امرتا پریتم کا "آخری خط" جو اس نے اپنے محبوب ساحر لدھیانوی کو اس کے مرنے کے بعد لکھا تھا
"میرے محبوب ویسے تو جب بھی کوئی نغمہ لکھنے لگتی ہوں ، مجھے محسوس ہوتا ہے میں تم کو خط لکھنے لگی ہوں ۔۔ لوک گیتوں کی گوری کبھی کوؤں کو قاصد بناتی ہے، اور کبھی کبوتروں کے پیروں میں پیغام لپیٹ دیتی ہے۔ پرانے وقت اب گزر گئے ، جب کوئی برہن سر کے پراندے سے دھاگہ توڑتی تھی اور کسی جاتے راہ گیر کے پلو سے باندھ دیتی تھی ۔ وہ لوگ خو ش قسمت ہوتے ہیں جو کسی چٹھی رساں کے قدموں کے سراغ لیتے ہیں ۔مگر جب ۔۔ کسی کو خط ڈالنا ممکن نہ ہوتواس وقت صرف ہوائیں ہی رہ جاتی ہیں جن کے پلو میں کوئی پیغام باندھ دیں ۔۔ کوئی میگھ ،جیسے کالی داس کا نامہ بر بن گیا تھا ، میرا ہر نغمہ میرا ایک خط بن گیا ہے ۔۔
مجھے یاد ہے جب میں نے پہلے تمہیں دیکھا تھا ، ایک بیگانہ گاؤں تھا اور میں سوچنے لگی تھی کہ گاؤں بیگانہ ہے مگر تم کیوں بیگانے نہیں۔
ایک دن میرے گھر کی دہلیز کو تمہارے قدموں نے چھوا ۔۔ میں نے تمھاری آواز سنی تو مجھے محسوس ہوا ،جس ہوا میں تمہاری سانس ملی ہے اس میں ایک مہک آ نے لگی ہے
ایک دن تم آئے ، تمہارے ہاتھ میں کاغذ تھا ، میں نے کہا پڑھ کر سناؤ گے ؟ اور تم نے اپنا نغمہ پڑھ کر سنایا۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ تمہاری آواز جیسی میں نے کبھی آواز نہں سنی ۔۔ تمہارے نغمے جیسا میں نے نغمہ نہیں سنا ۔۔
" میں پھر آ ؤں گا " یہ زندگی میں تم نے پہلا قول دیا تھا ۔۔
مجھے زندگی میں تمہارا پہلا خط ملا ”میں تیس تاریخ کو آؤں گا ۔۔ مجھے لگا جیسے میرے انتظار میں تمہاری ایک ہی سطر نے رنگ بھر دیئے “
پھر کبھی تمہارا خط نہیں آیا ۔
میرے محبوب میں آج تمہیں آخری خط لکھ رہی ہوں ۔۔ اس کے بعد کبھی نہیں لکھوں گی ۔۔ اور جب تم میرے جنگلی گیتوں کو پڑھو گے تو یہ نہ سوچنا کہ میں تمہیں خط لکھنا بھول گئی ہوں ۔۔ میں ان ہاتھوں سے صرف جنگلی گیت لکھوں گی اور ایک نئی صبح کا انتظار کروں گی جو سیاہ نظام کو بدل دے ۔۔دنیا کے اس نظام کو بدل دے جو شکاریوں اور لیٹروں کو پیدا کرتا ہےاور اگر میری زندگی میں وہ نئی روشن صبح آئی تو میں تمہیں اپنے پیار کا سنہری خط لکھوں گی ۔
"آج جب ساحر دنیا میں نہیں اور " تلخیا ں کا ایک نیا ایڈیشن چھپ رہا ہے تو اس کے پبلشر نے چاہا کہ اس کا دیباچہ لکھ دوں۔ نظموں کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گی کہ ساحر کی شاعری کا مقام لوگوں کی روح اور تاریخ کی رگوں کا حصہ بن چکا ہے۔ مجھ پر ساحر کا قرض تھا ۔ اس دن سے جب اس نے اپنے مجموعہ کلام پر دیباچہ لکھنے کو کہا اور مجھ سے لکھا نہیں گیا۔ آج وہی قرض اتار رہی ہوں ۔ اس کے جانے کے بعد ، دیر ہوگئی خدایا بہت دیر ہو گئی ”
ہاں، بٹوارے کے بعد میں نے اس سے صرف ایک بار بات کی تھی، وہ لاہور تھا میں دہلی، بٹوارے نے صرف ملک ہی نہ بانٹے، میری محبت بھی بانٹ ڈالی
“