچ فری گیٹ نے کیا تھا۔ اس موقع پر اگر بھارتی بحریہ تھوڑی سے پھرتی دیکھاتی اور خلیج کچھ میں پاکستانی نیوی کے فری گیٹوں کا محاصرہ کرلتی تو پاکستانی فری گیٹ یا تو تباہ ہوجاتے یا انہیں ہتھیار ڈالنے پڑتے۔
اس پر ایڈمرل صاحب نے کہا جنگوں میں یہی ہوتا ہم اور کیا کرتے؟
میں کہا کیوں آپ کے فری گیٹ بحیرہ عرب میں پھیل جاتے اور بھارتی مرچنٹ شپ کو جو عرب بندر گاہوں میں آزادنہ جارہے تھے، انہیں پکڑتے۔
اس پر ایڈمرل صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا۔
مسلہ یہ ہمارے سپاہی ہوں یا عام آدمی وہ جزباتی بہت ہیں۔ جان دینا تو جاتے ہیں لیکن اچھی منصوبہ بندی نہیں کرتے ہیں جس کا خمیار انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ حملہ بھی ہماری منصوبہ بندی، اندھی جرت اور ناقص منصوبہ بندی کی کہانی ہے۔ میں ناقص منصوبندی اور اندھی جرت کی بہت سی مثالیں دے سکتا ہوں۔ مگر بات لمبی ہوجائے گی۔ یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ جان دینا کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال تو یہ ایسی منصوبہ بندی ہو کہ کم سے کم نقصان میں اپنا مقصد پورا کرے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...