اظہار صاحب سے پوچھا ، یہ جو سمارٹ سے صاحب ابھی باہر نکلے ہیں، کون ہیں؟
انہوں نے جواب دیا، ارے آپ نہیں جانتے، یہ بڑے اچھے افسانہ نگار ہیں، یونس جاوید۔ ان کا رسالہ صحیفہ بھی ہم چھاپتے ہیں۔
یہ بات ہے 1974 کے مارچ کی۔
میں پنجاب یونیورسٹی داخل ہو گیا تھا ، لیکن ہمارا ایس ای کالج بہاولپور کا میگزین ’’نخلستان ادب‘‘، جس کا میں مدیر تھا، ابھی زیر طباعت تھا۔ اسی کی پروف ریڈنگ کیلئے میں ٹمپل روڈ پر سید اظہارالحسن رضوی کے پرنٹنگ پریس “مطبع عالیہ” گیا تھا۔
یونس جاوید کو پہلی بار تب دیکھا۔ اس وقت تعارف نہ ہوا لیکن پھر تین سال بعد جب میں امروز میں گیا تو پاک ٹی ہاؤس جانا روز کا معمول ہوگیا اور یونس جاوید سے ملاقات بھی… وہ دوستی برقرار ہے۔
آج ان کی سالگرہ ہے ۔۔۔ مبارک باد
کہتے ہیں قیام پاکستان سے قبل انارکلی میں مسلمانوں کی صرف تین دکانیں تھیں۔ان میں سے ایک یونس جاوید کے والد کی تھی۔ عمدہ امپورٹڈ فاؤنٹین پین ان کی خاص آئیٹم تھی، جس کا ان دنوں پڑھے لکھے لوگوں میں کریز ہوتا تھا۔ سو دکان پر اہل علم و ادب کا آنا جانا تھا۔یوں ان بزرگوں سے یونس جاوید کا بچپن میں ہی تعارف ہوگیا۔
یونس جاوید نے پہلے چینیاں والی مسجد سےقرآن پاک حفظ کیا۔ رسمی تعلیم بعد میں حاصل کی۔ اس دوران کئی مسجدوں میں تراویح بھی پڑھائیں۔ پھر مجلس ترقی ادب میں ملازم ہوئے۔ مزید تعلیم حاصل کرنے میں بعض بزرگ معاون ہوئے تو بعض مزاحم، بہرحال ایم اے اردو اور پھر حلقہ ارباب ذوق پر پی ایچ ڈی کرلیا۔
افسانہ نگاری کی ابتدا تھی ۔ میرزا ادیب ’’ادب لطیف ‘‘کے ایڈیٹر تھے۔ وہ اہل خانہ کے ساتھی مری گئے تو یونس جاوید کے ذمے لگا گئے کہ رسالے کی کاپیاں اپنی نگرانی میں جڑوا کر پریس بھجوا دینا ۔ یونس جاوید نے اپنا بھی ایک افسانہ کتابت کراکے لگا دیا۔ رسالہ چھپ کر آیا تو میرزا ادیب بہت ناراض ہوئے۔ یونس جاوید کو چائے جلیبیوں سے منانا پڑا۔ لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ افسانہ ادب لطیف کے معیار کا نہیں تھا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔
یونس جاوید کی کہانیوں، ڈراموں کے مجموعے، ناول اور دوسری یہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں: آخرِ شب، تیز ہوا کا شور، آوازیں، میں ایک زندہ عورت ہوں، ربا سچیا رب قدیر، ایک چہرہ یہ بھی ہے،کنجری کا پل، ستونت سنگھہ کا کالا دن، کلیات ناسخ، اقبالیات کی مختلف جہتیں صحیفۂ اقبال، احمد بشیر کے خاکے ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘، بہاؤ الدین زکریا (تصوّف)، رنجش اور دل کا دروازہ کھلا ہے۔
طویل دورانئے کا ڈرامہ ’’کانچ کا پل‘‘ لکھہ کر بڑے ڈرامہ نگاروں میں اپنی جگہ بنا لی۔ اس ڈرامے نے ڈرامہ 81ء، 82ء، 83ء اور ڈرامہ 88ء کی بنیاد رکھی۔
ایک بار کسی کام سے رات تھوڑی دیر کیلئے تھانے گئے، وہاں ایس ایچ او کو نیند میں بڑبڑاتے دیکھا تو اس کردار کو لے کر پوری سیریل ’’اندھیرا اجالا‘‘ لکھہ ڈالی ۔
دھوپ دیوار، ساون روپ، وادیٔ پرخار، پھولوں والا راستہ اور رگوں میں اندھیرا،زاد راہ، صبح جمال، عشق سے تیرا وجود، دیارِ عشق اور عہدِ وفا ان کےیادگار ڈرامے ہیں ۔ ’’کانچ کا پل‘‘ چین میں بیجنگ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے۔ ’’ڈائریکٹ حوالدار‘‘ سمیت تین فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔
حکومت پاکستان نے ان کے فن کے اعتراف میں 14 اگست 2013 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