زینب کی خبریں پڑھ رہا ہوں .سرحد کے اس پار ..سرحد کے اس پار دونوں طرف ایک جیسی وحشتیں آباد ہیں .٢٠٠٣ میں گجرات حادثہ ہوا .میری بیٹی رخصت ہوئی .گجرات میں حاملہ کوثر بانو کے ساتھ دہشت گردوں نے جو سلوک کیا ،وہ کبھی نہیں بھول سکتا .ہزاروں .زینب ادھر بھی ہیں ..ادھر بھی ..آج یہ کہانی یاد آ گیی .یہ کہانی گجرات کے نام تھی ..میری بیٹی کے نام تھی ..یہ کہانی اب زینب کے نام ہے .
انعمتہ اور بیکری
(اپنی بیٹی انعمتہ کے نام، جسے اﷲ تعالیٰ نے دیئے، صرف دو سال اور تین مہینے)
-مشرف عالم ذوقی
”سب کچھ ٹھیک تھا اماّں/ تیرے کھائے اچار کی کھٹاس/ تیری چکھی ہوئی مٹّی/ اکثر پہنچتے تھے میرے پاس/ میں بہت خوش تھی اماّں/ مجھے لینی تھی/جلدی ہی اپنے حصّے کی سانس/ مجھے لگنی تھی اپنے حصّے کی بھوک/ مجھے دیکھنی تھی اپنے حصّے کی دھوپ/ ابوّ کی ہتھیلی کا سایہ تیرے پیٹ پر دیکھا تھا میں نے/ مجھے اپنے حصّے کے ابوّ دیکھنے تھے/ پھر جانے کیا ہوا/ میں تیری کو کھ کے ملائم گنگنے اندھیرے سے نکل کر/ کھلتی دھوپ/ پھر تیز آگ میں پہنچ گئی/“ ___انشو مالویہ کے ایک نظم سے
چاروں طرف گہرا سناّٹا ہے اور اس سناّٹے میں اپنی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ جسم بے حس ہے اور روح کے اندر جیسے کسی نے چپکے سے خنجر اُتار دیا ہو۔ مگر___ کوئی چیخ نہیں___ سناّٹا اور گہرے سناّٹے میں دو آنکھیں میرے سامنے معلق ہوگئی ہیں___ میں کچھ بھی نہیں بھولا…. مجھے ایک ایک کرکے ساری باتیں یاد آرہی ہیں___
”وہ آرہی ہے….“
پہلی بار اِس آواز کی ’گونج‘ کے ساتھ ہی میں نے اپنا غصّہ ظاہر کردیا تھا۔
”نہیں، اُسے روک دو۔ یہ کوئی آنے کا موسم نہیں ہے۔ تم نے باہر نہیں دیکھا!“
”باہر….؟“
”باہر جنگل جل رہے ہیں۔ صُجیں جل رہی ہیں۔ راتیں جل رہی ہیں۔ دھوپ میں حدّت ہے اور….“
تبسم نے پہلی بار میری آنکھوں میں جھانکا___ ڈراﺅمت، صبحیں پہلے بھی جلی تھیں۔ راتیں بھی۔ پھر سب ٹھیک ہوگیا۔“
”اِس بار ٹھیک نہیں ہوگا۔ تم نے سنا نہیں۔ رات میں کیسی کیسی ڈراﺅنی آوازیں گونجتی ہیں، جیسے___ سناّٹے اور گُھپ اندھیرے کا فائدہ اُٹھاکر ہزاروں کی تعداد میں بھٹکتی ہوئی روحیں سڑکوں پر نکل آئی ہوں۔“
”ڈراﺅمت___“ہاں سنو، تبسم نے مسکرانے کی کوشش کی ___”وہ آرہی ہے۔اور یہ وقت بھوت پریت کی باتیں کرنے کے لئے نہیں ہے۔تم اس کے نازک نازک قدموں کی چاپ سن رہے ہو نا دیکھو وہ چل رہی ہے وہ آرہی ہے۔“
باہر دھماکہ ہوا تھا ___تیز دھماکہ___
اس رات خاموشی بھی تھی اور آندھی بھی چل رہی تھی___
اس رات سناٹا بھی چھایا تھا اور طوفان بھی تیز تھا___
اس رات برابر دھماکے ہورہے تھے___ برابر…. پچھلے کئی دنوں سے ___ نہیںکئی برسوں سے___ شاید اسی لئے میں الجھنوں میں ڈوبا تھا___
”نہیں انعمتہ، ابھی اتنی جلدی نہیں___ مت آﺅ۔“
”میں آرہی ہوں پاپا___ ڈرو مت“۔
جیسے آندھی رک گئی___ طوفان رخصت ہوگیا___ وحشت آمیز سناٹے کے آسیب غائب ہوگئے۔ وہ شیشے کے ایک چھوٹے سے انکیوبیٹر میں تھی۔
