امرتا پریتم کی لکھی ہوئی سوانح عمری"رسیدی ٹکٹ" کو آج پڑھ کر مکمل کیا ہے اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ "رسیدی ٹکٹ" (اردو ترجمہ) اردو ادب کی وہ پہلی کتاب ہے جس کو میں نے ایک ہی سانس میں پڑھ کر ختم کیا ہے۔
170 صفحوں پر مشتمل یہ ایک نایاب اور دلچسپ کتاب ہے۔ اردو سمیت اس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔ یہاں پاکستان میں اردو زبان میں شائع ہونے والے ترجمے میں اصل کتاب کے کچھ واقعات کو حذف کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ترجمہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
"رسیدی ٹکٹ" اپنے وقت کی مشہور کتابوں میں سے ایک کتاب ہے۔ اب ہم چلتے ہیں اِس کتاب کی مصنفہ کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں جاننے کے لیے۔
امرتا پریتم 31 اگست 1919 کو متحدہ ہندوستان کے شہر گوجرانوالہ (جو کہ اب پاکستان کا شہر ہے) میں ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کا پیدائشی نام امرت کور تھا۔ 16 سال کی عمر میں "پریتم" سے شادی ہونے کے بعد آپ "امرتا پریتم" ہو گئیں۔ گوجرانوالہ کے علاوہ آپ کی عمر دو اور شہروں میں بھی گذری تھی، یعنی آدھی لاھور میں اور آدھی دہلی میں (آدھی غلام ہندوستان میں اور آدھی آزاد ہندوستان میں)۔
امرتا پریتم ایک نامور شاعرہ، ادیبہ، افسانہ نگار، ناول نگار کے ساتھ کہانی کار بھی تھیں۔ اوپر بیان کی گئی سب اصناف میں آپ کی بہت سی کتابیں ہیں جن کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
امرتا جب اٹھائیس برس کی تھیں تو انہوں نے ہندوستان کی تقسیم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اُس وقت جو ہندو مسلم فساد چل رہے تھے، عورتوں کو جبری اٹھایا جا رہا تھا اور بھی کئی واقعات کو ملا کر انہوں نے اپنے ایک اہم ناول میں قلم بند کیا ہے جس کا نام "پنجر" ہے۔ اس ناول پر انڈیا میں ایک فلم بھی بن چکی ہے جس میں مرکزی کردار اداکارہ "اُرملا" نے ادا کیا تھا۔ امرتا کو جب پنجر ناول کا "اکادمی ایوارڈ" ملا تھا تو ایک پریس نے امرتا کے پاس رپورٹر بھیجا جو امرتا کی لکھتے وقت فوٹو لینا چاہتا تھا۔ فوٹوگرافر نے امرتا کے پاس کاغذ اور قلم رکھا اور کچھ لکھنے کو کہا تاکہ وہ لکھتے وقت اُن کی تصویر لے سکے۔ اُس کاغذ پر امرتا نے ساحر ساحر ساحر۔۔۔ لکھا تھا۔
امرتا پریتم کا ساحر لُودھِیانوی کے ساتھ معاشقہ ادبی دنیا کے سب سے بڑے معاشقوں میں شمار ہوتا ہے اور ساحر کے ساتھ اس کا معاشقہ ہی امرتا کے اپنے شوہر کے ساتھ طلاق کا سبب بھی بنا تھا۔ رسیدی ٹکٹ میں ایک جگہ امرتا لکھتی ہیں کہ
"اکثر لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں کہ نوراج (امرتا پریتم کا بیٹا) پریتم کا نہیں بلکہ ساحر کا بیٹا ہے کیونکہ نوراج کی شکل ساحر سے مِلتی جُلتی تھی۔ اُنھی دنوں میں ایک روز نوراج نے بھی آکر پوچھا۔ اس وقت نوراج کی عمر تیرہ سال تھی۔
ماما ایک بات پوچھوں، سچ سچ بتا دو گی؟؟
ہاں!!
"کیا میں ساحر انکل کا بیٹا ہوں؟"
"نہیں!"
"لیکن اگر ہوں تو بتا دیجیے! مجھے ساحر انکل اچھے لگتے ہیں!"
"ہاں، بیٹے مجھے بھی اچھے لگتے ہیں، لیکن اگر یہ بات سچ ہوتی تو مجھے تمہیں بتاتے وقت فخر محسوس ہوتا!"
آگے چل کر وہ مزید لکھتی ہیں کہ
"سچ کی بھی اپنی ایک الگ طاقت ہوتی ہے اور اس روز میرے بیٹے نے مجھ پر یقین کر لیا تھا۔ ساحر جب لاہور مجھ سے ملنے آتا تھا تو وہ آتے ہی سگریٹ جلا دیتا تھا۔ وہ آدھی سگریٹ پیتا تھا اور آدھی بُجھا دیتا تھا۔ کبھی ایک بار میں ساحر کے ہاتھوں کا لمس لینا چاہتی تھی۔ اس کے جانے کے بعد اس کی بچی ہوئی سگریٹ کے ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھہ کر جلاتی تھی اور انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔کہ جیسے اس کا ہاتھ چُھو رہی ہوں اور سگریٹ پینے کی عادت مجھے اُس وقت پہلی بار پڑی تھی۔ یہ واقعہ میں نے اپنے ناول "ایک تھی انیتا" میں بھی قلم بند کیا ہے"
ساحر امرتا کی بےپناھ محبت کے ساتھہ وفا نہ کر سکا اور ساحر نے فیروزہ سے شادی کر لی تھی۔
امرتا کے ناول پڑھنے کے بعد لڑکیاں اکثر ان ناولوں میں دیئے گئے کرداروں کی زندگی کو اپنی زندگی سے ملاتی تھیں۔
"ایک تھی انیتا" ناول جب اردو میں شائع ہوا تو حیدرآباد سے چکلے میں رہنے والی ایک عورت نے امرتا کو خط لکھا اور کہا کہ
"یہ میری کہانی ہے"
آپ رسیدی ٹکٹ میں لکھتی ہیں کہ
ایک بار سرن شرما ٹیلی وژن پر میرا انٹرویو لے رہے تھے کہ اچانک انہوں نے سوال کیا۔ "امرتا! تمہارے ناولوں کو لڑکیاں اپنے سچ کی تلاش میں بنے ہوئے گھر مسمار کر دیتی ہیں۔ کیا یہ سماج کے لیے نقصان دہ نہیں؟؟
بے ساختہ زبان پر جواب آیا تھا "شرما جی آج تک جتنے گھر ٹوٹتے رہے ہیں، جھوٹ کے ہاتھوں ٹوٹتے رہے ہیں۔ اب کچھ سچ کے ہاتھوں بھی ٹوٹ لینے دیجیے!"
