اندر کے موسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون کے دن تھے۔ گرمی جوبن پہ تھی۔ لُو کے تھپیڑے جسم کو جلائے دیتے تھے۔ ایسے میں ہم علامہ صاحب کے ساتھ اپنی کمپیوٹر شاپ پر بیٹھے ہوئے قدرے محفوظ اور پر سکون ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ شیشے کے دروازے سے باہر کا نظارہ کرنے کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو جاری تھی۔ اتنے میں باہر ایک سائیکل سوار نوجوان آ کر رکا۔ سائیکل کے کیریئر پر ایک دوسرا نوجوان 17 انچ کا ایک مانیٹر سنبھالے بیٹھا تھا جس کا وزن اندازاً پندرہ کلو گرام تو رہا ہو گا (یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایل سی ڈی ابھی نئی نئی آئی تھی اور اس تک سب کی رسائی نہیں تھی)۔ سائیکل رکنے کے بعد کیریئر پر بیٹھا نوجوان مانیٹر کو سنبھالتے ہوئے نیچے اترا۔ دوسرے نے سائیکل کو سٹیند پر کھڑا کیا، آپس میں کوئی بات کی اور پھر دونوں دکان میں داخل ہو گئے۔ دھوپ اور ریت ملی تیز لُو کے باعث دونوں کے چہرے عجیب منظر پیش کر رہے تھے۔ ہم نے انہیں بیٹھنے کے لئے کہ کر ٹھنڈا پانی پیش کیا جسے پی کر ان کے اوسان کچھ بحال ہوئے تو ہم نے پوچھا جی فرمایئے۔ "یہ مانیٹر چیک کریں۔ رات چلتا بند کیا تھا لیکن اب ڈسپلے نہیں دے رہا" ان میں سے ایک نے میز پر رکھے مانیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے مانیٹر کو کمپیوٹر سے منسلک کرنے کے بعد آن کیا تو پاور لائٹ جل رہی تھی لیکن سکرین ڈسپلے ندارد۔ مانیٹر کے فرنٹ پینل کے نچلی طرف لگے لائٹ کم زیادہ کرنے والے بٹن کو گھمایا تو سکرین روشن ہو گئی۔ (شاید صفائی کے دوران کپڑا لگنے سے بٹن گھوما تھا اور لائٹ بند ہو گئی تھی۔) روشن سکرین دیکھ کر ان دونوں نے ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے مزید تسلی کو پوچھا۔ " لائٹ آف تھی کیا"۔ ہم نے مسکراتے ہوئے جی ہاں کہا تو۔ بولے "ہم نے تو سب چیک کیا تھا بس یہ بٹن نہیں دیکھا تھا، خیر اب اس خدمت کے لئے کیا پیش کریں؟" ہم نے علامہ صاحب کی طرف دیکھا جو قہقہہ لگانے کو پر تول رہے تھے۔ ان کے قہقہے میں شریک ہوتے ہوئے ہم نے جواب دیا "آپ کی غائب دماغی کی کافی سزا اس گرمی اور لُو کی صورت آپ کو مل چکی ہے سو آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔ بس صفائی کرنے والے یا والی کی کلاس نہیں لینی جا کر" بے ساختہ ہنسی ہنستے ہوئے وہ دونوں روانہ ہوئے اور ہم علامہ صاحب کے ساتھ دورِ حاضر میں غائب دماغی/ اندرونی و بیرونی الجھنوں وغیرہ کی وجوہات اور ان کے اثرات و نتائج پر گفتگو میں منہمک ہو گئے۔
۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“