”لو میں آگئی___ مجھ سے باتیں کرو….“
”نہیں کرتا“
”کرنا تو پڑے گا…. انتظار جو کرتے تھے“
”شیشے کے پالنے میں وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ مسکرا اٹھی….“ لیکن سنو میں زیادہ رکوں گی نہیں…. یہ دھماکے مجھے پریشان کرتے ہیں….“
وہ جیسے شیشے کے پالنے سے اُڑ کر میرے سامنے ہوا میں تیر رہی تھی…. آنکھوں سے آنکھوں کی راستے میں ایک جھیل ہوتی ہے…. محبت سے محبت کے سفر میں ایک سمندر ہوتا ہے…. میں جھیل میں تیری ،سمندر میں غوطہ لگایامگر یہ کیا میں میں تو ڈر گئی تھی پاپا جھیل کا پانی گرم تھا اور سمندر آگ کا دریا بن گیا تھا میرے ساتھ کوئی اور بھی تھانہیں شاید میں نے کوئی چیخ سنی تھی میں اس کی آواز کو پہنچانتی تھی۔
انعمتہ زور سے چیخی ….
تبسم غصے سے بولی….”دیکھتے کیا ہو اسے گود میں لو وہ رو رہی ہے“
”نہیں، آہ بھیانک بہت بھیانک“
میں آہستہ آہستہ کچھ بولنے کی کوشش کررہا تھا….میری نظریں اس کے چہرے پر ٹھہر گئی تھیں…. وہ بن رہی تھی جیسا کہ پری میچیور بچے ہوتے ہیں مگر نہیں ، انعمتہ بن چکی تھی…. ہاں، وہ جھیل میں تیری تھی…. دھوپ میں ’چٹکی‘ تھی…. شاید اسی لئے ….
اسی لئے ….
اس لئے وہ بولنا بھول گئی تھی….
چلنا بھول گئی تھی….
بڑھنا بھول گئی تھی….
جبکہ عمر کے گھوڑے نے آہستہ آہستہ اُڑنا سیکھ لیا تھا….
ڈاکٹر کہتے ہیں….تبسم کے چہرے پر خوف ہی خوف تھا۔
وہ بستر پر لیٹی تھی۔ میں انعمتہ میں گُم تھا___ ”یہ آنکھیں میری ہیں…. یہ ہونٹ…. یہ چھوٹے چھوٹے پاﺅں…. یہ ہاتھ….“
ڈاکٹر کہتے ہیں…. تبسم بولتے بولتے رُک گئی…. ”وہ ٹھہر گئی ہے۔ اُس کی سانسیں ٹھہر گئی ہیں۔ اُس کے ہاتھ…. اُس کے پاﺅں…. وقت ٹھہر گیا ہے…. عمر ٹھہر گئی ہے….“
میں نے انعمتہ کو دونوں ہاتھوں میں بھرلیا ہے___ ”نہیں یہ ایسی ہی ہے بس، مجھے یہ ایسے ہی قبول ہے…. بس ایسے ہی….“
دو بڑی بڑی آنکھیں میری آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔ ”پاپا، میں نہ بڑھوں تو….؟ میں نہ اُڑوں تو….“
”نہیں…. سب ٹھیک ہے….“ میں تبسم کی طرف مڑتا ہوں___ آہ، سب ٹھیک…. جوتے کا فیتہ باندھنے اور ٹائی کی ناٹ باندھنے تک…. لوگ مر رہے ہیں۔ آہ، سب ٹھیک___ گلاس میں اسکاچ اُنڈیلنے اور آئینہ میں چہرہ دیکھنے تک….“ لوگ مررہے ہیں…. آہ، سب ٹھیک….“
”دیکھو…. وہ تمہاری طرف دیکھ رہی ہے…. ہنس رہی ہے….“
”ہاں، وہ ہنس سکتی ہے، اس لئے کہ اُس نے سب کچھ دیکھا ہے۔ جانا ہے۔ وہ ہنس سکتی ہے…. وہ ہم سب پر…. یعنی جو کچھ ہورہا ہے…. نہیں___ شاید میں غلط کہہ رہا ہوں…. وہ جو کچھ دیکھ رہی ہے…. وہ ایسی بہت ساری باتوں پر ہنس سکتی ہے….“
”دیکھو…. وہ تم سے باتیں کررہی ہے….!“
پتلے پتلے نازک ہونٹ کھلے تھے…. آنکھوں میں جمی برف پگھلی تھی___ برف پگھلنے سے ایک نظر نہ آنے والی کھڑکی سے خوشبو کا قافلہ نکلا تھا۔ قافلے میں فرشتے ہی فرشتے تھے، جو انعمتہ کو گھیرے کھڑے ہوگئے تھے….