رسیدی ٹکٹ کو امرتا پریتم نے مختلف موضوعوں میں تقسیم کیا ہے اور، جس بھی کہانی کو بیان کیا ہے، اس کو بیان کرنے سے پہلے ایک نام دیا ہے یا پھر اُس واقعے کی تاریخ لکھی ہے۔ رسیدی ٹکٹ میں ویسے تو کئی قصے درج کیے گئے ہیں لیکن ایک بہت اھم قصہ ہے جو یہاں پر بیان کرنا لازمی ہے اور وہ ہے بغاوت۔
آپ لکھتی ہیں کہ؛
"ایک وہ بھی پل ہے جب گھر میں تو نہیں، پر رسوئی میں نانی کی حکومت چلتی تھی، سب سے پہلے میں نے بغاوت وہیں کی تھی۔ جب باورچی خانہ کی پڑچھتی پر تین گلاس باقی برتنوں سے الگ تھلگ، ہمیشہ ایک کونے میں پڑے رہتے تھے۔ یہ گلاس صرف تب اتارے جاتے تھے جب والد کے مسلمان دوست آتے تھے اور ان کو لسّی پانی دیا جاتا تھا۔ ان تین گلاس کے ساتھ میں بھی چوتھے گلاس کی طرح شامل ہوگئی اور ہم چاروں نانی کے ساتھ لڑ پڑے۔ میں نے ضد پکڑ لی کہ میں ان چاروں گلاس کے سوا نہ کسی میں پانی پیوں گی اور نا ہی دودھ۔ نانی ان گلاس کو تو الگ رکھ سکتی تھی مگر مجھے بھوکا پیاسا نہ رکھہ سکتی تھی۔ آخرکار بات والد تک پہنچ گئی، والد کو اس سے قبل معلوم نہ تھا کہ گلاس اس طرح الگ رکھے جاتے تھے۔ ان کو پتہ چلا تو میری بغاوت کامیاب ہو گئی۔ پھر نہ کوئی برتن ہندو رہا اور نہ مسلمان۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ بڑی ہو کر مجھے اس مذہب کے لڑکے سے عشق ہو گا جس کے برتن بھی اچھوت بنا دیے جاتے تھے"
امرتا پریتم کو لکھنے کا فن اپنے والد کے علاوہ کم سن عمر میں رابندر ناتھ ٹیگور سے بھی ملا۔
ایک جگہ آپ نے لکھا ہے کہ
"جب میں رابندر ناتھ ٹیگور سے ملی تھی تب بھی میں تھوڑی بہت نظمیں لکھتی تھی، لیکن انجان سی۔ انہوں نے جب ایک نظم سنانے کے لیے کہا تو جھجکتے جھجکتے سنائی تھی۔ لیکن انہوں نے جو پیار اور توٙجہ دی تھی، وہ نظم کے مطابق نہیں تھی، ان کی اپنی شخصیت کے مطابق تھی۔ وہ تاثر مجھ پر بہت گہرا تھا اور آج میں اس قابل بن سکی ہوں"
اس کتاب میں امرتا نے اس شخص کے بارے میں بھی ذکر کیا ہے جس کے ساتھ انہوں نے زندگی کے پچھلے چالیس 40 سال گذارے تھے اور اس سے شادی بھی کی تھی۔ وہ شخص مُصٙوِر امروز تھا، جو امرتا سے 6 سال چھوٹا تھا۔ جس کے نام امرتا نے یہ کتاب کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں بچوں کے نام بھی رسیدی ٹکٹ کو کیا گیا تھا۔
امرتا نے اس سوانح عمری میں اپنی قریبی دوست اوتار کا بھی ذکر کیا ہے، جو امرتا کے ہر دکھ سکھ میں ساتھہ تھی۔ ایک جگہ امرتا لکھتی ہیں کہ؛
"ایک روز میں نے اوتار کو پریشانی کی حالت میں ساحر کے بیمار ہونے کا حال سنایا تو وہ ساحر سے ملنے بمبئی ہسپتال تک جا پہنچی تھی اور جاکر ساحر کے سینے پر سٙر رکھ کر رو پڑی، اس کی پیشانی چومی اور حال دریافت کرتی رہی۔ جب واپس آئی تو مجھے کہنے لگی؛ جب ساحر کے سینے پر سر رکھا تو محسوس ہوا کہ یہ میں نہیں تُو تھی۔ جو ساحر سے لپٹ کر رو رہی تھی"
رسیدی ٹکٹ میں اس طرح کے کئی دلچسپ واقعات ہیں جو کہ آپ صرف یہ کتاب پڑھ کر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...