اندھیر نگری اور کس کو کہیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوائے الجزیرہ کے دنیا بھر کے کسی میڈیا نے افغانستان میں ہونے والےنہایت بہیمانہ قتلِ عام کی خبر نہیں دی۔ بی بی سی اردو کا ہوم پیج دیکھ لیں، میں تصویر اٹیچ کررہاہوں۔ کہاں گیا آج وسعت اللہ خان کا وہ دبنگ لہجہ یا عدنان کاکڑ کا شدید طنز؟ صاف ظاہر ہے کہ ہرکوئی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لکھتاہے۔ اگروہاں کوئی طالبان لیڈر گیا ہوا بھی تھا تو وہ افغانی طالبان کا لیڈرتھا جو قطعی طورپر دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ مزاحمت کار اور حریت پسند ہیں۔ ہمیں افغانستان میں مزاحمت کرنے والے حریت پسند گروہوں کے ساتھ ویسا ہی ہمدردی کا سلوک کرناہوگا جس کا مظاہرہ ہم کشمیر میں انڈیا کے مظالم کا شکار ہونے والوں کے لیے کرتے ہیں۔ اگروہ مذہب کے نام پر اکھٹے ہوکر مزاحمت کرسکتے ہیں تو انہیں حق ہے ایسا کرنے کا۔ انہیں اکھٹا ہونے کے لیے جو بھی نعرہ دستیاب ہوسکتاہے، انہیں اُس نعرے کو استعمال کرنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ ان کے دیس کوگزشتہ پچاس سال سے دراندازوں نے اپنی وحشتوں کا مرکز بنارکھاہے۔ مغلوبوں کو اکھٹاہونے کے لیے قوم، زبان، وطن، رنگ، نسل، مارکسزم، سرخ انقلاب یا مذہب کوئی بھی نعرہ میسر ہو تو اسے استعمال کرکے انہیں اکھٹاہوجانا چاہیے۔ بیرونی مداخلت کا کسی قوم کو ذرہ بھر حق نہیں۔ روس ہو یا امریکہ یا نیٹو، کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ انصاف فراہم کرنے کے نام پر دوسروں کی زمینوں پر قبضے کرے اوروہاں کے نہتے شہریوں کا قتل عام کرے۔
یقین جانیے! خود امریکہ کے اندر اب کسی نئے نوم چومسکی کی ضرورت ہے جو اپنی ریاست کو ویتنام وار کی طرح پھر روشنی کا راستہ دکھائے اور کھلم کھلا احتجاج کرے، کیونکہ ہماری تو ہڈیوں کا گُودا تک سُوکھ چکاہے۔ ہم، بقول ابولکلام اُن کے دسترخوان کی چچوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرنے والی قوم ہیں، احتجاج، مقابلہ، جوابی بیانیہ یا کھلم کھلا اختلاف ہمارے بس کا روگ نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“