”آہ….خوشبو….تم محسوس کررہے ہو؟‘’ تبسم چونک گئی ہے۔
”ہاں….“
”دیکھو تو سہی…. انعمتہ پھر ہنس رہی ہے….“
”انعمتہ، ہنس سکتی ہے…. کیونکہ فرشتے آگئے ہیں۔“
”فرشتے“! تبسم زور سے چونکی۔ انعمتہ کو دیر تک گھورتی رہی۔ پھر بولی…. آہ، کھانا…. میری بٹیا کھانا کب سے شروع کرے گی___ دودھ پر آخر کب تک رہے گی۔“
”بٹیا دودھ پر ہی رہے گی“…. میں نے نظریں جھکالی …. کیوں کہ میں بٹیا کا سچ جان چکا تھا۔
سچی بات یہ ہے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، وہ پیدا ہوئی تو باہر انسانوں کا جلنا شروع ہوچکا تھا….پہلے بیکری میں بریڈ بنتے تھے بسکٹ، کلچے اور پاپے بنتے تھے کچھ بیکری والوں نے اسپیشل کیک بھی بنانے شروع کردئے تھے۔
میں نے اس سے ناراضگی ظاہر کی …. مجھے سب کچھ یاد ہے میں نے اس سے پوچھا تھا۔
”یہ کون سا موقع ہے پیدا ہونے کا؟“
”کیوں؟“
”باہر دیکھو…. لوگ جل رہے ہیں۔ بیکری جل رہی ہے“
”بیکری میں زندہ انسانوں کو ڈال دیا گیا ہے“
”تو ….؟“
”نہیں، مجھے لگتا ہے، تمہیں آنے کے لئے اس موسم کا انتخاب نہیں کرنا چاہئے۔“
”پاپا“….اب اس کی آنکھوں میں خفگی کے آثار تھے…. ”تم میرے آنے سے خوش نہیں ہو۔“
”بہت ہوں“
”پھر یہ اٹپٹے سوال،اچھا تم بتاﺅ مجھے کب پیدا ہونا چاہئے تھا؟“
”جب آگ نہیں لگ رہی ہو بیکری میں زندہ انسان نہیں بھونے جارہے ہوں….“
”جھوٹ“….
وہ ہنس رہی تھی….”اب ایسا جھوٹ بھی مت بولو پاپا، تمہاری دنیا میں کونسا دن ایسا ہے جب آگ نہیں لگ رہی ہو، انسان نہیں مر رہے ہوں….“
”مگر اس طرح بیکری میں؟“
”ہزاروں مثالیں ہیں پاپااس سے بھی برے دن آئے تھے اس سے بھی برے دن آئیں گے سنو ….وہ کھلھلارہی تھی آنے سے پہلے اﷲ میاں نے بہت سی تصویریں دکھائی تھیں مجھے پوچھا تھا کہاں جانا ہے؟ بس میں نے یہاں انگلی رکھ دی تمہاری تصویر پر صاف بول دیا یہی میرے پاپا ہیں فرشتوں نے سمجھایا تھا مت جاﺅ انعمتہ مت جاﺅ…. یہیں کھیلو
”پھر؟“
”مگر مجھے تمہیں دیکھنا تھاممی کوساشا کو“
اور جلتی بیکری کو میں نے جواب پورا کیا
”ہاں، اس میں میرا کیا قصور مجھے کیا معلوم تھا کہ تمہاری دنیا میں ہر روز یہی ہوتا ہے“
”ہر روز بیکری نہیں جلتی۔“
”اب بہانہ مت بناﺅ پاپا۔ تم میرے آنے سے خوش نہیں ہو۔“
”خوش تو بہت ہوں بٹیا مگر….“
”بیکری“…. بٹیاہنس رہی تھی___ چلو برتھ ڈے نہیں مناﺅں گی۔ ٹھیک۔ تمہیں میرے لئے بیکری سے کیک نہیں منگوانا پڑے گا…. ٹھیک….“
”ہاں۔ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ کیونکہ کیک اور بریڈ کے نام پر….“
