مجھے بہت عرصہ بعد اپنے انتہا کے غصہ والی طبعیت کا جواز پڑھنے کو ملا ۔ جب بھی میں ملازمت میں راشی مافیا کا عمل دخل دیکھتا تو شدید غصہ میں آ جاتا ۔ میں جانتا تھا کے میں ریاست کا امین ہوں اور ریاست کو ہر گند سے پاک رکھنا میرا اولین فریضہ ۔ میرے دوست ، معروف اینکر کلاسرا صاحب بھی اکثر لُوٹ مار کی داستانیں سناتے ہوئے بہت برہم دکھائ دیتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ہم دونوں کے دل تو بہت اچھے ہیں ۔ رحم کا عنصر بہت زیادہ ، میرا دل تو اکثر سوچتا ہے پوری دنیا کو خوش و خرم دیکھوں ۔ اپنا سب کچھ لوگوں کی محرومیوں کو ختم کرنے میں لُٹا دُوں ۔
بُدھا کی تعلیمات کے فروغ کے لیے کینیڈا میں ایک فاؤنڈیشن Lion’s Roar کے نام سے ہے اور ہر جمعہ کو وہ اپنا اسی نام سے ایک جریدہ بھی نکالتے ہیں ۔ اس جریدے کے چیف ایڈیٹر ایک شخص Melvin McLeod ہیں جو بُدھ ماتا کے فلسفہ پر بہت زبردست مضامین لکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی اس سال کے اپریل میں The wisdom of Anger کے عنوان سے مضمون لکھا جو نہ صرف Lion’s Roar جریدے کی زینت بنا ، بلکہ پوری دنیا میں بہت مقبول ہوا اور بہت سارے جریدوں اور اخبارات نے اسے شائع کیا ۔
میکلوڈ کے نزدیک اگر آپ غصہ کی انرجی کا درست اور صیحیح استعمال جانتے ہیں تو
“It Becomes fierce and compassionate wisdom “
کیا زبردست بیانیہ ۔ جزبات دراصل ہیں ہی صرف دو ، ایک محبت سے پُھوٹتے ہیں اور دوسرے نفرت سے ۔ آپ کو رشوت اور فراڈ کرنے والوں سے شدید نفرت کرنی ہو گی اگر ان پر ہاتھ ڈالنا ہے ۔ میکلوڈ اس میں غصہ کی دو اقسام بتاتا ہے ۔ ایک وہ جو جارہیت میں تبدیل ہو جاتا ہے ، جس میں دراصل زاتی انا آ جاتی ہے اور دوسرا بغیر انا والا جو حکمت اور ایک زبردست انرجی بن کے ابھرتا ہے ۔میکلوڈ اسے یوں بیان کرتا
“The pure energy of anger has wisdom and power. It can even be enlightened”
مزید میکلوڈ غصہ کے نفی جزبات کو ایک درست سمت گردان کر بیان کرتا ہے ، یقیناً مجھ جیسے کو جس نے ۲۰ سالہ نوکری میں ریاست کو بچانے میں صرف غصہ ہی کیا، ساری بات سمجھ میں آ جاتی ہے ۔
“Anger is the power to say no. They aren’t angry at us , but they are angry for us , seeing injustices”
کیا بات کہی ۔ میں اکثر کہتا ہوں کلاسرا صاحب غصہ میں ہمارے لیے ہی کُڑ رہے ہیں ، ساری ناانصافیاں دیکھ کر ۔ وگرنہ وہ تو میری طرح ایک بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں ۔
جب میں ۲۰۰۸ میں چیرمین لیکویڈیشن بورڈ بنایا گیا تو مین نے دیکھا کے میرے پیشرو بریگیڈئیر مان کواپریٹو کی املاک غیر شفاف طریقے سے بیچ کر اربوں روپیہ لُوٹ گئے تھے۔ اس میں ان کے ساتھ شامل فوجی جرنیل ، کاروباری حضرات اور نودولتیے شامل تھے ۔ میں نے ہمت کر کے کوئ ایک درجن کیس اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کو بھیجے ، اللہ بھلا کرے اس وقت کے اینٹی کرپشن ڈی جی کاظم ملک کا ، جس نے فورا ہی آٹھ کیسوں میں پرچہ کاٹ دیے وگرنہ اس وقت کے ایڈوکیٹ جنرل خواجہ حارث نے انہیں محض یہ کہ کر رد کر دیا کے یہ
Doctrine of Past and closed transactions
کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ وہ کیس آج بھی چل رہے ہیں، بریگیڈئیر مان کا گلے کا پھندا اور وہ آج بھی اشتہاری ۔ اگلے دن ہی خانیوال سے ایک انسپیکٹر اینٹی کرپشن نے مجھے فون کیا اور بریگیڈئیر مان اور کرنل منشا کے گھر کا پتہ پوچھا ، میں نے کہا جناب موجودہ چیرمین سے پوُچھو جو اب اس کا مدعی ہے ۔ دراصل یہ اس طرح کا غصہ ان تمام ناانصافیوں کے خلاف ہی مثبت نتائج لاتا ہے ۔ اگر آپ میں غصہ ہے تو آپ بقول میکلوڈ “no “ کہ سکیں گے
“to all that is selfish, exploitative and unjust “
اور اسی میں حکمت ہے پوری دنیا کے بھلے کی جسے وہ کچھ یوں بیان کرتا ہے ؛
“When it serves to ease others suffering and make the world better place”
بہت خوش رہیں اور جہاں حد تک ممکن ہو بُرائیوں کو روکیں ، کم از کم نفرت تو کریں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...