آج – ٢٩؍جولائی ١٩٦٩
رومانی غزل گو،مترجم ،مدیر ،اپنی غزل "دیر لگی آنے میں لیکن ۔۔۔"کے لیے مشہور ممتاز شاعر” عندلیبؔ شادانی صاحب “ کا یومِ وفات…
عندلیبؔ شادانی کا شمار اردو کے ممتاز رومانی شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری کی شدید رومانی فضا کی وجہ سے بہت مقبول اور مشہور ہوئے ۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے کہانیاں اور تنقیدی و سوانحی مضامین بھی لکھے۔ یکم مارچ 1904 کو پیدا ہوئے ۔ وطن سنبھل ضلع مراد آباد تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارسی ادبیات میں ایم اے کیا اور 1934 میں لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصے تک ہندو کالج دہلی میں اردو اور فارسی کے لکچرر رہے اس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں لکچرر مقرر ہوئے ۔ 29 جولائی 1969 کو ڈھاکہ میں ہی انتقال ہوا۔ ’نشاطِ رفتہ‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا ۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں : نقش بدیع ، اردو غزل گوئی اور دور حاضر، سرود رفتہ ، سچی کہانیاں ، شرح رباعیات بابا طاہر ، نوش ونیش تحقیق کی روشنی میں ، جدید فارسی زبان پر فرانسیسی کے اثرات۔ عندلیب شادانی نے ’خاور‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا ۔ اس رسالے کے ذریعے ڈھاکہ میں اردو ادب وشاعری کے حوالے سے ایک نئی بیداری کا آغاز ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر عندلیبؔ شادانی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
تصویر میں نے مانگی تھی شوخی تو دیکھیے
اک پھول اس نے بھیج دیا ہے گلاب کا
—–
مجھے الزام نہ دے ترکِ شکیبائی کا
مجھ سے پوشیدہ ہے عالم تری رعنائی کا
—–
محبت دونوں جانب سے محبت
نہ پوچھو آہ کیسی زندگی ہے
—–
وہ جانِ آرزو کہ ہے سرمایۂ نشاط
کیوں اس کی یاد غم کی گھٹا بن کے دل پہ چھائے
—–
کیا کہیے روئے حسن پہ عالم نقاب کا
منہ پر لیا ہے مہر نے دامن سحاب کا
—–
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
عندلیبؔ شادانی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