”چھی….چھی…. پاپا…. کھانے کے بارے میں ایسا نہیں بولتے___ مگر جانتے ہو___ آنے سے پہلے میں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا۔ میں نہیں جانتی، انصاف کی عمارتوں میں کیا ہوتا ہے۔ مگر میں روئی تھی پاپا۔ ایک لمحہ کو دل، یہاں…. تمہاری اِس دنیا میں
آنے کے لئے بدل بھی گیا تھا…. سوچتی تھی…. یہاں ایسا ہی ہوتا ہے…. میں تو گھبراگئی تھی پاپا…. ایک میری دوست بھی تھی…. بس وہ آنے والی تھی…. آنے والی تھی…. آنے والی….“
چلتے چلتے جیسے ٹیپ پھنس گیا ۔
”کیا ہوا؟“
”کچھ نہیں۔“ وہ زور سے چلاّئی۔ آنکھوں سے رِم جھم آنسو کی برسات ہورہی تھی۔ وہ کوثرآنٹی کی بٹیا تھی___ نرمدا پٹیا میں___ وہ مجھ سے ڈھیر ساری باتیں کرتی تھیں۔ کبھی کبھی فرشتے ہمیں گھنٹوں باتیں کرتے دیکھ کر ڈانٹ بھی دیتے تھے…. چپ رہو۔ دنیا کے طور طریقے ابھی سے مت سیکھو___ آنسو اُس کے گال پر بہہ آئے تھے….
”وہ کوثر آنٹی کی بٹیا تھی…. میرے ساتھ ہی آنے والی تھی، مگر وہ__ غصّے میں تھی۔ تم نے رُلا دیا….“
”چل ….اب نہیں رُلاﺅنگا….“
وہ پھر جیسے یادوں کے غبار میں کھو گئی تھی۔ ”کوثر آنٹی کی بٹیا…. کتنی پیاری سی تھی۔ مجھ سے بھی زیادہ پیاری۔ مجھ سے باتیں کرتی تھیں۔ اماّں کے کھائے اچار کی باتیں۔ کوکھ میں چھن کر آنے والی، سورج کی کرنوں کی باتیں۔ اپنے حصّے کی سانس اور اپنے حصّے کی دھوپ کی باتیں___ اپنے ابوّ کی ہتھیلی کا ”سایہ“ اُس نے امّی کے پیٹ پر دیکھا تھا۔ اُس کو اپنے حصّے کا پورا پورا سایہ دیکھنا تھا…. وہ مچھلی کی طرح تیرتی تھی۔ لیکن ایک دن….“
انعمتہ کے چہرے پر لرزہ تھا۔ ”سب کچھ میرے سامنے ہوا پاپا…. میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اچانک گنگنے ملائم اندھیرے سے نکل کر تیز دھوپ میں پہنچ گئی….
وہ ناپیدہی رہ گئی۔ میرے سامنے ہی سب کچھ…. میرے سامنے ہی ہوا…. پاپا…. ”وہ کانچ تھی…. آگ کی آنچ میں پگھل پگھل گئی۔“
انعمتہ رو رہی تھی___
”نہیں، روﺅ مت“
اس نے آنسوپوچھے…. ”چلو نہیں روتیمگر تم لوگ برے ہو “
”میں“؟
”نہیں تم نہیں میں توان لوگوں کے بارے میں کہہ رہی تھی جو تم ان میں شامل نہیں ہو مجھے تسلی ہوئی گوشت کے نازک سے ٹکرے کو ہاتھوں میں اٹھایا…. سنو انعمتہ جو ہوا سو ہوا اب سب کچھ بھول جاﺅ اب ایسا نہیں ہوگا
”ہوا تو….؟“
”نہیں ہوگا….“میں نے ہنستے ہوئے کہا…. جہاں دن ہوتا ہے وہاں جہاں دھوپ ہوتی ہے وہاں جہاں دکھ ہوتا ہے وہیں خوشیوں کے موسم بھی ہوتے ہیں….
وہ ہنس رہی تھی….”پرانی مثالیں ہیں پاپا…. اب اتنا بھی پرانے مت بن جاﺅ۔ ہاں سنو غور سے سنو سچی بات یہ ہے کہ جلتے
انسانوں کو دیکھ کر میں بھی سوچ میں گم ہوگئی تھی۔ پھر کوثر آنٹی کی بیٹیا والا حادثہ ہوگیا میں تو بالکل پتھر ہوگئی پاپا لیکن پھر بھی میں آئی اس لئے کے میں اپنے حصے کی دھوپ، اپنے حصے کی ممی اور اپنے حصے کے پاپا کو دیکھنا چاہتی تھی مگر اتنا یاد رکھو پھر کچھ گڑبر ہوا تو میں رہوں گی نہیںواپس چلی جاﺅں گی“
پھر جیسے شام ہوتے ہوتے دن بھر کی دھوپ پرانی پڑ جاتی ہے….کھونے لگتی ہے….
جیسے ایک دن کا چاند پرانا ہوجاتا ہے صبح کی سپیدی پھیلنے سے پہلے ہی گم ہوجاتی ہے جیسے ایک رات جیسے ایک ساون جیسے ایک موسم جیسے ایک لمحہ فنا ہو کر آنے والے دوسرے لمحے میں گم ہوجاتا ہے جیسے آنے والا پل جانے لگتا ہے….
ویسے ہی ندی بہتی رہیگاتی رہی نئی لہریں، پرانی لہروں سے ٹکراتی اُسے پیچھے چھوڑتی رہیں….
انعمتہ عمر کے پالنے میں چھوٹی اور چھوٹی ہوتی رہی….کبھی کبھی دل کرتا تو زور سے ہنس دیتی….
تبسم کے چہرے پرزندگی اور امید کی ایک کرن لہراتی…. ”دیکھو، وہ پھر سے ہنس رہی ہے“
نہیں،مجھے احساس تھا اور شاید اسی لئے میں اپنی نظریں نیچی کرلیتا تھا…. ”نہیں، وہ جارہی ہے اور اس نے مجھ سے صاف صاف کہہ دیا ہےاسے بریڈ اور کیک پسند نہیں ہے بریڈ اور کیک والوں کی اس دنیا میں اسے نہیں رہنا ہے“
تبسم کی آنکھیں نم ہےں
میں اپنا چہرہ دوسری جانب گھما لیتا…. سنو اب اس نے صاف صاف کہہ دیا ہے نہیں یقین کروبالکل صاف صاف…. میری آنکھوں میں جھانک کر کہ ایک صبح جب ہماری آنکھیں کھلیں گی وہ فرشتے اور خوشبو کے قافلے کے ساتھ گم ہوچکی ہوگی اسے نہیں رہنا ہے وہ نہیں رہے گی دیکھو دیکھو وہ کہہ رہی ہے….“
میں انعمتہ پر جھک گیا ہوں۔ وہ مسکرائی ہے۔ میں نے ایسی عجیب وغریب مسکراہٹ آج تک حسین سے حسین چہرے پر بھی، سجی ہوئی نہیں دیکھی۔ وہ اِس دنیا کی مسکراہٹ نہیں تھی۔ اُس کی مسکراہٹ کا ہر لفظ سنا جاسکتا تھا۔
”سنو پپاّ…. میں آئی…. میں نے دیکھا، مگر میں فتح حاصل نہیں کرسکی۔ میں فتح حاصل کرنے آئی بھی نہیں تھی۔ بس، اپنے حصّے کے پاپا…. اپنے حصّے کی تمام چیزیں…. میں نے بس دو برسوں میں ہی سمیٹ لی۔ اب میرا یہاں کیا کام پاپا…. آج رات تیز بارش ہوگی اور کل صبح میں واپس ’اﷲ گاﺅں‘ چلی جاﺅں گی___ مگر…. رونا مت۔یاد کی کوئی بارش میرے نام کرلینا…. بارش کی کسی ایک بوند پر میرا نام لکھ لینا اور….“
میں جیسے کسی درد کے سمندر میں بہہ رہا ہوں۔
ایک کوکھ میں ’چھٹک ‘ گئی___
دوسری، باہر آکر چٹخ گئی___
تیسرا میں ہوں، جو ہزاروں طرح کے خوف، دہشت کے ساتھ ابھی بھی اُس ماحول کے دہشت بھرے ’سناٹے یا ویرانے ‘ میں
بھٹک رہا ہوں۔ لیکن میرا ایک سچ اور بھی ہے۔ اُس دن سے روٹی کھائی نہیں جاتی۔ بیکری کسی ڈراﺅنے خواب کی مانند لگتی ہے….!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“